ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی 60 سالہ ماہ نور بی بی قبائلی معاشرے میں رائج ایک ظالمانہ رسم غگ کے باعث عمر بھر شادی نہیں کر پائیں۔ آج سے لگ بھگ چالیس سال قبل ان کے علاقے کے ایک شخص نے اعلان کیا کہ وہ ان سے شادی کا خواہشمند ہے لہٰذا کوئی اور ان کیلئے رشتہ نہیں بھیج سکتا، بصورت دیگر ماہ نور بی بی کے خاندان اور رشتہ بھیجنے والے کو اس کی دشمنی مول لینی ہوگی۔ اس دھمکی کے باعث نہ تو ماہ نور بی بی کا رشتہ کہیں نہیں طے ہوسکا، اگر کوئی رشتہ آیا بھی تو انہوں نے اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کے خوف سے اسے رد کر دیا۔
ماہ نور بی بی کے ساتھ شادی کی خواہش کے اظہار کیلئے جو انداز اختیار کیا گیا اسے غگ کہا جاتا ہے۔ پشتو زبان میں 'غگ' کے لغوی معنی 'آواز لگانا' کے ہیں۔ جو کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کا ایک قدیم رواج ہے، اس کے تحت اگر کوئی شخص جا کر کسی خاتون کے گھر کے باہر تین ہوائی فائر کر دے اور لوگوں کے سامنے اس پر اپنا دعوٰی کر دے یا لڑکی کے گھر کسی کو بھیج کر شادی کا ارادہ ظاہر کر دے اور کہے کہ آج سے اس خاتون پر صرف اسی کا حق ہے تو اس صورت میں اگر لڑکی کا خاندان اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دے تو اسے متعلقہ شخص کی دشمنی مول لینی ہوگی، جس کا نتیجہ دونوں فریقین میں سے کسی کی موت کی صورت نکل سکتا ہے یا قبائلی غیرت اور انا بیچ میں آجائے تو طویل دشمنی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اب یا تو لڑکی خاتون کی شادی کہیں اور نہیں ہو سکتی۔
ویسے ہی کسی پر غگ ہونے کے بعد اگر کوئی اور اس لڑکی سے شادی کرلے تو دشمنی کا دائرہ اس خاندان تک بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے عام طور پر کوئی شخص دشمنی مول لینے کے خطرے سے اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا۔
ماہ نور کہتی ہیں کہ اس رسم کے باعث ان کی زندگی سے خوشیوں کا خاتمہ ہو گیا، "میں کسی بھی طرح کی تقریبات میں شرکت نہیں کرسکتی تھی کیوں کہ جس شخص نے مجھ پر غگ کی تھی وہ ہر جگہ میرا پیچھا کرتا تھا۔ مجھے یہ خوف بھی تھا کہ کہیں وہ مجھے یا پھر میرے بھائی کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اسی لئے میرا بھائی بھی اپنے کام پر جانے آنے کے لئے راستے بدلتا رہتا تھا۔"
خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم سرکل ویمن آرگنائزیشن میں شعبہ تحقیق کے سربراہ عبدالہادی کے مطابق غگ سے متاثرہ خاتون یا تو حالات سے سمجھوتہ کر کے خود پر دعویٰ کرنے والے شخص سے شادی کر لیتی ہے یا شادی کیے بغیر ہی زندگی گزار دیتی ہے۔
ماہ نور بی بی نے شادی کے بجائے اکیلے رہنےکو ترجیح دی کیونکہ اس کی والدہ اور بھائی نہیں چاہتے تھے کہ انہیں ایسے شخص کے حوالے کریں جس نے ان پر غگ کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی دو بہنوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بہن نے جرگوں کے ذریعے والدین پر دباؤ ڈالے جانے کے بعد غگ کرنے والے شخص سے شادی کر لی تھی جبکہ دوسری بہن پر ان کے ایک شادی شدہ رشتہ دار نے غگ کیا تھا۔
ماہ نور کے بقول ان پر بھی جس شخص نے غگ کیا وہ پہلے سے شادی شدہ اور مالی اعتبار سے کمزور شخص تھا، اس نے ان کے والد سے کسی معاملے میں انتقام لینے کیلئے شادی کا دعوٰی کیا تھا۔
عبدالہادی نے غگ پر ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھ چکے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کے مابین خاندانی دشمنیاں عام ہوتی ہیں اس لئے بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر بھی غگ کر دیتے ہیں۔
2013ء میں خیبرپختونخوا کی حکومت نے غگ کو ایک ایکٹ کے ذریعہ ختم کرنے کا بل پاس کیا۔ اس غگ کرنے والے کیلئے تین سے سات سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں مقرر کی گئیں اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا۔
جب یہ قانون خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا اس وقت ستارہ ایاز سماجی بہبود و خواتین کی خود مختاری کی وزیر تھیں، ان کا دعوٰی ہے کہ یہ قانون آنے کے بعد اس نوعیت کے کیسز میں کافی کمی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود صوبے کے جنوبی اضلاع میں غگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
"اس قانون سے پہلے عدالتوں میں بھی کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ایسے مقدمات کا کیا کریں کیونکہ اس رسم کے خلاف کوئی قانون ہی نہیں تھا۔ تاہم قانون بن جانے سے بہت سی خواتین کو فائدہ ہوا اور ہو رہا ہے۔"
تاہم عبدالہادی اس قانون کو غگ کے خاتمے کا موثر طریقہ نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ قانون کے تحت کوئی شخص کسی خاتون کو کہیں بھی شادی کرنے سے روک نہیں سکتا اور نہ ہی خاتون کے گھر والوں پر اس کے رشتے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد کرتا ہے۔ لیکن غگ کا نشانہ بننے والی خاتون سے شادی کرنا دشمنی مول لینے کے مترادف ہے اس لئے قانون کی موجودگی کے باوجود لوگ متاثرہ لڑکی سے شادی نہیں کرتے۔
عبدالہادی کا یہ بھی کہنا ہے: "اس قانون میں مختلف علاقوں میں رائج غگ کی مختلف صورتوں کا تذکرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملزموں کو فائدہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ قانون جرگے کے فیصلوں کو بھی نہیں روک سکتا جو کہ عام طور پر خواتین کے خلاف جاتے ہیں۔"
پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش کاکاخیل بتاتی ہیں کہ خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں غگ کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں کئی جگہوں پر یہ رسم اب بھی جاری ہے تاہم ایسے بیشتر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
"قبائلی علاقوں میں خواتین پر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے وہاں پولیس تک رسائی بہت محدود ہے، قدامت پسندی کے باعث خواتین پولیس اہلکار نہ ہونے کے برابر ہیں اور متاثرہ خواتین کیلئے مرد پولیس اہلکاروں کو اپنے حالات سے صحیح طرح آگاہ بھی نہیں کر سکتیں۔ تین سال پہلے سابقہ فاٹا کے ضلع کرّم میں پہلی مرتبہ خواتین کیلئے الگ ماڈل پولیس سٹیشن بنایا گیا تو وہاں سے پہلے سال خواتین کے دیگر مسائل کے علاوہ غگ کے گیارہ کیس رپورٹ ہوئے تھے۔"
غگ کے کیس رپورٹ نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملزم اور متاثرہ خاندان پولیس میں رپورٹ درج کرانے اور عدالت جانے کو اپنے خاندانوں کی بے عزتی سمجھتے ہیں اور اسی لئے قانون کا سہارا نہیں لیتے۔
مہوش کے مطابق اگر کسی دارالامان سے اس نوعیت کے کیس ان کے پاس آئیں تو بطور وکیل انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مقدمات میں فریق مخالف کے وکیل کو بھی دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ چونکہ مرد وکیل ایسے واقعات کی حساسیت کو نہیں سمجھتے اس لئے وہ متاثرہ خواتین سے غیرمناسب سوالات کرکے انہیں مزید پریشانی میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف سے ناامید یہ خواتین خاموشی سے غگ کرنے والے کے ساتھ شادی کر لیتی ہیں اور یا اکیلے زندگی گزار نے پر مجبور ہوتی ہیں۔
عبدالہادی کے مطابق غگ کی رسم خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع لکی مروت، بنوں، شمالی و جنوبی وزیرستان اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں اب بھی موجود ہے لیکن اس کا طریقہ بدل چکا ہے۔ ماضی کی طرح اب فائرنگ کرنے یا عوامی سطح پر اعلان کرنے کے بجائے غگ کرنے والا غیراعلانیہ طور پر لوگوں کو آگاہ کر دیتا ہے کہ فلاں خاتون پر اس کا دعویٰ ہے اس لئے کوئی اور اس کا رشتہ نہ مانگے۔"
یہ بھی پڑھیں
تربت میں خواتین کا پولیس سٹیشن: عورتوں کے خلاف جرائم کم کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟
پشاور میں عورت فاونڈیشن کی صوبائی مینجر صائمہ منیر کہتی ہے کہ صوبے کے قبائلی اضلاع میں اس رسم کے اب بھی موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان اضلاع میں انضمام سے پہلے تو ایسا کوئی قانون تھا ہی نہیں اور لوگوں کو ان نئے قوانین کے اب اطلاق کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی۔
"قبائلی علاقوں میں عورت مرد کی ملکیتی شے سمجھی جاتی ہے اور اس کی شادی کرتے وقت بھی اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی۔ دوسری طرف کسی مرد کو کوئی لڑکی پسند آ جائے تو وہ بلاخوف اسے غگ کر دیتا ہے اور لوگ اسے اپنی ثقافت کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس رسم کے فوری طور پر ختم ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔"
ماہ نور بی بی کو شادی نہ کرنے کے فیصلے پر اب کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ کر کے اپنی، اپنے اہلخانہ اور دوسرے لوگوں کی زندگی کو تحفظ دیا۔ غگ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ کسی نے کوئی برا رویہ بھی اختیار نہیں کیا اور ان کے خاندان نے بھی انہیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان کی شادی نہیں ہو سکی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بھانجے بھتیجے ہی ان کے بچے ہیں جو ان کا پورا خیال رکھتے ہیں۔"
تاریخ اشاعت 19 مئی 2023