کوئٹہ کی محمد علی جناح روڈ تقریباً سارا دن لوگوں سے کھچا کھچ بھری رہتی ہے۔ اس سڑک کے عقب میں شاہراہِ عدالت ہے جس پر کوئٹہ پریس کلب واقع ہے۔ اس شاہراہ پر تقریباً روزانہ لوگ مختلف مسائل پر مظاہرے کرنے آتے ہیں تا کہ مقامی صحافی آسانی سے ان کے احتجاج کو رپورٹ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر اس شاہراہ پر نعروں کی آواز پورا دن سنائی دیتی رہتی ہے۔
اس آواز سے پرے اس شاہراہ کے ایک کونے میں پچھلے گیارہ سال سے ایک کیمپ لگا ہوا ہے جس میں سو سے زائد افراد کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جو ان بلوچ لوگوں کی ہیں جنہیں پچھلی دو دہایئوں میں جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔ یہ کیمپ ان لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے لگایا گیا ہے تاکہ حکامِ بالا تک ان کی آواز پہنچ سکے۔ مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف ان لاپتہ افراد کی واپسی نہیں ہوئی، بلکہ مزید کئی افراد بھی غائب ہو گئے ہیں۔ کیمپ میں کچھ تصاویر ان لوگوں کی بھی ہیں جن کی گمشدگی کے کچھ عرصے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
حسیبہ قمبرانی نامی نوجوان خاتون کئی مہینوں اس کیمپ کا چکر لگا رہی ہیں۔ یہاں لگی تصاویر میں ان کے دو بھایئوں سمیت ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کی تصاویر بھی ہیں۔
حسیبہ قمبرانی کا تعلق کوئٹہ کے مضافات میں واقع گاؤں کلی قمبرانی سے ہے۔ انھوں نے سجاگ کو بتایا کہ انکی زندگی کا بیشتر حصہ شدید غربت میں گزرا ہے اور بہت چھوٹی عمر سے ہی وہ محرومیاں دیکھتی آئی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی تعلیم سرکاری سکول تک محدود رہی ہے اور انھوں نے بی اے تک باقی تعلیم ٹیوشن پڑھا کر پرائویٹ امتحانات کے ذریعے مکمل کی۔ ان کے والد زراعت کے شعبے سے وابستہ ایک چھوٹے دفتر میں ملازمت کرتے تھے اور 2013 میں ریٹائر ہو گئے۔ اس کے ساتھ وہ کلی قمبرانی میں رضاکارانہ طور پر ایک مسجد کے امام رہے ہیں اور ان کی والدہ کشیدہ کاری کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں ان کی مدد کیا کرتی رہی ہیں۔
حسیبہ کے ایک بھائی سلمان قمبرانی مالی کا کام کرتے تھے اور اس نوکری کے ذریعے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سرکاری سکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ اسی آمدنی کی مدد سے ان کے چھوٹے بھائی حسان قمبرانی اسلام آباد میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
جولائی 2015 میں حسیبہ کے گھر پر پولیس، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور دیگر اداروں کے سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپا مارا اور یہ کہہ کر ان کے بھائی سلمان قمبرانی کو اپنے ساتھ لے گئے کہ وہ انھیں تفتیش کے لئے چند گھنٹوں کے لئے درکار ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے ان کے گھر والوں کو احتجاج کرنے سے بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ کسی بھی مظاہرے کی صورت میں سلمان قمبرانی کو مزید نقصان ہو سکتا ہے۔ اس واقعے کے کچھ ہی دیر بعد ان کے چچا زاد بھائی گزین قمبرانی کو بھی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان کے گھر والوں نے پولیس اور مقامی سیاستدانوں سے بات کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے یہ کہہ کر مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا کہ 'اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت درج کرنا ان کے اختیار سے باہر ہے'۔
ان کے علاقے کے منتخب سیاست دان بھی ڈیڑھ سال تک انھیں سلمان اور گزین کی بازیابی کی جھوٹی امیدیں دلاتے رہے۔ حسیبہ کے مطابق ان کے گھر والے عید اور چودہ اگست کا انتظار کرتے رہے تا کہ شاید 'ان دنوں میں رحم اور ترس کھا کر ان کے بھائیوں کو رہا کر دیا جائے گا'۔ مگر 11 اگست 2016 کو انھیں اطلاع ملی کہ کوئٹہ کے علاقے کیچی بیگ سے تین مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں سے دو لاشیں سلمان اور گزین کی تھیں۔ حسیبہ کے مطابق ان کے لاشوں پر جلنے کٹنے اور گولیوں کے نشانات تھے اور ان کی حالت سے واضح تھا کہ ’ان کے ہاتھ پاؤں توڑے گئے تھے اور ان کے ناخن کھینچ لئے گئے تھے‘۔
14 فروری 2020 کو ان کے ایک اور بھائی حسان قمبرانی کچھ سامان لینے گھر سے نکلے اور رات گئے تک گھر نہیں آئے۔ جب ان کے گھر والے پریشانی کی حالت میں انھیں ڈھونڈنے نکلے تو مقامی لوگوں نے انھیں اطلاع دی کہ ان کے بھائی کو سکیورٹی اداروں کے اہلکار بازار سے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو ان کے ایک اور چچا زاد بھائی کو بھی اٹھا لیا گیا۔ کئی دن تھانوں کے چکر کاٹنے کا بعد پولیس نے بالآخر نامعلوم افراد کے خلاف ان کے بھائی کے اغوا کا مقدمہ درج کیا اور انھیں دوبارہ بتایا کہ وہ سکیورٹی اداروں کے خلاف شکایت درج کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
حسیبہ نے سجاگ کو بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد کلی قمبرانی سے غائب ہونے والے پہلے افراد نہیں تھے بلکہ ان کے گاؤں سے جبری گمشدگیوں کا آغاز 2009 میں ہوا۔ تب سے تقریباً تیرہ افراد لا پتہ ہو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ شروع میں احتجاج کرنے اور میڈیا پر بات کرنے کے بعد افراد بازیاب کر لئے جاتے تھے مگر 2015 کے بعد بازیابی کا سلسلہ یکسر رک گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ہزارہ کان کنوں کی ہلاکت: بلوچستان میں مذہبی شدت پسند تنظیمیں کتنی طاقتور ہیں؟
حسیبہ کہتی ہیں کہ سلمان اور گزین کی بازیابی کے لیے تو وہ پولیس اور منتخب نمائندوں پر انحصار کرتی رہی ہیں مگر حسان کی گمشدگی کے بعد انھوں نے بلوچ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ کا رخ کیا اور اپنے اہلِ خانہ کی بازیابی کے لئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہ اپنی شکایت لے کر وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے پاکستان سٹیزنز پورٹل تک جا چکی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کو خطوط لکھ چکی ہیں مگر ان کی کوئی داد رسی نہیں ہوئی۔ 11 جون 2020 کو بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ضیاء لانگو نے ان سے ملاقات کر کے یقین دہانی کروائی کہ ان کے بھائی کو دو تین دن میں بازیاب کر لیا جائے گا مگر تا حال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
حسیبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں اب کئی ایسے گھر ہیں جہاں صرف عورتیں بستی ہیں کیونکہ ان کے گھر کے تمام مردوں کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔ 'ہم جب بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے نکلتی ہیں تو تمام اطراف سے لوگ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کہاں جا رہی ہیں، آپ کس سے بات کریں گی، آپ روڈ پر کیوں کھڑی ہیں'۔ ان کے مطابق کئی مردوں کو یہ شوق بھی ہوتا ہے کہ وہ انھیں تنبیہ کرتے رہیں کہ ان کا کونسا لائحہ عمل انھیں کتنا فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے اور انھیں کون سا طریقۂ کار اپنانا چاہیئے۔
ایسے حالات میں ایک عورت کے لئے ایسے مسائل کے خلاف آواز اٹھانا بذاتِ خود بہت بڑی جدوجہد ہے۔ 'احتجاجی کیمپوں تک میں مرد اکثریت میں ہوتے ہیں اور میں وہاں غیرمحفوظ محسوس کرتی ہوں۔ پولیس اہلکار اپنی مرضی کے مطابق مجھے یہ کہہ کر بلاتے رہتے ہیں کہ انھیں مجھ سے کچھ معلومات درکار ہیں۔ وہ جان بوجھ کر مجھے اس تھانے میں بلاتے ہیں جو میرے گھر سے کافی دور ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 21 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 17 فروری 2022