جھمپیر میں کوئلے کی کان میں مہلک حادثہ: 'نہ تو کانوں کے مالکان کو کان کنوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت ان کے بارے میں کچھ سوچتی ہے'۔

postImg

اشفاق لغاری

postImg

جھمپیر میں کوئلے کی کان میں مہلک حادثہ: 'نہ تو کانوں کے مالکان کو کان کنوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت ان کے بارے میں کچھ سوچتی ہے'۔

اشفاق لغاری

فضلِ ربی 5 جولائی 2022 کو سندھ کے جنوبی ضلع ٹھٹہ میں واقع کوئلے کی 360 فٹ گہری کان میں کام کر رہے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے اردگرد پانی جمع ہو رہا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر باہر موجود لوگوں کو بتایا کہ انہیں کان سے نکلنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے ورنہ وہ اور ان کے ساتھ کام کرنے والے 13 کان کن پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو جائیں گے۔ 

اس طرح کے ہنگامی حالات میں عام طور پر لوہے سے بنا ایک لِفٹ نما جھولا کان میں اتارا جاتا ہے تاکہ کان کن اس میں بیٹھ کر باہر نکل سکیں۔ تاہم اُس دن اُس جھولے کو چلانے والی مشین کا انجن کام نہیں کر رہا تھا۔ چنانچہ ایک آہنی رسی کے ساتھ کُنڈا باندھ کر اسے کان میں پھینکا گیا تاکہ اس کے ذریعے ایک ایک کر کے کان کنوں کو باہر کھینچا جا سکے۔ لیکن اس عمل میں اتنی دیر لگ گئی کہ اُن میں سے محض پانچ کو ہی بچایا جا سکا جبکہ باقی نو بے بسی سے چیختے چلاتے اور مدد مانگتے موت کے منہ میں چلے گئے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ فضلِ ربی بچ جانے والے کان کنوں میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں 12 سالہ عمر علی بھی شامل تھا "جس کا کام کان میں ہوا کی ترسیل کے لیے بنائی گئی کھڑکیاں کھلی رکھنا تھا"۔ اس کے والد علی محمد بھی اس کے ساتھ کان میں موجود تھے۔ تاہم "مددگاروں نے کڑی محنت کر کے ان کی جان بچا لی"۔

یہ دونوں باپ بیٹا سندھ کے ضلع جامشورو کے قصبے کوٹڑی سے کام کرنے آئے تھے۔ کان کنوں کے سپروائزار خان زمان کے مطابق اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے آٹھ دیگر افراد میں سے 20 سالہ محمد ابوبکر، 40 سالہ محمد عظیم، 37 سالہ گل حسن، 22 سالہ عطااللہ اور 22 سالہ سجاد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تھا جبکہ 48 سالہ پرویز، 36 سالہ جان ولی اور 34 سالہ میاں شیر اُسی صوبے کے ضلع شانگلہ کے رہنے والے تھے۔ 

میاں شیر کے بھائی بخت شیر جامشورو کے علاقے لاکھڑا میں کان کنی کا کام کرتے تھے لیکن حادثے کے روز وہ چھٹی پر اپنے گھر گئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنے سے ایک روز پہلے میاں شیر نے اپنے بیٹے اور تین بیٹیوں سے فون پر وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں بڑی عید کے کپڑوں کی خریداری کے لیے پیسے بھیجیں گے "لیکن چند روز کے بعد ان کی میت گھر آ گئی"۔ 

ان کے تیسرے بھائی جان شیر بھی اس حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے کیونکہ، فضلِ ربی کے مطابق، "جب وہ کان سے باہر آ رہے تھے تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد رسی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ دوبارہ پانی میں جا گرے۔ تاہم خوش قسمتی سے رسی پر لگا ہوا کنڈا ان کے کپڑوں میں پھنس گیا جس کی مدد سے انہیں بالآخر باہر کھینچ لیا گیا"۔ 

اس سارے عمل کے دوران جان شیر اتنے بے سدھ ہو گئے کہ انہیں باہر نکالنے والے مددگاروں نے سمجھا کہ وہ مر چکے ہیں۔ تاہم کچھ دیر کے بعد ان کے جسم میں حرکت ہوئی تو انہیں ایک قریبی قصبے جھرک کے دیہی مرکز صحت میں لے جایا گیا جہاں ان کی جان بچا لی گئی۔ اب وہ خیبر پختونخوا میں واقع ایک سرکاری طبی مرکز، سوات میڈیکل کمپلیکس، میں زیرعلاج ہیں۔  

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 

حادثے سے متاثر ہونے والی کان جھمپیر نامی گاؤں کے قریب واقع ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس علاقے میں ایک ہزار چھ سو 84 مربع کلومیٹر اراضی پر کوئلہ پایا جاتا ہے۔ اسے زمین سے نکالنے کے لیے بڑے بڑے گڑھے یا  کنویں بنائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کے اندر متعدد گہری سرنگیں کھودی گئی ہیں۔ کان کن ان سرنگوں میں سے کوئلہ نکال کر ان گڑھوں یا کنوؤں میں لاتے ہیں جہاں سے اسے بوریوں میں بھر کر اوپر پہنچایا جاتا ہے۔

جھمپیر میں ایسی کانوں کی مجموعی تعداد تین سو کے قریب ہے جن میں سے ہر ایک میں کم و بیش 30 مزدور کام کرتے ہیں۔ 

پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والی کئی مزدور تنظیموں کے اتحاد متحدہ لیبر فیڈریشن کے سندھ کے صدر اور لاکھڑا کول مائنز لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری آصف خٹک کہتے ہیں کہ یہ کانیں ایک ایسے علاقے میں واقع ہیں جہاں زیرِ زمین پانی کی سطح کافی بلند ہے کیونکہ پانی کے دو بڑے ذخیرے، کینجھر جھیل اور دراوت ڈیم، اس کے بالکل پاس واقع ہیں۔ 

وہ سمجھتے ہیں کہ 5 جولائی کو ہونے والے حادثے کا سبب اس پانی کی سطح میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ہونے والا اضافہ تھا۔ اس لیے وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ "اس موسم میں یہاں کان کنی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے"۔

صوبہ سندھ کے محکمہ توانائی کے ذیلی ادارے انسپیکٹوریٹ آف کول مائنز ڈویلپمنٹ کے چیف انسپکٹر رسول بخش چنّہ اس بات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے "کانوں میں بنی سرنگیں ڈھے جانی چاہئیں لیکن اس حادثے میں ایسا نہیں ہوا"۔ 

درحقیقت جھمپیر پولیس سٹیشن میں ان کی طرف سے درج کرائی گئی ایک ابتدائی معلوماتی رپورٹ میں کان کے مالک امان اللہ، اس کے منیجر عمر محمد اور کان کنوں کے ٹھیکیدار عالم زیب سمیت چار افراد کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے اندراج کے بعد پولیس نے عمر محمد اور عالم زیب کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن 22 روز جیل میں گزارنے کے بعد انہوں نے عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کر لی جبکہ امان اللہ نے شروع سے ہی ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔

کان میں داخل ہونے کا راستہکان میں داخل ہونے کا راستہ

اس دوران صوبائی حکومت نے جھمپیر میں کان کنی پر عارضی پابندی بھی لگا دی ہے اگرچہ اس پر عمل درآمد ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیتا کیونکہ حادثے کا شکار ہونے والی کان کے علاوہ دیگر تمام مقامی کانوں میں زور شور سے کام جاری ہے۔   

'خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے'

عزیز اللہ ببر نامی ایک مقامی باسی پچھلے 10 سال سے جھمپیر کی کانوں سے نکلنے والا کوئلہ ٹرکوں میں لادنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق "کان کنوں کو آئے روز حادثات پیش آتے رہتے ہیں لیکن نہ تو کانوں کے مالکان کو ان کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت ان کے بارے میں کچھ سوچتی ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ان کانوں میں کام کرنے والے لوگوں کے لئے نہ تو قریب میں کوئی اچھا ہسپتال موجود ہے اور نہ ہی انہیں کوئی ایمبولینس دستیاب ہے جو ہنگامی حالت میں انہیں جلد از جلد کسی ڈاکٹر یا طبی مرکز تک لے جا سکے"۔

اسی طرح جھمپیر میں کان کنی کرنے والے مزدوروں کے جسم پر نہ تو کان کنی کا مخصوص حفاظتی لباس دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کام کے دوران پہننے کے لیے لمبے بوٹ، ہیلمٹ اور دستانے دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کے ہاتھ پاؤں زخمی نظر آتے ہیں۔

کان کنی کے دوران حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث کان کنوں کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیںکان کنی کے دوران حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث کان کنوں کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں

آصف خٹک اس صورتِ حال کی ذمہ داری حکومتی غفلت پر ڈالتے ہیں۔ ان کے مطابق "حکومتی اہل کار کان کنوں کے لیے درکار حفاظتی انتظامات کا باقاعدگی سے معائنہ نہیں کرتے جس کے باعث کان مالکان ان انتظامات کو یقینی نہیں بناتے اور نتیجتاً کان کنوں کو اکثروبیشتر حادثوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔ 

تاہم انسپیکٹوریٹ آف کول مائنز ڈویلپمینٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل شہزاد مظفر قادر کے لکھے ہوئے ایک سرکاری خط کے مطابق انہوں نے آخری مرتبہ اپریل 2022 میں جھمپیر کی کانوں کا معائنہ کیا تھا۔ اس خط میں ان کا یہ بھی کہنا تھا 31 اگست 2020 کو انہوں نے متاثرہ کان کے مالکان کو حفاظتی طریقہ ہائے کار کے متعلق تمام تفصیلات فراہم کر دی تھیں۔ 

لیکن انہوں نے اس خط میں کہیں واضح نہیں کیا کہ آیا معائنے کے وقت تمام کانوں میں ضروری انتظامات موجود تھے یا نہیں اور آیا متاثرہ کان کے مالکان نے ان کے بتائے گئے حفاظتی طریقہ ہائے کار پر عمل درآمد کیا ہوا تھا یا نہیں۔

تاریخ اشاعت 24 اگست 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.