'روجھان میں جون کا سیلاب 'ہم ایک آفت سے سنبھلے نہیں تھے کہ دوسری سر پر آ پڑی'

postImg

مجاہد حسین خان

postImg

'روجھان میں جون کا سیلاب 'ہم ایک آفت سے سنبھلے نہیں تھے کہ دوسری سر پر آ پڑی'

مجاہد حسین خان

"ہم پچھلے سیلاب کے اثرات سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ ایک اور آ گیا۔ جن دنوں لُو چلتی ہے ان دنوں ہم سیلاب دیکھ رہے ہیں، آگے ساون بھادوں میں جانے کیا ہو گا۔"

یہ کہنا ہے روجھان کے نواحی علاقے بستی چونگلی کے احمد نواز چونگلی کا۔ انہیں شکوہ ہے کہ گزشتہ سیلاب کو نو ماہ ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں انتظامیہ نے ایک اور متوقع سیلاب سے بچاؤ کے ضروری اقدامات نہیں کیے۔

رواں برس جون کے پہلے ہفتے میں کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں سے رودکوہیوں میں طغیانی آئی۔ چونکہ گزشتہ سیلاب میں کچھی کینال ٹوٹ گئی تھی اس لیے سیلابی پانی اس میں سے قدرے آسانی سے گزر گیا۔ اس کے بعد جب یہ پانی مشرف ڈرین میں داخل ہوا تو اس کے کمزور پشتے تیز بہاﺅ برداشت نہ کر سکے اور ڈرین میں بہت بڑا شگاف پڑ گیا۔

ڈرین ٹوٹی تو اس کا پانی موضع مٹ نمبر 2، بستی چونگلی، بستی بختیار، بستی عبداللہ لولائی، بستی خدا بخش، بستی ڈھیوانی، بستی مکول، بستی سیداں، بستی جوئیہ اور صفدر آباد سمیت متعدد علاقوں میں داخل ہو گیا۔

احمد نواز نے ٹھیکے پر لی گئی زمین میں سے تین ایکڑ پر کپاس کاشت کر رکھی ہے۔ سیلابی ریلے سے نہ ان کا گھر محفوظ رہا اور نہ کھیت۔

ضلع راجن پور کے شہر روجھان کے جنوب میں بستی جوئیہ کے عبدالحمید اپنے بیوی بچوں سمیت گھر کا سامان نکال کر خشکی پر لا رہے تھے۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے گھر کے چاروں طرف پانی ہے۔ بوڑھے اور بچے باہر نہیں نکل سکتے اس لیے وہ اپنا گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔"

ماہرین موسمیات کے مطابق 2008ء سے اب تک راجن پور میں رود کوہیوں کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا بڑا سبب سیلابی پانی کی قدیم گزرگاہوں کا تنگ یا بند ہونا ہے۔

کچھی کینال تونسہ بیراج سے شروع ہو کر بلوچستان کے علاقوں نصیرآباد اور جھل مگسی تک جاتی ہے۔ یہ نہر ضلع راجن پور کی حدود میں کوہ سلیمان کی مشرقی جانب سے گزرتی ہے۔ راجن پور کے کسی علاقے میں کچھی کینال کا پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔

کوہ سلیمان سے آنے والی رودکوہیوں کے پانی کی نکاسی میں ایک رکاوٹ یہی نہر پیدا کرتی ہے۔ اس نہر پر سیلابی پانی کی کھلی گزر گاہیں بہت کم اور تنگ ہیں جس سے پانی زیادہ مقدار میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر سیلابی ریلا کینال کے کسی کمزور حصے کو توڑ دے تو بڑی آبادی کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم حالیہ سیلاب کا بڑا سبب مشرف ڈرین بتایا جا رہا ہے جس کے پشتے ٹوٹ گئے ہیں۔

بستی بختیار کے 45 سالہ محمد ادریس نے بتایا کہ وہ کئی ایکڑ اراضی پر پھیلے پانی سے گزر کرہی سڑک تک پہنچ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مشرف ڈرین سیلابی پانی کو دریائے سندھ تک پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن ناقص تعمیر کی وجہ سے وہ رہائشی آبادی کے قریب ٹوٹ گئی جس نے پورے علاقے کو ڈبو دیا۔

حالیہ سیلاب میں نسبتاً کم پانی ہی سے ڈرین میں شگاف پڑ گیا۔ اگر زیادہ پانی آتا تو قریبی روجھان شہر میں بھی سیلاب آ سکتا تھا۔

مشرف ڈرین عمر کوٹ کے قریب سے شروع ہو کر روجھان کے مغرب میں اوزمان روڈ سے گزرتی ہوئی سوری نالے تک جاتی ہے جو دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ اس کا مقصد رودکوہیوں کے پانی کو استعمال میں لانا  اور اضافی پانی کو دریائے سندھ تک پہنچانا ہے۔

مگر اس نالے کو مکمل نہیں کیا گیا، لہٰذا رودکوہیوں میں طغیانی آنے پر یہاں سے بڑی مقدار میں پانی خارج ہو کر قریبی آبادیوں میں پھیل جاتا ہے۔

مشرف ڈرین محکمہ رود کوہی نے تعمیر کیا ہے جس کے ایکسیئن مجاہد کلیم کئی جگہ پر کچھی کینال ٹوٹنے کو روجھان میں سیلاب کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع راجن پور میں گزشتہ سیلاب سے کم و بیش 40 مقامات پر کچھی کینال میں شگاف پڑے تھے مگر ابھی تک ان کی مرمت نہیں کی گئی۔

"ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم کچھی کینال کی مرمت کرا سکیں۔ اس سلسلے میں ہمارا محکمہ اور ڈپٹی کمشنر راجن پور کئی بار کچھی کینال انتظامیہ کو یاددہانی بھی کرا چکے ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

تونسہ میں سیلاب کی تباہ کاریاں: رود کوہی نے 'ہمیں اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ ہم اپنے مویشیوں اور گھر والوں کے سوا کچھ اور بچا سکتے'۔

لوک سجاگ نے سیلاب سے بچاﺅ کے اقدامات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کے لیے جب پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ضلعی دفتر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ چھ ماہ سے اتھارٹی کے ضلعی کوآرڈینیٹر کی اسامی خالی پڑی ہے۔

راجن پور میں کئی برس تک تعینات رہنے والے ریٹائرڈ واٹر ریسورس انجینئر ملک سیف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بچنا ہے تو سب سے پہلے رود کوہیوں کی گزر گاہوں کو کھلا کیا جائے۔ اس کے ساتھ مشرف ڈرین کو نالہ سوری میں ڈالا جائے تاکہ اس کا پانی نالے سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں جا گرے۔

"ان نالوں کی تعمیر و مرمت کے وقت ٹھیک طرح سے بھرائی نہیں کی گئی جس سے ان میں رہ جانے والے معمولی سے سوراخ بھی پانی کے دباؤ سے بڑے شگاف میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو علاقے میں سیلاب کا سبب بنتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ابھی تو مون سون شروع نہیں ہوا اور بعض علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ابھی متعلقہ محکموں کے پاس کچھ وقت ہے جس میں نالوں اور پشتوں کو مضبوط کر کے علاقے کو ممکنہ سیلاب سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 3 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مجاہد حسین خان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ مختلف قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔

سکردو: ٹراؤٹ فش ختم ہوتی جا رہی ہیں

thumb
سٹوری

فیکٹری میں بوائلر کیوں پھٹتے ہیں؟ انسانی غلطی یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

کیا بجلی سے چلنے والے رکشوں کی مہنگی بیٹری اور بجلی کے مسائل کا کوئی حل ہے؟

thumb
سٹوری

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوسیم خٹک
thumb
سٹوری

ننگر پارکر: گیارہ سال پائپ لائن بچھانے میں لگے معلوم نہیں میٹھا پانی کب ملے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

thumb
سٹوری

بھارت کا نیا جنم

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.