شیر محمد پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ایک خیمہ بستی میں رہ رہے ہیں جہاں ان کی گزربسر حکومت اور مخیر افراد کی جانب سے دی جانے والی امداد پر ہو رہی ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کب اپنے گھر واپس جا سکیں گے اور وہاں جا کر کیسے نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کر سکیں گے۔
ان کی خیمہ بستی بلوچستان کے جنوب مشرقی ساحلی ضلع لسبیلہ کے صدرمقام بیلہ سے تقریباً 17 کلومیٹر جنوب میں ٹیارو نامی جگہ پر بنائی گئی ہے جہاں سے ان کا گاؤں، نصیبانی، 15 کلو میٹر مزید جنوب مغرب میں واقع ہے۔
یہاں پہنچنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جولائی 2022 کے اواخر میں نصیبانی اور اس کے ارد گرد کئی روز بارش ہوتی رہی جس کے نتیجے میں اُس مہینے کی 25 تاریخ کو صبح سویرے ان کے گاؤں کے نواح میں بہنے والی پورالی ندی کے بہاؤ میں بہت اضافہ ہو گیا۔ تاہم مقامی لوگوں نے اسے معمول کی بات سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ برسات کے موسم میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ دراصل ان سب کو یقین تھا کہ جلد ہی ندی میں پانی کی سطح کم ہونے لگے گی۔
لیکن اس کے برعکس شام چھ بجے تک نصیبانی سے باہر جانے والے تمام راستے ندی سے نکلنے والے سیلابی پانی میں ڈوب چکے تھے۔ اس وقت تک گاؤں کے اندر بھی اتنا پانی گھس آیا تھا کہ اس کے ساڑھے تین سو کے قریب باشندوں کو اپنے گھربار چھوڑ کر ایک مقامی کمیونٹی ہال کی چھت پر پناہ لینا پڑ گئی تھی۔
اگلے چار روز ان سب نے اسی چھت پر گزارے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس دوران پورالی ندی میں پانی کا بہاؤ دو لاکھ 18 ہزار مکعب میٹر فی سیکنڈ تھا جس کے باعث کسی امدادی ٹیم کا ان تک پہنچنا ناممکن تھا۔ اسی لیے، 45 سالہ شیر محمد کے مطابق، حکومتی اہل کار ان تک پانی کے بہاؤ میں کمی آنے کے بعد ہی پہنچ پائے۔
ان اہل کاروں نے بعدازاں انہیں ٹیارو کی خیمہ بستی میں منتقل کیا جہاں اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ "سیلاب نے ہم سے سب کچھ چھین لیا اور بدلے میں ہمیں ہیضے کی وبا دے دی"۔
نصیبانی کے جنوب مغرب میں واقع پٹوکی نامی گاؤں بھی پورالی ندی میں آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا۔ سیلابی پانی نے نہ صرف اس کے مکانات کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ تین سو 65 ایکڑ پر کھڑی مقامی فصلیں بھی مکمل طور پر تباہ کر دیں۔
اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ کاشت کار محمد انور کہتے ہیں کہ سیلاب نے انہیں "کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا ہے"۔
وہ 18 افراد پر مشتمل ایک کنبے کے سربراہ ہیں اور اپنے علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ اس سال کپاس کی فصل بیچ کر وہ شمسی توانائی سے چلنے والے اپنے ٹیوب ویل کی قیمت ادا کریں گے جو انہوں نے پچھلے سال آٹھ لاکھ روپے ادھار لے کر لگایا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا قرض کی واپسی کے بعد بچ جانے والی رقم سے وہ ایک نیا گھر بنائیں گے۔
لیکن وہ کہتے ہیں سیلاب نے نہ صرف ان کی 45 ایکڑ رقبے پر کھڑی کپاس، گوارا اور جوار کی فصلیں تہس نہس کر دیں (جن کی مجموعی مالیت 38 لاکھ روپے تھی) بلکہ ان کا پرانا گھر بھی ملیا میٹ کر کے انہیں دربدر کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ سیلابی پانی کے پٹوکی میں داخل ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے اہل خانہ کو لے کر تحصیل بیلہ کے ایک محفوظ علاقے پیرانی گوٹھ میں اپنے بہنوئی کے ہاں منتقل ہو گئے تھے لیکن ان کے بڑے بھائی غلام حیدر اور ان کے ایک ماموں زاد اپنے گاؤں میں ہی رہ گئے تھے تاکہ وہ مویشیوں اور گھریلو سازوسامان کا خیال رکھ سکیں۔
تاہم غلام حیدر کہتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہ کر سکے کیونکہ 25 جولائی کی شام تک پٹوکی میں پانی کی سطح اتنی بلند ہو چکی تھی کہ ان کا پورا گھر اس میں ڈوب گیا تھا۔ چنانچہ ان کے گھر کے کمرے اُن کے سامنے گرتے رہے اور وہ کچھ نہ کر پائے۔ یہاں تک کہ ان کی تین گائیں بھی پانی میں بہہ گئیں اور وہ انہیں بچا نہ سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں خود بھی "چار راتیں ایک قریبی ٹیلے پر گزارنا پڑیں" جہاں نہ کھانے پینے کا انتظام تھا نہ سونے کا بندوبست۔ 29 جولائی کو سرکاری اہل کاروں نے انہیں اسی ٹیلے سے اٹھا کر ایک محفوظ مقام پر پہنچایا۔
غم کی فصل
تحصیل بیلہ میں کپاس کی کاشت مئی کے مہینے میں کی جاتی ہے جبکہ اگست کے آغاز میں اس کی چنائی شروع ہو جاتی ہے جو اکتوبر تک جاری رہتی ہے۔
مقامی اسسٹنٹ کمشنر حمزہ انجم کہتے ہیں کہ ہر سال کپاس کی چنائی کے موسم میں تقریباً 20 ہزار کھیت مزدور سندھ بھر سے اس تحصیل میں کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کے مطابق ان مزدوروں کی ایک بڑی تعداد حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے کیونکہ کپاس کی فصل کی تباہی کی وجہ سے انہیں نہ تو روزگار کے مواقع مل رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس رہنے سہنے کا کوئی ٹھکانہ ہے۔
پہلے تو وہ انہی زمینداروں کی زمین پر عارضی گھر بنا لیتے تھے جن کی فصل کی وہ چنائی کرتے تھے لیکن حمزہ انجم کہتے ہیں کہ اس سال سیلاب کی وجہ سے انہیں یہ سہولت کہیں دستیاب نہیں۔ اس لیے ان کی ایک بڑی تعداد سیلاب متاثرین کے لیے قائم کی گئی خیمہ بستیوں میں رہ رہی ہے جو تحصیل بیلہ میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری طرف بیلہ شہر میں قائم کپاس کی ایک جننگ فیکٹری کے مالک ونود کمار کہتے ہیں کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا منفی اثر صرف سندھی مزدوروں اور مقامی زمینداروں پر ہی نہیں پڑا بلکہ ان جیسے فیکٹری مالکان بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کپاس کی مقامی فصل کی موجودہ پیداوار معمول سے تین چوتھائی کم رہ گئی ہے جس کی وجہ سے جننگ فیکٹریوں میں پہلے کی نسبت کہیں کم کام ہو رہا ہے۔ "اس کے نتیجے میں بیلہ سے روزانہ کراچی کپاس لے جانے والی گاڑیوں کی تعداد صرف نو رہ گئی ہے حالانکہ عام حالات میں ان کی تعداد 35 سے کم نہیں ہوتی تھی"۔
بلوچستان کے محکمہ زراعت کی طرف سے بیلہ میں متعین کیے گئے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شفیع تباہی کے ان تخمینوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کپاس کی مقامی فصل کو اس سال جتنا شدید نقصان پہنچا ہے اتنا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس کی شدت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ " تحصیل بیلہ میں سیلاب سے تقریباً 60 ہزار ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی ہے جس میں سے 33 ہزار ایکڑ پر صرف کپاس کی فصل لگی ہوئی تھی"۔ ان کے اندازے کے مطابق تباہ ہونے والی کپاس تحصیل بیلہ میں بوئی گئی تمام فصل کا 90 فیصد تھی۔
کیا تھمے گا بہاؤ پانی کا؟
بیلہ سے چار کلومیٹر مشرق کی جانب واقع میارکہ گوٹھ میں حاجی محمد رحیم کی 26 ایکڑ زرعی زمین پر لگی کپاس اور بھنڈی کی فصل برباد ہو گئی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس بربادی کا سبب سیلاب یا اس کی شدت نہیں بلکہ پورالی ندی پر کچھ سال پہلے بنائی گئی تعمیرات اور تنصیبات ہیں۔
یہ ندی ضلع لسبیلہ میں دریائے ہنگول کے بعد پانی کی دوسری بڑی قدرتی گزرگاہ ہے جس میں بہت سے چھوٹے بڑے ندی نالوں کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہ بیلہ شہر کے شمال میں ضلع خضدار سے نکلتی ہے اور تحصیل بیلہ میں سے گزرتی ہوئی جنوب میں سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ جس علاقے سے اس کا گزر ہوتا ہے اسے اس کی مناسبت سے پورالی بیسن کہا جاتا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 2017 میں عالمی بنک کے تعاون سے اس بیسن میں آب پاشی کا ایک نیا نظام متعارف کرایا جس پر 25 کروڑ 37 لاکھ 20 ہزار ڈالر لاگت آئی اور جس کا مقصد پورالی ندی اور اس کے قریب ہی بہنے والی ناڑی ندی کے آبی وسائل کو "ایک مربوط طریقے سے منظم کرنا اور ترقی دینا" تھا۔
یہ بھی پڑھیں
اس قدر کثرت آفات کہاں تھی پہلے: 'تونسہ کے نہری نظام نے رودکوہی نالوں کا بہاؤ تبدیل کر کے انہیں رحمت سے زحمت بنا دیا ہے'۔
اس نظام کے تحت پورالی ندی کے کنارے دو فٹ اونچے کر کے اس کا پانی دو چھوٹی ندیوں، نرگ اور ہنجری، میں منتقل کیا گیا۔ پانی کی اس منتقلی کو کنٹرول کرنے کے لیے تینوں ندیوں کے سنگم پر دو گیٹ بنائے گئے اور دونوں چھوٹی ندیوں کی چوڑائی کو کم کر کے انہیں گہرا کر دیا گیا۔
ڈان اخبار میں نومبر 2016 میں چھپنے والے سکندر بروہی نامی تحقیق کار کے ایک مضمون کے مطابق اس نظام کا مقصد 35 ہزار پانچ سو 83 ایکڑ اراضی اور تین ہزار دو سو 20 مکانات کو ندی برد ہونے سے بچانا تھا۔ اس کا دوسرا مقصد چار ہزار پانچ سو کاشت کار خاندانوں کو آب پاشی کے لیے پانی فراہم کرنا اور 16 دیہات کو پینے کا پانی باہم پہنچانا تھا۔
لیکن مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ یہ نظام متعارف کرانے سے پہلے ان کی رائے سنی ہی نہیں گئی۔ حاجی محمد رحیم کا کہنا ہے کہ ''جب اس پر کام شروع ہوا تو ہم نے اس کا معائنہ کر کے کہہ دیا تھا کہ اس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سیلاب کا خطرہ بڑھ جائے گا"۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم نے ضلعی انتظامیہ کو بھی ان خدشات سے آگاہ کیا لیکن ہماری بات پر کسی نے توجہ ہی نہ دی"۔
نرگ ندی کے علاقے میں رہنے والے کسانوں کی ایک تنظیم کے سربراہ عبدالجبار رونجھا بھی کہتے ہیں کہ "جب یہ سرکاری منصوبہ منظرِعام پر آیا تو مقامی زمینداروں نے اس کے منصوبہ سازوں کو اس کے ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کر دیا تھا"۔ تاہم حکومت نے ان خطرات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کے انجینئر مقامی لوگوں سے بہتر علم رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سیلاب نے بالآخر ان انجینئروں کو غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ، ان کے بقول، "بیلہ کے جنوب میں واقع درجنوں دیہات شدید بارشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پورالی ندی کا حفاظتی بند ٹوٹنے کی وجہ سے زیرِ آب آئے"۔ ان کے مطابق اس بند کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی کہ اس ندی کے پانی کو چھوٹی ندیوں میں منتقل کرنے کے لیے بنائی گئی تعمیرات اور تنصیبات نے سیلابی پانی کا رخ موڑ دیا تھا۔
مقامی وکیل اور سماجی کارکن محمد عاصم لاسی نے اسی مسئلے کو بنیاد بناتے ہوئے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پورالی ندی پر بنائے گئے نئے آبی نظام کے ناقص ڈیزائن کی وجہ سے ہی اس کے سیلابی پانی کا رخ انسانی آبادی کی جانب مڑا۔ انہوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی ہے کہ اس نظام کے تحت کی گئی تعمیرات کو گرا کر ندی کے بہاؤ کا پرانا قدرتی طریقہ بحال کیا جائے اور اسے تبدیل کرنے کے ذمہ دار سرکاری حکام اور انجینئروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
بیلہ میں متعین صوبائی محکمہ آبپاشی کے سب ڈویژنل آفیسر عاشق علی جاموٹ بھی ان عوامی شکایات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2017 میں بنائے گئے آبی نظام پر کام کرنے والے انجینئر "پورالی ندی کا مزاج ہی نہیں سمجھ پائے" کیونکہ، ان کے بقول، "اگر ندی کے راستے میں گیٹ نہ لگے ہوتے تو اس کا پانی اپنے قدرتی راستے پر ہی آگے بڑھتا رہتا اور ارگرد کے دیہات کا رخ نہ کرتا"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "مستقبل میں مقامی دیہات کو سیلاب سے بچانے کے لیے اس ندی کے "قدرتی بہاؤ کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر کے اسے اس کی پرانی حالت میں لے جانا بہت ضروری ہے"۔
تاریخ اشاعت 16 ستمبر 2022