خانیوال کے محمد اظہر آج کل بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے 12 ایکڑ پر گندم کاشت کر رکھی ہے اور انہیں کھاد نہیں مل رہی۔ ڈیلر ہڑتال پر چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے بازار میں کھاد مہنگی ہو گئی ہے۔ یوریا کھاد کی 50 کلو کی بوری سرکاری نرخ پر 2,440روپے میں ملتی ہے لیکن ان دنوں مارکیٹ میں اس کی قیمت 3,700 تک جا پہنچی ہے۔
انہیں ایک ایکڑ زمین کے لیے یوریا کی دو اور ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری چاہیے ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگے داموں ہی سہی، ڈی اے پی انہیں کہیں نہ کہیں سے مل جائے گی لیکن یوریا اس وقت تقریباً نایاب ہو چکی ہے۔
تحصیل جہانیاں کے چک 148 دس آر سے تعلق رکھنے والے محمد اظہر کے لیے یہ صورت حال نئی نہیں ہے۔ پچھلے دو برس سے وہ یہی دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب گندم کی فصل کو کھاد کی ضرورت ہوتی ہے تو کھاد کسی نہ کسی وجہ سے مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔
اظہر کی طرح لودھراں کے علاقے گیلے وال سے تعلق رکھنے والے محمد مصطفیٰ بھی کھاد کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ دو ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں اور انہوں نے مزید دو ایکڑ اراضی ایک سال کی مستاجری پر لے رکھی ہے۔
مستاجری زرعی رقبے کے ٹھیکے کو کہتے ہیں جس کے تحت زمین کا مالک خود کاشتکاری کرنے کے بجائے کسی اورشخص کو ٹھیکہ دے کر اس سے یکمشت رقم وصول کرلیتا ہے۔
یہ ٹھیکہ زیادہ تر دوفصلوں ربیع اورخریف کے لیے ہوتا ہے۔ مصطفی نے اپنی چار ایکڑ زمین پر گندم کاشت کر رکھی ہے۔ دو مرتبہ انہیں یوریا کھاد بلیک میں خریدنا پڑی تھی۔ اب انہیں ایک مرتبہ پھر اس کی ضرورت ہے تو کھاد کے ڈیلروں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اگر کھاد نہ ملی تو ان کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع خانیوال میں رواں سال چار لاکھ 80 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوئی ہے جو پچھلے سال کی نسبت 51 ہزار ایکڑ کم ہے۔ ضلع لودھراں میں بھی زیر کاشت رقبے میں کمی آئی ہے اور اس بار پچھلے سال کے مقابلے میں زیر کاشت رقبہ 23 ہزار ایکڑ کم ہوکر تین لاکھ 84 ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔
کسانوں کی رائے میں اس کمی میں پچھلے دو سال کے دوران کھاد کی مصنوعی قلت کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ضرور ہے۔
اس وقت چارے، گندم اور مکئی کی فصل کو صرف یوریا کھاد کی ضرورت ہے
خانیوال میں کھاد ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر احمد رضا قادری سے جب ہڑتال اور اس کے نتیجے میں کھاد کی قلت کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب میں انہوں نے اپنے چار مطالبات کا تذکرہ کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت ہمیں کھاد کی فوری فراہمی یقینی بنائے۔
"ہم جب بکنگ کراتے ہیں تو کھاد ہمیں ڈیڑھ سے دوماہ بعد وصول ہوتی ہے۔ نتیجتاً ہم مزید سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ جو ڈیلر مہینے کے 15 ٹرک فروخت کرسکتا ہے وہ موجودہ صورت حال میں دو سے تین ٹرک ہی بیچ سکتا ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ ''ہمارا دورسرا مطالبہ یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپنیاں یوریا کھاد کی فراہمی کا ٹائی اپ کوٹہ ختم کریں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ٹائی اپ کوٹے کے تحت ایک ڈی اے پی بیگ کے ساتھ یوریا کا ایک بیگ بھی فروخت کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک نائٹروفاس کے ساتھ بھی یوریا کی ایک بوری بیچنے کے لیے ملتی ہے۔
"اس موسم میں نائٹروفاس اور ڈی اے پی کی تو ضرورت ہی نہیں اس لیے انہیں فروخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈیلروں کو کھاد کی یہ بوریاں تین سے چارماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے سٹاک کرنا پڑتی ہیں یا وہ انہیں ایک یا دو ہزار روپے کے نقصان میں بیچتے ہیں۔ ڈی اے پی کے ایک ٹرک کی قیمت تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ روپے ہے۔ اور ہر ڈیلر اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ بڑی تعداد میں ڈی اے پی کی بوریاں ذخیرہ کر سکے۔''
اپنا تیسرا مطالبہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کھاد ڈیلروں کی دکانوں پر بلا وجہ چھاپے مارنے، ان کے گودام سیل کرنے اور ان کے خلاف مقدمے بنانا بند کرے۔
احمد رضا نے چوتھا مطالبہ یہ بتایا کہ ڈیلروں کو فوجی فرٹیلائزر کمپنی کی جانب سے دیے جانے والے کمیشن کو 3.85 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصدکیا جائے یا بکنگ کروانے کے بعد تین سے چار روز میں کھاد فراہم کی جائے۔ موجودہ صورتحال بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کھاد کو کمپنی سے ڈیلر تک پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ جاتے ہیں۔
لیکن ملتان کی بستی چدھڑ کے مہر غلام رسول سہو ڈیلروں کے مطالبات کو جائز نہیں سمجھتے۔ غلام رسول کو 2020ء میہں مثالی کاشتکار کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ انہوں ںے 100 ایکڑ رقبے پر گندم، چارا اور مکئی کاشت کر رکھی ہے۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ محکمہ زراعت کے اہلکار ڈیلروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
''حکومت کو چاہیے کہ کھاد ڈیلروں کو دینے کے بجائے کسانوں کو خود فروخت کرے۔''
کسانوں کو گزشتہ دو سال سے یوریا کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کا سامنا ہے
احمد رضا قادری اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈیلروں اور محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت کا تاثر درست نہیں کیونکہ وہ خود محکمہ زراعت کے آئے روز چھاپوں سے تنگ ہیں۔
کسان اتحاد کے مرکزی صدر چوہدری عمیر بھی کھاد ڈیلروں کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو گزشتہ دو سال سے یوریا کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کا سامنا ہے۔ ڈیلر ٹائی اپ کوٹے کے حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں کیونکہ 80 فیصد ڈی اے پی امپورٹ ہوتی ہے جبکہ یوریا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت چارے، گندم اور مکئی کی فصل کو صرف یوریا کھاد کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کسان ڈی اے پی لے کر کیا کرے گا؟ ڈی اے پی کا استعمال کاشت کے وقت ہوتا ہے جبکہ یوریا فصل کی بڑھوتری کے وقت استعمال کی جاتی ہے۔ اگر محکمہ زراعت اور کھاد ڈیلر کسانوں کو بروقت یوریا کھاد کی فراہمی نہیں کرتے تو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔
"یوریا کی کوئی قلت نہیں"
دوسری جانب جنوبی پنجاب کے سیکرٹری زراعت ثاقب علی عطیل کا دعویٰ ہے کہ ان کے ریجن میں مقامی سطح پر تیارکردہ یوریا کے تین لاکھ 18ہزار اور امپورٹڈ یوریا کے 72 ہزار سے زیادہ تھیلے مارکیٹ میں موجود ہیں۔
" اس وقت طلب اور رسد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔اوور چارجنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے ڈیلروں کے خلاف سخت کارروائیاں جاری ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
یوریا کھاد کی قلت: 'نجانے بڑے پیٹ والے اسے ہڑپ کر گئے ہیں یا کوئی اور'۔
ڈپٹی ڈائریکٹر زرعی اطلاعات پنجاب نوید عصمت کاہلوں نے سجاگ کو بتایا کہ کھاد ڈیلروں کا احتجاج بلا جواز ہے۔ جہاں تک ان کی جانب سے چھاپوں کی شکایت کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہےکہ ڈیلر کھاد بلیک میں فروخت کرتے ہیں جس کی روک تھام انتظامیہ کا فرض ہے۔
کھاد سے متعلق وفاقی ادارے نیشنل فرٹیلائزر ڈویلپمنٹ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ربیع سیزن کا آغاز 294 میٹرک ٹن یوریا کی موجودگی کے ساتھ ہوا ہے۔ اس دوران ملکی فیکٹریوں میں دو ہزار 971 ہزار ٹن پیداوار متوقع ہے جبکہ 296 ہزار ٹن امپورٹڈ یوریا ملک میں موجود ہے۔
ربیع سیزن میں ملک کو تین ہزار 265 ہزار ٹن یوریا کی ضرورت ہوگی جبکہ اس وقت تین ہزار 562 ہزار ٹن یوریا ذخیرہ ہو گا جو ضرورت سے 311 ہزار ٹن زیادہ ہے۔
تاریخ اشاعت 8 مارچ 2023