کرامت اللہ خان ضلع خیبر کی تحصیل تیراہ میں اپنے تین ایکڑ رقبے پرمکئی، لوبیا، آلو، سورج مکھی اور بھنگ کاشت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپریل سے لوبیا، آلو، سورج مکئی، شلجم، بھنگ، سبزیاں اور مکئی کی کاشت کی جاتی ہے جبکہ اکتوبر میں تمام فصلوں کی کٹائی کا عمل ہو جاتا ہے۔یعنی سردی کے چھ مہینے زرعی زمین بنجر پڑی رہتی ہے۔
کرامت اللہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وادی تیراہ کے کاشت کاروں کے پاس سال بھر میں آمدن کے حصول کا صرف ایک موقع ہوتا ہے لیکن کھاد کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی پیداوار ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے اور انہیں سخت مالی مسائل کا سامنا ہے۔
’’کھادکی ترسیل پر پابندیوں میں کافی حد تک نرمی آ چکی ہے لیکن اس کے باوجود مقامی مارکیٹ پر چند لوگوں نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دکاندار مہنگے داموں کھاد فروخت کرتے ہیں۔ غریب کاشت کاروں کے لیے مہنگی کھاد خریدنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے‘‘۔
پشاور اور باڑہ مارکیٹ میں یوریا کھادکی پچاس کلو فی بوری کی قیمت چھ ہزار روپے ہے جبکہ وادی تیراہ میں یہی کھاد آٹھ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق خیبر میں بارشیں کم ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا زیادہ تر علاقہ بنجر ہے، کاشت شدہ رقبہ وادیوں کے قریب ہے۔ وادی تیراہ روایتی طور پر پوست کی کاشت کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اب لوگ دھیرے دھیرے دیگر فصلوں کو کاشت کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں جیسا کہ گندم، آلو، مکئی، پھل اور چاول وغیرہ۔
محکمہ زراعت خیبر کے مطابق وادی تیراہ میں بیس ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت ہے۔ اکتوبر سے لے کر مارچ تک شدید سردی کی وجہ سے کوئی فصل کاشت نہیں ہوتی۔
مارچ کے آخر میں آلو اور اپریل کے اوئل میں ٹماٹر، لوبیا، مکئی، بھنگ، زغفران،کدو، سورج مکئی کی کاشت شروع ہوجاتی ہے۔ وادی میں اعلی معیار کا اخروٹ پیدا ہوتا ہے۔ اخروٹ کی پنیریاں بھی مارچ اور اپریل میں لگائی جاتی ہیں۔
محکمہ زراعت کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر ضیا الاسلام داوڑ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع خیبر میں کیمیائی کھاد کی ضرورت ملک کے دیگر حصوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہاں فی ایکڑ پیداوار میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔
وادی تیراہ میں امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 2013ء میں کیمیائی کھاد لانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن 2022ء میں سیکیورٹی حکام کی جانب سے ایک سال کے لیے چار ڈیلروں کو اجازت نامے جاری کیے تھے جس کے بعد اس علاقے میں کھاد کی سپلائی شروع ہو گئی تھی۔
ستمبر 2022ء میں سیکیورٹی حکام نے یہ اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے، یہ اقدام علاقے میں امن و امان کی دوبارہ بگڑتی ہوئی صورتحال اور زیادہ قیمتو ں کی شکایت پر اُٹھایا گیا تھا۔
امونیم نائٹریٹ اور کیلشیم امونیم نائٹریٹ مختلف کھادوں میں استعمال ہوتی ہیں اور ان سے دھماکا خیز مادہ بنایا جا سکتا ہے۔
جولائی 2023ء میں اعلٰی سطح کا ایک اجلاس ہوا جس میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ زراعت اور سیکورٹی حکام شامل تھے، جس میں پوری جانچ پڑتال کے بعد تین افراد کو اجازت نامے جاری کر دئیے گئے۔
مقامی کاشت کار سید عزیز نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جن لوگوں کو ضلعی انتظامیہ نے اجازت نامے جاری کیے ہیں وہ اپنی مرضی کے نرخ پر مہنگے داموں کھاد بیچتے ہیں۔ ایک سال کے لیے انتظامیہ اپنی مرضی کے چند لوگوں کو پرمٹ جاری کرتی ہے اور وہ سال بھر اپنی من مانی کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
نمروز خان کھاد کے ڈیلر ہیں اور ان کے پاس سرکاری اجازت نامہ موجودہ ہے۔ لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ کھاد کی ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، پچھلے آٹھ نو مہینوں میں وہ کھاد کی تقریبا سات ہزار بوریاں وادی کے تین بڑے تجارتی مراکز لرباغ، بر باغ اور پیر میلہ میں دکانداروں کو بھیج چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ زیادہ قیمت وصول کرنے کا اعتراض بالکل بے بنیاد ہے۔ جب وہ پشاور اور باڑہ مارکیٹ سے کھاد لاتے ہیں تو فی بوری پچاس روپے خرچ آتا ہے، یوں وہ فی بوری ایک سو پچاس روپے کے حساب سے منافع کماتے ہیں۔
مگر مقامی دکاندار اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پچھلے دوسالوں سے وادی میں کھاد لانے کے لیے ایسے لوگوں کو انتظامیہ نے اجازت نامے جاری کیے ہیں جن کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور "چند لوگوں" کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے اُن کو محض پیسے کمانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
"ہماری مجبوری ہے کہ ہمیں ڈیلرز سے ان کی مرضی کے ریٹ پر کھاد خریدنا پڑتی ہے۔ وہ ہمیں فی بوری پندرہ سو سے دو ہزار روپے زیادہ قیمت پر کھاد فروخت کرتے ہیں۔ ہم پچاس سے اسی روپے منافع فی بوری کماتے ہیں"۔
شاہد علی کھاد ایک چھوٹے ڈیلر ہیں، وہ کہتے ہیں، وادی تیراہ کی تاجر یونین بھی دکانداروں کی کوئی مدد نہیں کرتی بلکہ بااثر افراد کی سرپرستی کرتی ہے ۔
’’حکومت کو چاہئے کہ وہ دکانداروں کو کھاد لانے کی اجازت دے لیکن اس کی فروخت کے لیے کوئی نظام بنالے تاکہ اس کے غیر قانونی استعمال کو روکا جا سکے, یوں کم از کم کاشت کار اور دکاندار بڑے ڈیلروں کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہوں گے‘‘۔
وادی تیراہ تاجر یونین کے صدر حاجی شیر محمد نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ضلعی حکام کو وادی تیراہ میں کھاد کے پرمٹ کے لیے تینوں تجارتی مراکز سے دس ایسے تاجروں کے نام دئیے گئے تھے جویہاں پر سالہاسال سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سرکاری آٹے اور کھاد کے اجازت نامے ایسے لوگوں کو جاری کئے جاتے ہیں جن کا تجارتی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں
کھاد بنانے کے کارخانوں کا مرکز ضلع گھوٹکی میں بھی یوریا کی قلت، ذمہ دار کون ہے؟
"ہمیں نہیں معلوم کن اصولوں کے تحت کسی کو اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے؟
یہ تاجر برادری کے ساتھ ناانصافی ہے، اس سلسلے میں حکومت نے تاجر یونین کی کسی تجویز پرعمل نہیں کیا جس کے وجہ سے کاشت کاروں کو مہنگی کھاد خریدنا پڑ رہی ہے"۔
ڈپٹی کمشنر خیبر کے ذرائع کے مطابق علاقے میں تعینات سیکورٹی اداروں کے طرف سے کلیئر قرار دئیے افراد کو ایک طریقہ کار کے تحت اجازت نامہ جاری کیاجاتا ہے۔ کھاد کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے پرمٹ کا مالک اپنے اخراجات اور کمائی ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھا سکتا۔
تیراہ مشروم ڈوپلمنٹ آرگنائزیشن کے سابق چیرمین فضل ربی آفریدی کہتے ہیں، دراصل یہاں کے لوگوں نے ماضی کے مقابلے میں پالتو جانوروں کو پالنا بہت کم کر دیا ہے۔ اسی لیے زرعی زمینوں کو زرخیز بنانے کے لیے گوبر دستیاب نہیں ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کیمیائی کھاد کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ان کی آرگنائزیشن کاشت کاروں کو تربیت فراہم کرتی ہے جس میں انہیں جانوروں کے فضلے، جنگلات کے گلے سڑے پتوں اور تھوری سی مقدار میں پوٹاشیم ملا کر خود سے کھاد بنائی جا سکتی ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ایسی کھاد کی تیاری کے لیے بڑے پیمانے پر کاشت کاروں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں کیمیائی کھاد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
تاریخ اشاعت 23 مارچ 2024