پنجاب اور سندھ میں کھاد کی قلت: کیا ملک میں گندم کا نیا بحران آنے والا ہے؟

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پنجاب اور سندھ میں کھاد کی قلت: کیا ملک میں گندم کا نیا بحران آنے والا ہے؟

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

محمد اسماعیل کی آنکھوں میں کئی خواب ہیں۔ 

اس ماہ کے شروع میں ایک دن وہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اپنے کھیتوں میں گندم کاشت کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کی فصل اچھی ہوئی تو وہ اپنی 24 سالہ بیٹی کی شادی کرنے اور 16 سالہ بیٹے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کچھ رقم پس انداز کر لیں گے۔ لیکن انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ وہ اپنی فصل میں مطلوبہ مقدار میں کھاد نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ کھاد یا تو سرے سے دستیاب ہی نہیں یا اگر مل رہی ہے تو اس کی قیمت ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈی اے پی (ڈائی ایمونیا فاسفیٹ) کھاد کی 50 کلوگرام کی ایک بوری کی قیمت 10 ہزار روپے سے بھی زیادہ ہے جبکہ یوریا کھاد کی 50 کلوگرام کی بوری کی قیمت دو ہزار پانچ سو روپے ہو گئی ہے حالانکہ چند ہفتے پہلے یہ ایک ہزار سات سو 50 روپے میں مل رہی تھی۔ 

یوریا کھاد باآسانی دستیاب بھی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "جن تاجروں کے پاس اس کا ذخیرہ موجود ہے وہ اسے بڑے زمینداروں کو فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں" کیونکہ وہ عموماً اس کی قیمت نقد ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ چار ایکڑ زرعی زمین کے مالک محمد اسماعیل جیسے چھوٹے کسان اکثر اسے ادھار خریدتے ہیں۔ 

ان کی زمین وسطی پنجاب کے ضلع ساہیوال کے گاؤں 184 نائن ایل میں واقع ہے جہاں، ان کے مطابق،  گندم کی کاشت کے وقت ایک ایکڑ زمین میں دو بوریاں ڈی اے پی اور ایک بوری یوریا کھاد ڈالنا ضروری ہے ورنہ اس کی پیداوار میں 10 فیصد سے 15 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ابھی تک ہر ایکڑ میں صرف ایک بوری ڈی اے پی کھاد ڈالی ہے (جو انہوں نے دو ماہ پہلے آٹھ ہزار روپے میں خریدی تھی) جبکہ یوریا کھاد وہ ڈال ہی نہیں پائے۔

تاہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بیس روز بعد جب وہ اپنی فصل کو پہلا پانی لگائیں گے تو کسی نہ کسی طرح یوریا کھاد کا انتظام بھی کر لیں گے تاکہ پیداوار میں زیادہ کمی نہ آئے۔

کھاد کم تو پیداوار بھی کم

محمد اسماعیل کی طرح پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں گندم کے کاشت کاروں کو شکایت ہے کہ کھاد کی قیمتوں میں اچانک اضافے اور بازار میں اس کی قلت کی وجہ سے وہ اس کا بقدرِ ضرورت استعمال نہیں کر پا رہے۔ کئی ایک تو اس سال بغیر کھاد کے ہی گندم کاشت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع بہاولپور کے کاشت کار اسامہ مہمند اور رحیم یار خان کے کاشت کار اویس خان نے بالترتیب 11 ایکڑ اور ڈھائی ایکڑ زمین پر گندم بوتے ہوئے کوئی کھاد استعمال نہیں کی۔

اسی طرح کچھ بڑے زمین دار بھی اس سال اپنی فصل میں کھاد نہیں ڈال سکے۔ ان میں سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے سیکرٹری اور ضلع میرپور خاص کے رہنے والے زاہد بھرگڑی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سو ایکڑ رقبے پر گندم  کاشت کی ہے لیکن اس کے لیے درکار کھاد کا انتظام نہیں کر سکے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کی طرح صوبہ سندھ میں بھی ڈی اے پی کھاد 10 ہزار روپے فی بوری اور یوریا کھاد ڈھائی ہزار روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔ اس قیمت پر ایک ایکڑ گندم کاشت کرنے کے لیے درکار کھاد پر 22 ہزار پانچ سو روپے خرچہ آتا ہے جو، ان کے مطابق، زیادہ تر "کاشت کاروں کے پاس موجود نہیں"۔

زاہد بھرگڑی مانتے ہیں کہ کھاد نہ استعمال کرنے سے ان کی فی ایکڑ پیداوار 10 من (چار سو کلوگرام) کم ہوسکتی ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کمی کے باعث ان کی شرحِ منافع میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپنی بات کو وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال انھوں نے ایک ایکڑ گندم کی کاشت پر کل 50 ہزار روپے خرچ کیے تھے جس سے ان کی پیداوار 30 من (12 سو کلوگرام) فی ایکڑ رہی جبکہ اس پیداوار کو اس وقت کے سرکاری نرخ پر فروخت کرنے سے انہیں 60 ہزار روپے فی ایکڑ آمدن ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں انہیں 10 ہزار روپے منافع ہوا۔ اس سال وہ ایک ایکڑ گندم پر 30 ہزار روپے خرچ کر کے 20 من (آٹھ سو کلوگرام) پیداوار حاصل کریں گے جس کی قیمت سندھ میں موجود سرکاری نرخ (دو ہزار دو سو روپے فی 40 کلوگرام) کے حساب سے 44 ہزار روپے بنے گی۔ یوں انہیں کم ازکم 14 ہزار روپے کا منافع ہوگا جو پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے۔ 

کسان بورڈ پاکستان نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ شوکت علی چدھڑ بھی یہی کہتے ہیں۔ ان کے بقول "اگرچہ گندم کی کاشت کے دوران کھاد کے کم استعمال سے اس سال اس کی پیداوار میں 30 فیصد کمی متوقع ہے لیکن اس کمی سے کسان اتنے متاثر نہیں ہوں گے جتنی ملکی معیشت ہوگی" کیونکہ گندم کی مقامی پیداوار میں کمی کے باعث پاکستان کو اپنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے دوسرے ملکوں سے مہنگے داموں درآمد کرنا پڑے گا۔ 

کسانوں کو کھاد کیوں نہیں مل رہی؟

کھاد کی پیداوار اور خرید و فروخت کی نگرانی کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل فرٹیلائزر ڈویلپمنٹ سینٹر کی وسط نومبر 2021 کی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کھاد کی کمی نہیں بلکہ ڈی اے پی اور یوریا کھادیں ضرورت سے زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق جب اکتوبر میں گندم کی بوائی کا سیزن شروع ہوا تو ملک میں ڈی اے پی کھاد کی 50 کلوگرام والی ایک کروڑ 40 لاکھ 40 ہزار بوریاں موجود تھیں جبکہ اس وقت کسانوں کو اس کی 68 لاکھ 40 ہزار بوریاں درکار تھیں۔ اسی طرح اکتوبر کے مہینے میں یوریا کی ایک کروڑ 31 لاکھ بوریاں موجود تھیں جو ملکی ضرورت سے 28 لاکھ بوریاں زیادہ تھیں۔

اس کے باوجود اگر کسانوں کو کھاد کے حصول میں مسائل درپیش ہیں تو، نیشنل فرٹیلائزر ڈویلپمنٹ سینٹر کے ایک اعلی عہدے دار کے الفاظ میں، "یہ سب کھاد بنانے والی کمپنیوں کا کیا دھرا ہے"۔ وہ وفاقی وزارتِ صنعت و پیداوار میں نومبر کے آخری ہفتے میں ہونے والے ایک اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں انکشاف کیا گیا کہ بعض کمپنیوں نے اپنے بڑے ڈیلروں کو تو ان کی ضرورت سے زیادہ کھاد فراہم کر دی ہے لیکن کئی چھوٹے ڈیلروں کو ایک بوری بھی نہیں دی۔ ثبوت کے طور پر وہ ایک ایسے ضلعے کا حوالہ دیتے ہیں جہاں کھاد کی پانچ لاکھ بوریوں کی ضرورت تھی لیکن کمپنیوں نے وہاں کے ایک ہی ڈیلر کو ڈھائی لاکھ بوریاں فراہم کردیں جس نے اس کی زیادہ تر مقدار ذخیرہ کر لی تاکہ مارکیٹ میں اس کی قلت پیدا کر کے وہ اسے مہنگے داموں بیچ سکے۔  

اس اجلاس میں کھاد کی جغرافیائی تقسیم میں پائی جانے والی بے قاعدگی کی بھی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ کے بعض اضلاع میں تو کمپنیوں نے پچھلے سال کی نسبت کئی گنا زیادہ کھاد فراہم کر دی ہے لیکن انہی صوبوں کے کئی دیگر اضلاع میں پچھلے سال کی نسبت بہت کم کھاد پہنچائی گئی ہے۔ اسی طرح دونوں صوبوں کو ملنے والی کھاد کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پنجاب کو 2020 کے مقابلے میں چار فیصد کم یوریا دی گئی جبکہ سندھ کو پچھلے سال کی نسبت 52 فیصد زیادہ یوریا فراہم کی گئی۔ 

کھاد فروخت کرنے والے تاجر بھی کھاد بنانے والی کمپنیوں کو اس کی قلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کی تحصیل جہانیاں سے تعلق رکھنے والے ایک چھوٹی سطح کے تاجر چوہدری شاہد کہتے ہیں کہ ماضی میں گندم کی کاشت شروع ہونے سے پہلے انہیں کھاد بنانے والی کمپنیاں ہر مہینے تین ہزار بوریاں کھاد بھیجتی تھیں لیکن "پچھلے دو ماہ میں مجھے صرف تین سو بوریاں ہی ملی ہیں"۔ 

جنوبی پنجاب میں کھاد فروخت کرنے والے ایک بڑے تاجر رانا اقبال بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سال کمپنیوں نے ڈیلروں کو کھاد پہنچانے میں غیر معمولی تاخیر کی جس کے باعث گندم کی بوائی کے وقت ضرورت سے کہیں کم کھاد بازار میں دستیاب تھی۔ ان کے بقول "میرا اپنا کھاد کا کوٹہ مجھے بکنگ کے چار ماہ بعد ملا"۔

لیکن کمپنیاں ان الزامات کو نہیں مانتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی ڈیلر، صوبے یا ضلعے کو ضرورت سے کم یا زیادہ کھاد نہیں دی گئی۔ اینگرو فرٹیلائزرز نامی کمپنی کے بہاولپور ڈویژن میں متعین منیجر محمد راشد کہتے ہیں کہ کھاد بنانے والی تمام کمپنیاں ہر سال کھاد کی فراہمی کا ایک ہی طریقہ کار اختیار کرتی ہیں جس کے تحت ان کے مقامی اہل کار فصل کی بوائی سے مہینوں پہلے انہیں بتا دیتے ہیں کہ کس علاقے میں کتنی کھاد چاہیے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سال بھی اسی طریقے پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا ہے کہ "یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ کوئی کمپنی اپنی کھاد اس جگہ نہیں پہنچائے گی جہاں اس کی مانگ زیادہ ہو" کیونکہ، ان کے مطابق، ہر کمپنی زیادہ سے زیادہ کھاد بیچنا چاہتی ہے۔ 

لہٰذا محمد ارشد کہتے ہیں کہ کھاد کی قلت کے ذمہ دار کمپنیاں نہیں بلکہ وہ سرمایہ کار اور تاجر ہیں جنہوں نے اس کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اسے بڑی مقدار میں خرید کر ذخیرہ کر لیا ہے اور اب اسے منہ مانگے داموں بیچ رہے ہیں۔  

پاکستان میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کی تنظیم فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان کی ایڈوائزری کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیر شاہ ملک بھی کہتے ہیں کہ یوریا کھاد کی "بین الاقوامی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے (لیکن) یہاں پر اس کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے بازار میں ہیرا پھیری اور مڈل مین اور ڈیلرز کی طرف سے واضح بلیک مارکیٹنگ ہوئی"۔ 

ویڈیو دیکھیں

postImg

مہنگی اور نایاب کھادیں: کسان گندم کی کاشت سے گریزاں۔

10 نومبر 2021 کو انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس سال جنوری سے لے کر اکتوبر تک پاکستان میں جتنی یوریا کھاد فروخت ہوئی ہے انہی مہینوں میں اس کی اتنی مقدار پچھلے 10 سالوں میں کبھی فروخت نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق 2021 کے پہلے 10ماہ میں یوریا کی 10کروڑ 20 لاکھ بوریاں فروخت ہوئیں جبکہ پچھلے پورے سال میں اس کی کل نو کروڑ 20 لاکھ بوریاں فروخت ہوئی تھیں۔ 

اس سے یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ کئی سرمایہ کار اور تاجر کئی ماہ سے کھاد خرید کر کے ذخیرہ کر رہے تھے۔ اس کا ایک ثبوت چند روز پہلے سامنے آیا جب پنجاب حکومت نے صوبے میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران یوریا کھاد کی 51 لاکھ 75 ہزار بوریاں برآمد کیں (جنہیں بعد میں ایک ہزار سات سو 68 روپے فی بوری کے حساب سے کسانوں کو فروخت کیا گیا)۔ 

شوکت علی چدھڑ کہتے ہیں کہ یہ کارروائی بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جون، جولائی اور اگست میں ہی پنجاب حکومت کے اہل کاروں کو آگاہ کر دیا تھا کہ کھاد کی خرید و فروخت میں غیر معمولی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے "لیکن انہوں نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا"۔ 

تاہم وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس غفلت کی اصل ذمہ دار سندھ کی صوبائی حکومت ہے۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے یوریا کھاد کی دستیابی کے بارے میں ہونے والے ایک اجلاس میں اس کی صوبائی تقسیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ اصل میں ذخیرہ اندوزی سندھ میں کی گئی ہے لیکن، ان کے مطابق، وہاں کی حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ 

تاہم کسان بورڈ پاکستان کے رہنما عمیر مسعود کہتے ہیں کہ پنجاب میں بھی صورتِ حال کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی۔ ان کے مطابق نومبر کے آخر تک یہاں کی انتظامیہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی حالانکہ اس سے ہفتوں پہلے کھاد کے بازار سے غائب ہونے کے بارے میں لگاتار خبریں آ رہی تھیں۔

تاریخ اشاعت 9 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ارسا ترمیم 2024: مسئلے کا ایک حصہ: محمود نواز شاہ

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے فضائی آلودگی میں کتنی کمی آئے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

خیبر پختونخوا: نصاب میں نفرت پڑھا کر محبت نہیں سکھائی جا سکتی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.