زیر زمین کوئلے سے گیس اور بجلی بنانے کا منصوبہ، حقیقت یا افسانہ؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

زیر زمین کوئلے سے گیس اور بجلی بنانے کا منصوبہ، حقیقت یا افسانہ؟

جی آر جونیجو

"انڈر گراؤنڈ کول گیسی فیکیشن (یو جی سی) پراجیکٹ  نے اطلاع دی ہےکہ سنگیس (syngas) پیوریفیکیشن پلانٹ اور پاور جنریٹرز لگنے کے بعد 28 مئی 2015ء کو بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے۔ جہاں فی الحال 10میگا وولٹ امپیر(8 میگا واٹ) بجلی دستیاب ہے۔"

یہ اعلان 'تھر کول توانائی بورڈ حکومت سندھ' نے کیا تھا جو بورڈ کی سرکاری ویب سائٹ پر اب بھی موجود ہے۔

تاہم تھر کول کے یو جی سی پراجیکٹ سے کوئی بجلی پیدا نہیں ہو رہی بلکہ وہاں پلانٹ کی جگہ مشینری کا کباڑ، اجڑے دفاتر اور کچھ گاڑیوں کے ڈھانچے موجود ہیں۔

19 ہزار 637 مربع کلومیٹر پر پھیلے ضلع تھرپارکر کے نو ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر کا انکشاف 1991ءمیں جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور امریکی ایجنسی برائے بین القوامی ترقی نے کیا تھا۔ اس سروے شدہ علاقے کو ڈرلنگ کر کے کئی بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان میں سے بلاک-5 میں حکومت پاکستان نے سب سے پہلے کوئلےسے بجلی بنانے کے لیے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا جو اسلام کوٹ سے 25 کلومیٹر پر گاؤں بھابھنیوں اور مگھو بھیل کے قریب واقع ہے۔

تھر کول توانائی بورڈ کہتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت 50 میگا واٹ کے دو پاور پلانٹس لگا کر آئی جی سی سی ٹیکنالوجی یا انڈر گراؤنڈ کول گیسی فیکیشن کے ذریعے 100 میگاواٹ بجلی پیدا کی جانی تھی۔

'انڈر گرونڈ (زیر زمین) کول گیسی فیکیشن' ٹیکنالوجی میں ہوا یا آکسیجن کو کوئلے کی تہہ میں داخل (انجیکٹ) کر کے کنویں سے سنگیس(syngas) نکالی جاتی ہے جس کو مزید پراسس کرنے کے بعد اسے مائع یا گیس کی شکل میں بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یو جی سی پراجیکٹ کو 2009ء میں پلاننگ کمیشن نے منظور کیا جس کی لاگت کا تخمینہ 8 ارب 80 کروڑ روپے  لگایا گیا تھا۔ پھر منسٹری آف پٹرولیم، سنٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) اور ایکنک (قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی)نے بھی اس کی باضابطہ منظوری دی۔

بجلی کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ملک کے نامور سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات حاصل کی گئیں اور 2012ء میں کام کا آغاز ہوا۔

بھابھنیوں گاؤں کے قریب 28 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے پانچ ایکڑ پر رہائشی کالونی اور سامنے پانچ ایکڑ پر ایڈمن بلاک تعمیر کیا گیا۔

ساتھ ہی 10ایکڑ اراضی پر ایک گیسیفائر نصب کیا گیا جبکہ منصوبے کو چلانے کے لیے 474 ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے تھے۔

تھر کول توانائی بورڈ سندھ  کے مطابق پلانٹ پر پہلا شعلہ (پائلٹ برن) دسمبر 2012ء میں بھڑکایا گیا جس کے بعد جون میں پلاننگ کمیشن نے منصوبے کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ آٹھ سے دس میگا واٹ بجلی کی پیداوار دس بارہ ماہ میں شروع ہو جانی چاہیے۔

2014ء تک اس منصوبے پر لگ بھگ تین ارب روپے خرچ ہوچکے تھے تاہم نظرثانی شدہ منصوبے کے تحت 10 میگاواٹ کا نیا گیسفائر پلانٹ گاؤں مگھو بھیل کے قریب الگ لگایا گیا جس کا بجٹ سندھ حکومت نے فراہم کیا۔

نئی سکیم ستمبر 2016 تک مکمل ہونا تھی مگر یہاں سے ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہ ہو سکی اور یہاں کام بند ہو گیا۔ پروجیکٹ کے اہم افسر بھی ایک ایک کر کے واپس چلے گئے۔

منصوبے  کے 474 ملازمین مختلف اوقات میں پانچ ماہ تک احتجاج کرتے رہے مگر ان کی کسی نے نہ سنی اور وہ بھی تھک ہار کر خاموش ہو گئے۔ 2012ء سے 2018ء تک مجموعی طور پر اس پراجیکٹ پر سرکاری خزانے سے چار ارب 69 کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ کی جا چکی تھی۔

2018ء میں چیف جسٹس آف پاکستان نے تھرپارکر میں قحط کے دوران بچوں کی ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ اکتوبر میں اس کیس کی سماعت کے دوران اس وقت رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے یو جی سی پراجیکٹ کا ذکر کیا تو عدالت عظمیٰ نے اس منصوبے کی آڈٹ رپورٹ طلب کر لی۔

دسمبر 2018ء میں اٹارنی جنرل  کی طرف سے سپریم کورٹ میں آڈٹ رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے گیسی فیکشن پراجیکٹ میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس منصوبے پر چار ارب 69 کروڑ 76 لاکھ 60 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں جن میں کچھ رقوم قانونی شرائط پوری کیے بغیر استعمال کر لی گئیں۔ پہلی دو سکمیوں سے پہلے ہی تیسری سکیم ( یو جی سی پراجیکٹ کے تین پی سی ون بنائے گئے تھے) کی منظوری دے دی گئی تھی۔

"غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے یو جی سی پراجیکٹ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ یہ تک واضح نہیں تھا کہ زیر زمین کول گیسی فیکیشن قابل عمل منصوبہ ہے بھی یا نہیں۔"

عدالت نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی رپورٹ کے روشنی میں نیب کو اس منصوبے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ اس دوران سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے استدعا کی کہ وفاقی حکومت کو یہ منصوبہ ٹیک اوور کرنے کا حکم دیا جائے۔

 تاہم بنچ نے ہدایت کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک دوسرے سے تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ چھ ہفتوں میں منصوبے کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ لیکن اس معاملے میں کوئی پیشرفت ہو سکی اور نہ ہی نیبب اس کیس کو آج تک آگے بڑھا پایا ہے۔

عطا محمد رند جیالوجسٹ ہیں جنہوں نے یو سی جی منصوبے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تھر کی معدنیات پر کتاب بھی لکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دراصل چینی کمپنی 'وی فلو' نے 2009ء میں حکومت کو انڈر گرائونڈ گیسی فیکیشن سے بجلی بنانے کی تجویز دی تھی۔

"ڈاکٹر ثمر مبارک اس وقت پلاننگ کمیشن کے ممبر تھے۔ جب چینی پرپوزل انہیں ملی تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں یہ منصوبہ کم خرچ میں مکمل کر لوں گا۔ ساتھ ہی انہوں نے وزیراعظم گیلانی کو 10 ارب کی سمری بھیج دی جس میں 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ تجویز کیا گیا تھا۔"

"وزیر اعظم  نے یہ سمری پلاننگ کمیشن کو بھیجی تو انہوں نے کام شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ ثمر مبارک نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو آگاہ کیا اور بلاک پانچ کی لیز سمیت بنیادی سہولیات کی مدد مانگی۔ جس پر وزیر اعلیٰ نے انتظامی اور ٹیکنیکل معاملات کے لیے ایک گورننگ باڈی تشکیل دے دی۔"

وہ کہتے ہیں کہ گورننگ باڈی کا چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور  اس کا ایم ڈی اٹامک انرجی کے ایک ریٹائرڈ افسر کو بنایا گیا جو باڈی کے سیکریٹری بھی تھے۔ اس ادارے میں سندھ کے تین نمائندوں سیکرٹری انرجی بورڈ، سیکریٹری خزانہ اور ڈائریکٹر جنرل سندھ کول اتھارٹی کو ممبر نامزد کیا گیا۔

ان کا ماننا ہے کہ پراجیکٹ کے تقریباً 105 شعبوں میں انجینئرز سمیت ٹیکنیکل پوسٹوں پر جو لوگ بھرتی کیے گئے وہ نا تجربہ کار تھے۔

"جاپان سے ہائی پریشر کمپریسر منگوائے گئے جب سونامی کی وجہ سے یہ کمپریسرز نہ پہنچے تو سیکنڈ ہینڈ چینی کمپریسرز لے کر کام شروع کر دیا گیا مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ ڈرلنگ ( بور) ٹھیک نہیں تھی اور نہ ہی پراجیکٹ میں اس کام کے ماہر لوگ موجود تھے۔"
 

عطا محمد رند کے مطابق 2013ء میں پہلے تجرباتی گیسی فائر کا افتتاح وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کیا تھا لیکن سسٹم مسلسل آپریٹ نہ ہونے کے باعث بور بند ہو گئے۔ اس کے بعد 8 میگاواٹ پاور ہاؤس منصوبے کا بھی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔

 " 2015ء میں ایک سے دو میگاواٹ کے سولر گیس جنریٹرز کو مسلسل دو ماہ چلایا گیا لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ہوا کیونکہ ریتلے ٹیلےاور پانی کے بہاؤ کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ بالآخر مزید فنڈنگ نہ ملنے پر جون 2018ء میں یہ منصوبہ بند کر دیا گیا۔"

ساؤتھ چائنہ یونیورسٹی کے ریسرچر 'فی ماؤ' کی تحقیق  بتاتی ہے کہ اب تک مختلف ممالک میں تقریباً 33 زیر زمین کوئلہ گیسی فیکیشن منصوبے بنائے گئے جن میں سوویت یونین، امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، کینیڈا اور یورپ قابل ذکر ہیں۔

اس تحقیق کی مطابق امریکا نے 70ءاور 80ء کی دہائی میں مختلف مقامات پر گیسی فیکیشن کے 38 تجربے کیے تھے لیکن پھر اس ٹیکنالوجی اور مزید تحقیق کو ملتوی کر دیا تھا۔

تاہم پنجاب یونیورسٹی، سنٹر فار کول ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر منیر شاہد 'تھر کول گیسی فیکیشن پراجیکٹ' کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کمرشل پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اس سے دنیا بھر میں کہیں ایک میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔

"پاکستان کو آزمودہ ٹیکنالوجی اور اوپن پٹ مائننگ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔"

فیڈرل پلاننگ ڈیویلپمنٹ اینڈ سپیشل انیشیٹو کے اہم افیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یو سی جی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا پروجیکٹ تھا جس کی کمرشل ویلیو پر نہ صرف ملکی سائسندان بلکہ بین الاقوامی ماہرین بھی سوال اٹھاتے رہے۔

"حکومت ملک کو بجلی بحران سے نکالنا چاہتی تھی اور ڈاکٹر ثمر مبارک نہ صرف گیس و بجلی بلکہ ڈیزل بنانے کے خواب بھی دکھا رہے تھے۔ لیکن اربوں روپے خرچ ہو گئے اور ہم ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر: کوئلے کی کانوں کے منصوبے، ماڈل گاؤں اور ناخوش کسان

اب یو جی سی پراجیکٹ کی صورتحال یہ ہےکہ دو ارب کی مشینری(سندھ انرجی بورڈ کا تخمینہ ہے) اور منصوبہ مکمل تباہی کا شکار ہے جبکہ قیمتی دفاتر اور گاڑیاں بیکار پڑی ہیں۔ حفاظت اور باؤنڈری وال نہ ہونے کے باعث لوگ اس پلانٹ میں لگا سامان تک چوری کر کے کباڑ میں بیچ رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ کول اتھارٹی غلام مصطفیٰ بجیر بتاتے ہیں کہ یہ وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے اور پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس کے لیے کمیٹی بنائی ہوئی ہےجس میں ڈائریکٹر جنرل سندھ کول اتھارٹی بطور رکن شامل ہیں۔

"اس کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں مگر مشینری سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا  تاہم اس وقت سندھ کول اتھارٹی اس منصوبے کی نگرانی کر رہی ہے اور سکیورٹی سندھ پولیس کے سپرد ہے۔"

سندھ کول اتھارٹی نے یو سی جی کی نگرانی کا اضافی چارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد طارق کلو کے سپرد کر رکھا ہے۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں سامان کی چوریاں ہوتی رہتی ہیں تاہم وہ پراجیکٹ کی رپورٹ ہر 15روز بعد حکومت کو پیش کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ میگا منصوبہ کافی بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی کوئی چار دیواری بھی نہیں بنائی گئی تھی اس لیے اب ان اثاثوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چھ سال سے کام مکمل بند ہے اور یہاں نگرانی کے لیے 13 افراد کی ڈیوٹی ہے جن میں سے پانچ سندھ پولیس کے اہلکار ہیں اور باقی نجی سکیورٹی کمپنی کے ملازم ہیں جن کو ڈیڑھ سال قبل ان کے محکمےنے ہائر کیا تھا۔

"یہ علاقہ بہت بڑا اور پراجیکٹ تین حصوں میں تقسیم ہےجبکہ روشنی کے لیے بجلی بھی میسر نہیں۔ یہاں موجود مشنری اور گاڑیاں  قابل استعمال ہیں اگر حکومت  کوئی راستہ نکالے تو انہیں بچایا جا سکتا ہے۔"
 
عطا محمد رند سمجھتے ہیں کہ کروڑوں کے اثاثے بے کار پڑے ہیں۔ اگر آٹھ میگاواٹ کے گیس جنریٹر کو کوئلے سے سٹیم ٹربائن لگا کر چلایا جائے تو یہ پورے تھر کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہےجس کی ضرورت ہی صرف 10 میگاواٹ ہے۔ جبکہ پراجیکٹ کی عمارت کو ریسرچ لیب سمیت کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 6 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.