پاکستان کی سڑکوں پر ای بائیکس تو نظر آتی ہیں مگر ای کاریں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ الیکٹرک کاریں کم خرچ تو ہیں لیکن ابھی مہنگی ہیں۔
عبدالھادی اسلام آباد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرونکس کے سربراہ ہیں جنہوں نے اپنی 2002 ماڈل سوزوکی مہران کو الیکٹرک گاڑی میں تبدیل کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی پرانی گاڑی کو ریٹروفٹنگ یا کنورژن کٹس کے ذریعے ایک دن میں ای وی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بولان، ہنڈا سوک، آلٹو، کلٹس یا کوئی بھی پرانی گاڑی ای وی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول اب تک اسلام آباد میں 20 سے زائد گاڑیاں ای ویز میں تبدیل کی جا چکی ہیں۔
ڈی جی ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی محمد آصف صاحبزادہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تین کروڑ 70 لاکھ سے زائد تیل و گیس پر چلنے والی گاڑیاں موجود ہیں جن میں دو کروڑ 87 لاکھ پٹرول بائیکس ہیں جو آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
پرانی گاڑیوں میں الیکٹرک سسٹمز کی انسٹالیشن یا ریٹروفٹنگ آلودگی کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جو خاص طور پر موٹرسائیکل کے لیے کم خرچ اور مؤثر ہے۔

پرانی گاڑی سات لاکھ میں الیکٹرک گاڑی بن گئی، سنگل چارج میں 200 کلومیٹر
امریکا، یورپ، افریقہ، بھارت سمیت کئی ممالک میں کاروں اور ہلکی کمرشل گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی پہلے ہی جاری ہے جس کی وجہ سے آٹوموٹو کنورژن کٹس کی عالمی مارکیٹ کا حجم چار ارب 32 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
عبدالھادی بتاتے ہیں کہ پرانی گاڑی کا انجن نکال کر اس کی جگہ ای وی کٹ لگا دی جاتی ہے پھر اس کو ٹرانسمشن سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اس میں الیکٹرک موٹر نصب کر کے چارجنگ پارٹس لگائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ای وی کٹس چین سے آتی ہیں جن میں موٹر، موٹر کنٹرولر، تھراٹل، وائرنگ، ڈی سی کنورٹر، بیٹری مینجمنٹ سسٹم، اڈاپٹر پلیٹ، کپلر اور چارجنگ ساکٹ شامل ہوتے ہیں۔ بیٹری پیک الگ ہوتا ہے۔
"ہم زیادہ تر 72 وولٹ پر چلنے والی موٹر اور180 امپیئر کی لیتھیم بیٹری استعمال کرتے ہیں۔ میری گاڑی میں ہیڈلائٹس اور ہارن کے لیے الگ 12 وولٹ بیٹری لگائی گئی ہے۔ اس کا موٹر کنٹرولر اور چارجنگ پارٹ ہم نے خود تیار کیا ہے۔ اس میں ابھی اے سی نہیں ہے جس کے لیے علیحدہ سسٹم لگایا جاتا ہے۔"
عبد الہادی کے مطابق اس وقت نئی ای کار کم از کم 40 لاکھ روپے کی ہے جو سنگل چارج میں 250 کلومیٹر طے کرتی ہے جبکہ پرانی گاڑی صرف سات لاکھ روپے میں کنورٹ ہو جاتی ہے اور ایک چارج میں تقریباً 200 کلومیٹر طے کرتی ہے۔
تاہم ای وی ای ای (EVEE)الیکٹرک سکوٹر کے جنرل منیجر نعمان علوی کہتے ہیں کہ اکثر کنورٹڈ گاڑیوں کی رینج 150 کلومیٹر اور حد رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ صرف یہی نہیں ان میں ائر کنڈیشنر بھی نہیں ہوتا جو قصبات یا شہروں کے اندر ہی استعمال کے لیے قابل قبول ہیں۔

نئی پالیسی کا ہدف اگلے 15 سال میں آدھی گاڑیوں کو الیکٹرک کرنا ہے
قومی الیکٹرک وہیکلز پالیسی 30-2025ء میں مقرر کردہ اہداف کے مطابق 2030ء تک ملک میں تمام نئی گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد نیو انرجی وہیکلز (این ای ویز یعنی ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیاں) شامل ہوں گی جو 2040ء تک 50 فیصد اور 2060ء تک 100 فیصد تک بڑھا دی جائیں گی۔
اس پالیسی میں بتایا گیا کہ 2030ء تک 20 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) سڑکوں پر لانے کا ٹارگٹ ہے جس سے ایک ارب ڈالر (دو ارب لٹر تیل کی بچت) سے زائد زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ہی حکومت نے ای ویز پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے جو ای بائیکس پر 65 ہزار روپے، تین ویل گاڑی (ای رکشہ وغیرہ) پر چار لاکھ روپے اور فور ویل ای ویز کے لیے 15 ہزار روپے فی کلو واٹ (بیٹری پاور) ہوگی۔
اس سلسلے میں دیگر مراعات کے ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان گرین آٹو فنانسنگ کی سکیمیں شروع کرے گا جس سے ای ویز آسان قسطوں پر دستیاب ہوں گی۔ واضح رہے ای وی کا خرچ فی کلومیٹر 8.40 روپے جبکہ پٹرول گاڑی کا 26 روپے آتا ہے۔
اب تک ای بائیکس اور ای رکشے وغیرہ بنانے کے لیے 61 کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں۔ نئی ای ویز پالیسی کے تحت آئندہ دو سال میں 90 فیصد مقامی پیداوار شروع ہو گی۔
ای ویز کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر کو مضبوط بنایا جا رہا ہے، 2030ء تک تین ہزار عوامی چارجنگ سٹیشنز قائم ہوں گے۔ اگلے 6 ماہ میں 40 فاسٹ چارجرز نصب کیے جائیں گے اور ہر پٹرول پمپ پر 10 فیصد چارجرز لگانا لازمی ہو گا۔

ای بائیک، رکشہ سبسڈی سکیم فضائی آلودگی اور پٹرول درآمدی بل دونوں کم کرے گی
پالیسی انسٹی ٹیوٹ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ڈیٹا کے مطابق بائیکس اور رکشے/ لوڈرز کی تعداد میں سالانہ 11 فیصد اضافہ ہور ہا ہے۔ ایک سال قبل ایندھن کا ملکی درآمدی بل 16.8 ارب ڈالر تھا جبکہ فضائی آلودگی سے سالانہ مالی نقصانات کا تخمینہ 22ارب ڈالر بنتا ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ماحولیاتی بہتری کے لیے موٹر وہیکلز سے متعلق اقدامات نا گزیر ہیں۔ اسی لیے حکومتی پالیسی بائیکس اور رکشے/ لوڈرز کو ای ویز میں شفٹ کرنے پر زیادہ زور دے رہی ہے۔
قومی ای وی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے وفاقی بجٹ میں نو ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اب دو روز قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پانچ سالہ سبسڈی سکیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت 100 ارب روپے کی لاگت سے ایک لاکھ 16 ہزار ای بائیکس اور تین ہزار 170 ای رکشے/لوڈر دیے جائیں گے۔
سکیم کے پہلے مرحلے میں آزاد کشمیر، جی بی سمیت ملک بھر میں 40 ہزار ای بائیکس اور ایک ہزار ای رکشے /لوڈر دیے جائیں گے جن میں 219 بائیکس پوزیشن ہولڈر طلبہ کے لیے مختص ہوں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیک کے لیے قرض کی حد دو لاکھ روپے اور مدت دو سال ہوگی۔ جبکہ رکشے/لوڈر کے لیے قرض آٹھ لاکھ 80 ہزار روپے اور مدت تین سال ہوگی۔قرض پر مارک اپ کی رقم حکومت ادا کرے گی، درخواست گذار کو صرف 20 فیصد رقم پہلے جمع کرانا ہو گی۔
رکشے/لوڈر کا کوٹہ صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوگا جبکہ بلوچستان کو 10 فیصد کوٹہ ملے گا۔ ای بائیکس کا 25 فیصد حصہ خواتین کے لیے مختص ہوگا۔

ریٹروفٹنگ کے ذریعے ای ویز پر منتقل ہونا سب سے سستا طریقہ ہے
اگرچہ قومی ای وی پالیسی کے تحت فور ویل ای ویز (وین کار، ڈالہ وغیرہ) کے لیے بھی فی کلو واٹ پاور کے حساب سے سبسڈی تجویز کی گئی تھی تاہم اس سبسڈی سکیم میں ان گاڑیوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد کے انفارمیشن ہیڈ ولید احمد بتاتے ہیں کہ نئی ای ویز کی مفت رجسٹریشن کی جا رہی ہے یعنی کوئی فیس نہیں لی جا رہی۔
اسلام آباد کے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں اب تک ایک ہزار 930 ای بائکس اور لگ بھگ دو ہزار دوسری ای ویز رجسٹر ہو چکی ہیں جن میں ای رکشے، لوڈر اور چند فور ویل گاڑیاں ہیں۔ تاہم ابھی تک کوئی کنورٹڈ گاڑی رجسٹریشن کے لیے نہیں آئی۔
ماحولیاتی ماہر یاسر حسین بتاتے ہیں کہ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ساتھ ایک سو سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہو چکی ہیں جن میں ای وی مینوفیکچررز، پرزہ جات اور بیٹری ساز شامل ہیں۔ درجن بھر کمپنیاں فور ویل ای ویز پر کام کر رہی ہیں۔
ملک میں تقریباً 30 ای وی چارجنگ سٹیشنز موجود ہیں اور ان میں مزید توسیع کی منصوبہ بندی کی جار ہی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ریٹروفٹنگ کے ذریعے ای ویز پر منتقل ہونا سب سے سستا طریقہ ہے۔ گاڑیوں میں ہائبرڈ کا آپشن بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ ای وی میں بیٹری استعمال کریں یا چاہیں تو پٹرول پر چلا لیں۔
تاہم نعمان علوی کا ماننا ہے کہ پرانی تبدیل گاڑیوں کا نئی ای ویز کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا یہ بالکل مختلف کیٹیگری ہے۔ ایک چھوٹی نئی ای کار تقریباً 40 سے 50 لاکھ روپے میں دستیاب ہے جو سنگل چارج میں 250 سے 300 کلومیٹر کی رینج دیتی ہے۔

ریٹروفٹنگ کے معیار مستریوں کے حوالے کرنا خطرناک ہو سکتا ہے
ای وی ای ای (EVEE)الیکٹرک سکوٹر کمپنی کے جنرل منیجر نعمان علوی زور دیتے ہیں کہ اگر پرانی گاڑی کو ای وی میں تبدیل کرنا مجبوری ہو تو اس میں پائیدار بیٹری مینجمنٹ سسٹم (بی ایم ایس) بہت ضروری ہے جو بیٹری کی حفاظت، کارکردگی اور پائیداری کو یقینی بناتا ہے۔
اسی طرح یہاں کے موسم کے لیے لیتیھیم آئرن فاسفیٹ بیٹری بہت موزوں ہے جو زیادہ درجہ حرارت برداشت کر سکتی ہیں اور اس کی عمر بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی ای ویز میں منتقلی (کنورژن) کا کام سرگودھا، شاہدرہ لاہور اور دیگر شہروں کی ورکشاپس کے مستری کر رہے ہیں۔ یہ غیر منظم طریقہ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا اور ایسی غلطیاں کر سکتا ہے جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ بظاہر آسان نظر آنے والا عمل خاصہ پیچیدہ ہے اور یہ واضح معیارات کے تحت مستند اداروں کو ہی کرنا چاہیے۔
تاہم ڈی جی ماحولیات بتاتے ہیں کہ حکومت، وزارت موسمیاتی تبدیلی، صنعت و پیداوار اور پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی مل کر ای وی کنورژن کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک تیار کررہے ہیں۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی کے ای وی مینیجر حسین رضوی کا خیال ہے کہ ملک میں ای ویز کی اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ اب درست سمت میں جا رہی ہے۔ بیٹری کی قیمتوں میں کمی اور ٹیکنالوجی میں بہتری اور ای ویز کی فروخت میں تیزی آ رہی ہے جو اس صنعت کے لیے مثبت اشارے ہیں۔
تاریخ اشاعت 15 اگست 2025