کشیدہ کاری: خواتین دستکاروں اور کڑھائی کی 'مرد مشینوں' میں چھڑی جنگ

postImg

سہیرہ طارق

postImg

کشیدہ کاری: خواتین دستکاروں اور کڑھائی کی 'مرد مشینوں' میں چھڑی جنگ

سہیرہ طارق

کوثر بی بی ملتان شہر میں 25 برس سے کشیدہ کاری کا کام کر رہی ہیں۔ وہ چھ بچوں کی ماں ہیں اور انہوں نے یہ کام انہوں نے شوہر کی بیماری کے بعد گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔ دکاندار انہیں آرڈر دیتے تھے اور وہ گھر پر رہ کر ہی سارا کام کرتی تھیں۔

چند سال قبل تک ان کے کام کی خوب مانگ تھی لیکن گزشتہ آٹھ دس برسوں میں دکانداروں نے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو آہستہ آہستہ آرڈر دینا بند کر دیئے ہیں۔

ملتان کا حسین آگاہی بازار (کشیدہ کاری کے) کام والے ملبوسات کے حوالے سے بڑی مارکیٹ ہے۔ فیصل صمد کی دکان اسی بازار میں ہے۔ان کے پاس ہاتھ اور مشین دونوں کی کڑھائی والے ملبوسات ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہاتھ کے کام والے کپڑوں کی قیمت سنتے ہی گاہک اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

"ہمارے ہاں اب زیادہ تر مشین کی کڑھائی والے ملبوسات فروخت ہوتے ہیں۔بیس میں سے ایک گاہک ہی ہاتھ کا کام مانگتا ہے"۔

چوک بازار کے ذیشان احمد کی دکان 50 برس پرانی ہے۔ وہ بھی فیصل کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب اڈے کے کام اور ہاتھ سے کشیدہ کاری کیے گئے ملبوسات کی جگہ مشینی کام نے لے لی ہے۔

" کپڑے کی قیمت اور میٹیریل کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ ہاتھ سے تیار کردہ ملبوسات کی قیمت عام لوگوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ ہاتھ کے کام والے اور مشین سے کشیدہ کاری والے سوٹ کی مانگ میں ایک اور دس کا فرق ہے"۔

کوثر بی بی اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ "کپڑوں پر ہاتھ سے کشیدہ کاری، دپکے اور ستارہ موتی کے کام پر کافی وقت لگتا ہے لیکن مشینیں دنوں کا کام منٹوں میں کر دیتی ہیں اس لیے وہ سستا بھی ہوتا ہے"۔

"مہنگائی کی وجہ سے اڈے کا سامان مہنگا ہو گیا ہے۔تین سو روپے گز والا کپڑا مہنگا ہو کر 11 سو روپے گز ہو چکا ہے جبکہ ستارے موتی اور دیگر سامان 50 روپے تولہ سے بڑھ کر 400 روپے تولہ ہو چکا ہے"۔

وہ بتاتی ہیں کہ پہلے متوسط طبقے کے لوگ بھی دستکاری والے ملبوسات خرید لیتے تھے لیکن اب یہ ان کے بس میں نہیں رہے۔

کوثر اب صاحبِ حیثیت خواتین سے ملبوسات کے آرڈر لیتی ہیں۔

جلالپور پیروالا کی 50 سالہ فاطمہ بی بی تو اب کشیدہ کاری سے تائب ہوچکی ہیں۔ وہ چند سال پہلے تک اون، دھاگے اور موتیوں سے کروشیہ کی اشیا بناتی تھیں۔ "پہلے کام کی طلب بہت زیادہ تھی اس لیے آمدن بھی خوب ہوتی تھی۔لیکن اب مشینیں خواتین دست کاروں کے مقابل آ گئی ہیں۔ مشینی کام تیز اور سستا ہوتا ہے"۔

<p>ہاتھ سے تیار کشیدہ کاری والے ملبوسات کی جگہ مشینی کام والے ملبوسات کی مانگ بڑھ گئی ہے<br></p>

ہاتھ سے تیار کشیدہ کاری والے ملبوسات کی جگہ مشینی کام والے ملبوسات کی مانگ بڑھ گئی ہے

تاہم فاطمہ کا خیال ہے کہ ہاتھ کا کام ابھی بالکل ختم نہیں ہوا البتہ بے تحاشا مہنگا ہو گیا ہے اور اب صرف پیسے والوں کی دسترس میں ہی ہے۔

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا: مارکیٹنگ کے نئے محاذ

ہاتھ کا کام بہت سے علاقوں میں گھریلو خواتین کے لیے روزگار کا واحد ذریعہ تھا جبکہ اس کی جگہ لینے والی مشینی کڑھائی کا کام مرد مزدوروں سے لیا جاتا ہے یوں اس پوری صنعت کا صنفی کردار یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔

 مشینوں پر کام کرنے والے مرد مزدور کڑھائی کے فن سے نابلد ہوتے ہیں۔ ان کی مہارت بس مشین چلانے میں ہوتی ہے۔ حسین آگاہی بازار کی گلی کمنگراں والی میں مشینی کام کے کارخانے ہیں جہاں مرد کاریگر ریٹے اور دپکے موتی کے مشینی ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے محمد سلطان نے بتایا کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے 12 سو روپے مزدوری ملتی ہے (جو خواتین دستکاروں کو ملنے والی روازنہ اجرت کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے) اور وہ ایک دن میں پانچ سے چھ سوٹ تیار کر دیتے ہیں۔

 سلطان کہتے ہیں کہ انہیں چونکہ کوئی ہنر نہیں آتا اس لیے یہاں کام کرنا ان کی مجبوری ہے۔

ملتان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ایک ویمن ونگ موجود ہے جس کے قیام کا مقصد ہنر مند خواتین کو کاروبار کے فروغ میں مدد اور انہیں خود مختار بنانے کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے۔

ضلع ملتان کی 250 خواتین دستکار ویمن ونگ میں رجسٹرڈ ہیں۔

ویمن ونگ کی کنوینر صالحہ حسن کہتی ہیں کہ بہترین کام کرنے والی خواتین کو مصنوعات کی مارکیٹنگ اور فروخت کے لیے مفت تربیت فراہم کی جاتی ہیں۔مگر عام خواتین کے لیے چیمبر تک رسائی بہت مشکل ہے۔جن خواتین نے ملتان چیمبر کے ویمن ونگ سے فائدہ اٹھایا بھی ہے وہ بھی اب صرف خواص کے لیے کام کرتی ہیں۔

رخسانہ نے آج سے چند سال قبل انگلینڈ میں ہونے والی دستکاری نمائش میں شرکت کی تھی۔ ان کے ٹکٹ، رہائش اور نمائش میں لگائے گئے سٹالز کے اخراجات چیمبر اور دیگر اداروں نے اٹھائے۔ رخسانہ وہاں زری، دپکے سے بنے فینسی ملبوسات اور ہاتھ سے تیار کردہ جیولری لے کر گئی تھیں۔ انہیں وہاں نہ صرف اپنے ملبوسات کی اچھی قیمت ملی بلکہ بیش قیمت رابطے قائم کرنے کا موقع بھی ملا۔

 لندن سے واپسی پر رخسانہ نے دکانداروں سے آرڈر لینا بند کر دیے۔ "دکاندار کپڑا ، موتی، نگ، گوٹے اور میٹیریل فراہم کرنے کے بعد تین سے چار سو روپے روزانہ معاوضے پر کام کرواتے تھے۔اب میں اپنی جان پہچان کی خواتین کے لیے کام کرتی ہوں"۔

آن لائن کا آسرا کتنوں کی مدد کر پائے گا؟

صالحہ حسن کہتی ہیں کہ دستکار خواتین کو کام جاری رکھنے کے لیے روایتی طریقوں کی بجائے مارکیٹنگ کے نئے طریقے اپنانا ہوں گے۔

پاک گیٹ کی عاصمہ نے اپنے ہنر کی اچھی قیمت کے لیے نیا طریقہ آزمایا اور آن لائن فروخت کا سلسلہ شروع کیا۔

<p>مشینی کڑھائی کا کام خواتین کی بجائے مرد مزدوروں سے لیا جاتا ہے<br></p>

مشینی کڑھائی کا کام خواتین کی بجائے مرد مزدوروں سے لیا جاتا ہے

عاصمہ تبسم نے 20 سال پہلے فیبرک پرنٹنگ کا کام اپنے شوق کی وجہ سے کیا تھا لیکن شوہر کی وفات کے بعد شوق ان کے روز گار کا ذریعہ بن گیا۔ عاصمہ شوہر کی وفات کے بعد سے بھائی کے گھر رہتی ہیں۔

ان کے دو بچے ہیں بیٹا سیکنڈ ایئر اور بیٹی فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے۔

عاصمہ سلک اور کاٹن کے کپڑوں پر مختلف رنگوں سے خوبصورت ڈیزائن بناتی ہیں۔ "فیبرک پرنٹنگ کے کام میں محنت کے ساتھ کپڑے پر ڈیزائن بنانے اور رنگوں کے انتخاب کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سوٹ تیار کرنے میں چار سے پانچ روز درکار ہوتے ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوادر کی دوچ گر خواتین: 'کبھی کبھی نیند میں خیال آتا ہے کہ انگلی میں سوئی چبھ گئی ہے اور اس میں سے خون نکل رہا ہے'۔

عاصمہ نے بتایاکہ ان کے تیار کردہ سوٹ کی قیمت آٹھ سے 15 ہزار روپے تک ہے۔ دکانداروں کی طرف سے آرڈر ملنا بند ہوئے تو عاصمہ نے ملبوسات کو آن لائن فروخت کرنا شروع کردیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا سائیٹس فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنے پیج بنا رکھے ہیں اور وہ ان پر اپنے ملبوسات کی تصاویر وغیرہ باقاعدگی سے اپ لوڈ کرتی ہیں۔

مگر ان کا کہنا ہے کہ آن لائن پراڈکٹس متعارف کروانے اور ان کی تشہیر کرنے میں خاصی محنت اور سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیے عاصمہ کے ملبوسات کم کم ہی فروخت ہوتے ہیں۔

صالحہ حسن بتاتی ہیں کہ چیمبر آف کامرس کی جانب سے خواتین دستکاروں کے لیے ای کامرس پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے خواتین گھر بیٹھے آن لائن اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے قابل ہوں گی۔

 

تاریخ اشاعت 8 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف قومی و علاقائی نیوز چینلز میں سماجی، سیاسی، معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.