دو ہفتے پہلے 37 سالہ مگن نے اپنی 16 سالہ بیوی سوناری کے ساتھ مِل کر ایک کچا مکان تعمیر کیا تاکہ ان دونوں کے پاس برسات میں سر چھپانے کا ٹھکانہ موجود ہو۔ آج مگن اس مکان میں اکیلے رہتے ہیں کیونکہ کئی ماہ کی حاملہ سوناری کا انتقال ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چند روز پہلے ان کی بیوی کے پیٹ میں اچانک شدید درد ہوا۔ وہ انہیں ایک قریبی بستی میں مومل مائی نامی دائی تک پہنچانے کے لئے سواری ڈھونڈتے رہے لیکن رات بہت گزر جانے کی وجہ سے انہیں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ چنانچہ سوناری ساری رات درد سے چیختی رہیں اور مگن ان کے سرہانے بیٹھے انہیں حوصلہ دیتے رہے۔
صبح ہوتے ہی وہ انہیں ایک موٹر سائیکل رکشا میں بٹھا کر مومل مائی کے پاس لے گئے۔ سوناری اس وقت تک بےہوش ہو چکی تھیں اور ان کا بہت سا خون بھی بہہ چکا تھا اس لئے مومل نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا اور مگن سے کہا کہ وہ انہیں کسی قریبی ہسپتال میں لے جائیں۔
چنانچہ اسی موٹر سائیکل رکشا میں وہ سوناری کو لے کر سندھ کے مشرقی شہر عمرکوٹ کے ماروی کلینک میں پہنچے جہاں ایک ڈاکٹر نے کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد سوناری کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکالا۔ لیکن اس کوشش کے دوران سوناری کی جان بھی چلی گئی۔
عمرکوٹ سے 22 کلومیٹر جنوب میں واقع گاؤں جائینرو دڑو کے رہائشی مگن کا تعلق شیڈولڈ کاسٹ ہندو بھیل برادری سے ہے۔ ان کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور ان کا ذریعہِ معاش محنت مزدوری ہے۔ سوناری کے ساتھ ان کی شادی محض ایک سال پہلے ہوئی تھی۔
اگرچہ ان کی بیوی اپنی موت سے کئی روز پہلے ہی پیٹ میں درد اور خون بہنے کی شکایت کر رہی تھیں لیکن مگن انہیں ایک ڈاکٹر کے پاس نہیں لے گئے کیونکہ ان کے بقول ان کے پاس پیسے ہی نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ "میرے گھر میں اتنی غربت ہے کہ میری حاملہ بیوی بھی میرے ساتھ اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کیا کرتی تھی"۔
تاہم صرف غربت ہی انہیں سوناری کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے نہیں روک رہی تھی۔ وہ خود کہتے ہیں کہ "میں ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے اوپر کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کا مقدمہ ہی نہ بن جائے"۔
ان کے مطابق حال ہی میں ان کے گاؤں کا ایک رہائشی گمنو اوڈ اسی جرم میں دو راتیں تھانے میں گزار کر آیا تھا۔
کم سِن ماؤں کو درپیش طبی خطرات
زچہ اور بچہ کے امراض کی ماہر ڈاکٹر نجمہ علی صوبہ سندھ کے عمر کوٹ، تھرپارکر اور بدین نامی اضلاع میں سرکاری علاج گاہوں میں کام کر چکی ہیں۔ وہ تصدیق کرتی ہیں کہ شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادریوں سے تعلق رکھنے والی کم عمر حاملہ بچیوں کو انکے خاندان کے لوگ اکثر غیر تربیت یافتہ دائیوں کے پاس اس لئے لے جاتے ہیں کہ شہر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کی وجہ سے کہیں ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع نہ ہو جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے خود بھی کچھ لوگوں کو کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کرنے پر گرفتار کرایا ہے تاکہ دوسرے لوگ گرفتاری کے ڈر سے ایسی شادیاں کرنے سے باز آئیں"۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود ایسی شادیوں "میں کوئی کمی نہیں آ رہی"۔
میرپور خاص شہر میں کام کرنے والی زچہ بچہ کے امراض کی ماہر ڈاکٹر سنگیتا کماری بھی اسی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں بچے پیدا کرتے وقت موت کا خطرہ بالغ خواتین کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان لڑکیوں کے کمزور اور نابالغ جسموں میں حمل کی پیدا کردہ تبدیلیاں برداشت کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ان بچیوں سے جو کام لیا جاتا ہے وہ ان کی سکت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں جو خوراک دی جاتی ہے وہ ان کی توانائی کی ضروریات کے لیے بہت ناکافی ہوتی ہے"۔
کم عمری کی شادیاں کیسے رکیں گی؟
عمرکوٹ شہر میں رہنے والے کرشن بھیل ایک سرکاری اسکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوناری کی موت اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں بلکہ "میری دو بھتیجیاں، رادھا اور کستوری، بھی کم عمری میں حاملہ ہونے کے باعث اپنی جان گنوا بیٹھی ہیں جبکہ مگن کے اپنے گاؤں میں ہی اس کی بیوی کے علاوہ چار لڑکیاں گزشتہ چند مہینوں میں اسی وجہ سے موت کا شکار ہو چکی ہیں"۔
ان کے مطابق ان کی بھیل برادری میں کم عمری کی شادیوں کی بنیادی وجہ صدیوں پرانے رسم و رواج ہیں جن کے تحت بڑی عمر میں لڑکیوں کی شادی کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے ان رسم و رواج پر شدت سے عمل کرنے والے لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ "سوناری جیسی بچیاں اس کا خمیازہ کیسے بھگت رہی ہیں"۔
کرشن نے کچھ مقامی نوجوانوں کے ساتھ مِل کر ایک تنظیم بھی بنائی جس کا مقصد شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادریوں میں کم عمری کی شادیوں کو روکنا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اس تنظیم کا قیام مقامی پنڈتوں کو اس قدر ناگوار گزرا کہ انہوں نے ہماری برادری کے بزرگوں کے ذریعے ہم پر شدید دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں ہمیں اپنا کام روکنا پڑا"۔
تاہم بدین کی ضلع کچہری میں کام کرنے والے وکیل محمد حسن خاصخیلی کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام سماجی تنظیموں کے بجائے حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ان کے بقول حکومت یہ ذمہ داری پور ی طرح ادا نہیں کر رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ "سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت دونوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کی شادیوں کے بارے میں قانون بنا رکھے ہیں جن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی کی عمر 18 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کم عمر کی لڑکیوں کی زچگی کے دوران اموات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ان قوانین پر عمل نہیں ہو رہا"۔
محمد حسن سمجھتے ہیں کہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو "ایسے پنڈتوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے جو ایسی شادیاں کراتے ہیں"۔ مزید برآں حکومت کو چاہیے کہ وہ "عوام میں ان شادیوں کے خطرناک طبی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرے تاکہ بچیوں کے والدین ایسی شادیاں کرنے سے پہلے سو بار سوچیں"
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 3 اگست 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 22 مارچ 2022