رحیم یار خان کے مشہور جنگل عباسیہ پلانٹیشن کی طرف جائیں تو راستے پر بہت سے لوگ ٹریکٹر ٹرالیوں، لوڈر رکشوں، موٹرسائیکلوں اور سائیکلوں پر لکڑی لاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ لکڑی ہے جو جنگل سے چوری کی جاتی ہے اور اسے جنگل کے قریب آرا مشینوں پر یا شہر میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے اور بہت سے لوگوں کا باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔
عباسیہ پلانٹیشن رحیم یار خان میں منصوبہ بندی کے تحت اگائے گئے پاکستان کے سب سے بڑے جنگلات کا حصہ ہے جن کا مجموعی رقبہ 34 ہزار ایکڑ ہے۔
یہ رقبہ تین بڑے جنگلات پر مشتمل ہے جن میں عباسیہ پلانٹیشن اور قاسم والا جنگل تحصیل لیاقت پور میں واقع ہیں جبکہ ولہار کا جنگل تحصیل صادق آباد کی حدود میں آتا ہے۔
لیاقت پور میں عباسیہ پلانٹیشن کا مجموعی رقبہ چھ ہزار 749 ایکڑ پر مشتمل ہے جبکہ قاسم والا جنگل پانچ ہزار 150 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ ان جنگلات میں 65 فیصد درخت سفیدے کے ہیں جبکہ 20 فیصد رقبے پر کیکر اور 15 فیصد پر شیشم اور دیگر درخت اگائے گئے ہیں۔
عباسیہ پلانٹیشن سے ملحقہ گاؤں کے رہنے والے سماجی کارکن مقبول احمد بتاتے ہیں کہ ان جنگلوں سے دن رات لکڑی چوری کی جا رہی ہے۔ وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ لکڑی چوری کرنے والوں کو محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
''جنگلات کے محافظ اپنا حصہ وصول کر کے لکڑی چوری کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ جنگل میں صفائی کے لیے جن مزدوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں انہیں سرکاری ریکارڈ میں 18 ہزار روپے اجرت دی جاتی ہے لیکن عملی طور پر یہ ادائیگی نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے محکمے کے اہلکار ان سے اجرت کے واؤچر پر دستخط کرا کے رقم خود رکھ لیتے ہیں اور مزدوروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاوضے کے طور پر جنگل سے لکڑی کاٹ لیں۔''
جنگلات میں صفائی کرنے والے مزدوروں کو نقد رقم دینے کی بجائے جنگل سے لکڑی کاٹ کر لے جانے کا کہا جاتا ہے
ایک بیلدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پچھلے دس سال سے عباسیہ اور قاسم والا جنگل میں مزدوری کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے کام کا معاوضہ کبھی نہیں ملا۔ اس کے بجائے محکمے کے اہلکار ان سے مسٹول (واؤچر) پر انگوٹھا لگوا کر محنتانے کے طور پر لکڑی کاٹنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کا گزر بسر اسی لکڑی کی فروخت پر ہے۔
مقبول احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کبھی محکمے کے کسی اعلیٰ افسر نے جنگل کا دورہ کرنا ہو تو مبینہ طور پر اہلکار اپنی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے نہر عباسیہ کے پشتے میں کٹ لگا کر جنگل میں پانی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح افسر کے لیے جنگل کا تفصیلی معائنہ کرنا مکن نہیں رہتا۔ ان جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی عام ہیں اور عام طور پر یہ آگ لکڑی چوری کو چھپانے کے لیے لگائی جاتی ہے۔
عباسیہ پلانٹیشن کے بکھو والا بلاک سے ملحقہ گاؤں کے زمیندار سمیت خان نے سجاگ کو بتایا کہ لکڑی چوری کے باعث ان جنگلوں میں شیشم کے درخت نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں جکہ کیکر اور سفیدے کے درخت بھی مسلسل کاٹے جارہے ہیں۔
'' شیشم کے درختوں کو جڑوں سے اکھاڑنے کے بعد نشان مٹانے کے لیے گڑھوں کو مٹی اور پتے بھر کر اس جگہ پانی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جنگل میں جمع ہونے والا کچرا 25 سے 30 ہزار روپے جبکہ پتے 20 ہزار روپے فی ٹرالی فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ کچرا اور پتے اینٹوں کے بھٹوں میں جلانے کے کام آتے ہیں جبکہ ان سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے کے بجائے مبینہ طور پر محکمہ جنگلات کے افسروں اور اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہی ہے۔ ''
لکڑی چوری کے باعث ان جنگلوں میں شیشم کے درخت نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں
عباسیہ پلانٹیشن کے بلاک آفیسر رانا محمد حفیظ اللہ بڑے پیمانے پر لکڑی چوری کو محض الزام قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ جنگل کے اطراف میں رہنے والے غریب کاشتکار اور محنت کش اپنا چولہا جلانے کے لیے سوکھے پتے اور گری ہوئی شاخیں لے جاتے ہیں جنہیں روکا نہیں جاتا۔ البتہ کوئی لکڑی چوری میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف ضرور کارروائی کی جاتی ہے۔
"ہم چور کو جرمانہ کر کے لکڑی سرکاری خزانے میں جمع کروا دیتے ہیں۔ اگر کوئی عادی چور ہو اور باز نہ آئے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے اور محکمہ اس کی پیروی کرتا ہے۔ پچھلے تین سال میں ایسے 15 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔''
رانا حفیظ کہتے ہیں کہ قانونی طور پر جنگلات کے اطراف آٹھ کلومیٹر کے دائرے میں کوئی آرا مشین نہیں لگ سکتی۔ ان کے محکمے نے ایسی کئی مشینیں ختم کروائی ہیں تاہم چک 11، 13 اور 50 عباسیہ میں طویل عرصہ سے لگی آرا مشینوں کو ختم کرانے میں بااثر لوگ رکاوٹ ہیں۔
مقبول کا کہنا ہے کہ ٹمبر مافیا اور کرپٹ اہلکاروں کا گٹھ جوڑ اس قدار طاقتور ہے کہ اگر کوئی فرض شناس آفیسر یا اہلکار لکڑی چوری روکنے کے لئے کارروائی کرنا چاہے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال فاریسٹ گارڈ اسلم نے لکڑی چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو انہوں نے اس پر وحشیانہ تشدد کیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ تبسم شہید میں درج ہوئی جس کے نامزد ملزم ضمانت پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
لیہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی: 'جہاں کبھی گھنے درخت تھے وہاں اب دھول اُڑتی ہے'۔
ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر راجہ جاوید اقبال لکڑی چوری ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوری مکمل طور پر نہیں رک سکی لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ محکمے نے اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔
لیاقت پور سرکل کے سب ڈویژنل پولیس آفیسر اللہ یار سیفی لکڑی چوری عام ہونے کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ قوانین کے تحت اس جرم کی سزا اتنی سخت نہیں ہے کہ لوگ اس سے باز آ جائیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ جنگل سے غیرقانونی طور پر لکڑی چوری کرنے کے خلاف سخت قوانین متعارف کرائے جانے چاہئیں۔
لیاقت پور بار ایسوسی ایشن لیاقت پور کے سابق جنرل سیکرٹری صلاح الدین موہل بتاتے ہیں کہ لکڑی چوری کے بیشتر ملزم گرفتار ہی نہیں ہوتے اور عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر کے اس کی کنفرمیشن کروا لیتے ہیں۔ اس جرم کی سزا تین سال قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ لیکن عام طور پر عدالتیں قید کے بجائے ملزموں کو جرمانے کی سزا سناتی ہیں جو چند ہزار روپے ہی ہوتا ہے جسے ادا کرکے ملزم دوبارہ لکڑی چوری کرنے لگ جاتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 29 مارچ 2023