05-2004ء میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 42 لاکھ گانٹھوں سے کچھ زائد تھی۔ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) کے مطابق یہ کم ہوتے ہوتے گذشتہ سال 37 لاکھ گانٹھیں پر آ گئی تھی۔
یہ پاکستان میں کپاس کی پچھلے 40 سالوں کی سب سے کم پیداوار تھی۔
ہم یہاں کیسے پہنچے؟
چودھری سدی محمدنے 10 سال پہلے کپاس کاشت کرنا ترک کر دیا تھا۔ وہ ضلع بھکر کے چک 19 کے رہنے والے ہیں۔ وہ ہر سال 15 ایکڑ پر کپاس کاشت کرتے تھے اور اچھے دنوں میں انہوں نے 35 من فی ایکڑ تک کی پیداوار حاصل کی تھی۔
دس سال پہلے جب انہوں نے آخری دفعہ کپاس کاشت کی تو حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ فصل پر پہلے سے کہیں زیادہ خرچ کرنے کے باوجود وہ بمشکل پانچ من فی ایکڑ ہی حاصل کر سکے تھے۔
وہ اس کا ذمہ دار محکمہ زراعت اور پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کو ٹھہراتے ہیں۔
"انہوں نے ایسے بیج مارکیٹ میں عام کر دیے ہیں جن میں بیماریوں اور حشرات کے خلاف قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے تین، چار سپرے کرنے پڑتے تھے لیکن پھر 10 سے 12 سپرے کرنے پر بھی کیڑوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا تھا"۔
انہوں ںے بتایا کہ کپاس کی زیادہ تر فصل پھول اور ٹینڈے بننے سے پہلے ہی ختم ہونا شروع ہو جاتی تھی۔
کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب کے اعداد و شمار سدی محمد کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ سروس کے مطابق ضلع بھکر میں 2011-12ء میں 61 ہزار ایکڑ پر کپاس بوئی گئی تھی لیکن پچھلے سال ضلع میں کپاس کا رقبہ محض آٹھ ہزار ایکڑ رہ گیا تھا۔ ان دس سالوں میں پیداوار بھی ساڑھے 83 ہزار گانٹھوں سے کم ہو کر ساڑھے 11 ہزار گانٹھوں پر آ گئی۔
اسی عرصے کے دوران پنجاب میں مجموعی طور پر بھی کپاس کی صورت حال بری ہی رہی۔ زیرِ کاشت رقبہ اور کل پیداوار دونوں نصف پر آ گئے لیکن ضلع بھکر میں یہ کمی اس سے بہت زیادہ یعنی آٹھ گنا کے قریب رہی۔
سخت موسم اور ہارے ہوئے بیج
احمد نواز صاحب کافی عرصہ سے محکمہ زراعت بھکر میں بطور فیلڈ اسسٹنٹ کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کپاس کی فصل کی موجودہ صورت حال کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ کسان کو اچھی کوالٹی کے بیج کی عدم دستیابی ہے۔
"جو بیج مہیا کیا جا رہا ہے اس میں قوت مدافعت بالکل نہیں ہے۔ کیڑا فصل کی جان ہی نہیں چھوڑتا۔ ہمارے ہاں کچے کے علاقے میں ویسے بھی نمی کی وجہ سے حشرات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ سرمائے کی کمی دوسری بڑی وجہ ہے۔
"بیشتر کسانوں کو بیج، کھاد وغیرہ آڑھتی اور ڈیلروں سے ادھار لینا پڑتا ہے۔ اس میں ان کی اپنی چوائس نہیں ہوتی۔ انہیں غیر معیاری مداخل بھی قبول کرنا پڑتے ہیں جس کا براہ راست اثر پیداوار پر پڑتا ہے۔ بیج مافیا بہت مضبوط ہے۔"
احمد نواز کسانوں کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
"کسان اگر وقت پر کپاس کی فصل میں گوڈی کرے گا تو زمین میں نمی کا تناسب برقرار رہے گا اور پانی دیر سے لگانے سے فصل اثرانداز نہیں ہو گی لیکن وہ گوڈی کرنے کی بجائے پانی لگا دیتا ہے جس کی وجہ سے جڑی بوٹیوں میں اضافہ ہوتا ہے جو حشرات کے لیے میزبان پودوں کا کردار ادا کرتی ہیں"۔
انہوں نے بتا یا کہ کپاس ترک کرنے والے کسان مونگ اور مکئی وغیرہ کاشت کر رہے ہیں۔
کیا کپاس کی واپسی ممکن ہے؟
احمد نواز کہتے ہیں کہ اس سال حالات قدرے بہتر نظر آ رہے ہیں۔ "کچھ کسان کپاس کی طرف دوبارہ مائل ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی بیج پر ایک ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی دے رکھی ہے۔ اچھی فصل پر انعام کی رقم بھی بڑھائی گئی ہے۔"
محمد عاقب ایسے ہی کسانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ چار سال بعد تین ایکڑ پر اچھی امید کے ساتھ دوبارہ کپاس لگا رہے ہیں۔ انہیں اب تک موسم بھی بہتر لگ رہا ہے۔
عاقب ضلع بھکر کے چک 40 ٹی ڈی اے کے رہائشی ہیں اور اپنے والد کے ساتھ کاشتکاری میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ حشرات کا مسئلہ تو تھا ہی لیکن موسم کی شدت بھی اتنی بڑھ گئی تھی کہ فصل اس سے جل جاتی تھی۔
"سپرے کا خرچ حد سے زیادہ ہو گیا تھا اور آمدن کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ 2015ء تک ان کی پیداوار 35، 36 من فی ایکڑ تک تھی لیکن پھر کم ہوتے ہوتے 2018ء تک تین سے پانچ من فی ایکڑ تک آگئی تھی"۔
عاقب نے بتایا ہے کہ دوبارہ کپاس لگانے کی تین وجوہات ہیں، پہلی تو یہ کہ کاٹن کا ریٹ آج کل بہت اچھا ہے۔ انہیں امید ہے کہ خرثہ زیادہ ہونے کے باوجود یہ فصل انہیں کچھ منافع دے جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سال بوائی کے وقت انہیں موسم سازگار لگ رہا ہے جس سے جرمینیشن اچھی ہونے کی امید ہے اور تیسرا یہ کہ پہلے انہیں سفید مکھی کو کنٹرول کرنے کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا لیکن اب انہیں کچھ پیسٹی سائیڈز کا پتہ چلا ہے جس سے ان کے خیال میں یہ کچھ حد تک کنٹرول ہو جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس بار کپاس کی پیداوار اچھی رہی تو مستقبل میں بھی اسے جاری رکھیں گے ورنہ وہ پھر سے مونگ کاشت کرنے لگیں گے۔
پاکستان کی اپنی کاٹن انڈسٹری کو سالانہ سوا سے ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گذشتہ برس کپاس کی مقامی پیداوار اس کے ایک تہائی کے برابر تھی گویا انڈسٹری کو اپنی ضرورت کا دو تہائی باہر سے منگوانا پڑی تھی۔
پاکستان میں کاٹن کی قیمت 2021-22ء تک ساڑھے چار ہزار روپے فی من تھی امسال اس سے دو گنی سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
اچھا بیج کہاں سے آئے گا؟
ڈاکٹر محمد سعید سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان (سی سی آر آئی) کے چیف سائینٹسٹ ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ناقص بیجوں کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ سیڈ ترمیم ایکٹ 2015ء پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔
"سیڈ ترمیم ایکٹ 2015ء کے مطابق سیڈ ڈیلر یا سیڈ کمپنیاں کسی ایسے بیج کو فروخت نہیں کر سکتیں جو فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (ایف ایس آر ڈی) سے رجسٹرڈ نہ ہو۔
مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مختلف سیڈ ڈیلر اور کمپنیاں ناقص بیج کو رجسٹرڈ ورائیٹی کا نام اور پیکنگ دے کر فروخت کر رہی ہیں۔"
"ہمارا ادارہ براہ راست کسانوں کو بیج نہیں دے سکتا، ہمیں اس کی اجازت نہیں، کسان نے ڈیلر سے ہی بیج خریدنا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
کپاس کی پیداوار کیوں گر رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد سعید بتاتے ہیں کہ کپاس کی پیداوار میں کمی کے دیگر عوامل بھی ہیں ہیں۔"پچھلے سال بے وقت بارشوں نے فصل کو بہت نقصان پہنچایا۔موسمیاتی تبدیلیوں سے کپاس کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔"
"ہمارے پاس جدید لیب اور سسٹم نہیں ہے جس کی مدد سے ہم جنیٹکلی نیا بیج تیار کر سکیں جو موسم اور بیماریوں کے لحاظ سے قوت مدافعت رکھتا ہو۔ ہم صرف کراس بریڈنگ کی سہولت رکھتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک سفید مکھی کے مسئلے سے دوچار نہیں ہے اس کے تدارک کے لیے ہمیں بہتر دوا تیار کرنا ہو گی۔
"ہمارا ادارہ اس وقت کپاس کے بیج کی ایسی ورائیٹیاں بنا چکا ہے جس سے چتکبری، امیریکن، گلابی اور لشکری سنڈی کا حملہ کم ہو گیا ہے۔ہم جنگلی کپاس کے ساتھ کراسنگ سے نئی ورائیٹی پر کام کر رہے ہیں جس سے امید ہے سفید مکھی کا حملہ بھی 50 فیصد تک کم ہو جائے گا بشرطیکہ یہ بیج ہر کسان تک پہنچ سکے"۔
تاریخ اشاعت 27 مئی 2023