فرحان علی قاضی ضلع ٹھٹہ کے دیہی علاقے کے رہائشی ہیں جو مہران یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں داخلے کے لیے انٹرویو دینے آئے ہیں۔ وہ اپنے والد کے ساتھ جامعہ کے آڈیٹوریم میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے تعلیمی سال 26-2025ء میں سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں داخلے کے لیے منعقدہ ٹیسٹ دیا تھا جس میں 63 فیصد نمبر حاصل کیے۔ جامشورو یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس میں ضلع ٹھٹہ کے دیہی امیدواروں کے لیے سافٹ ویئر اور سول انجنیئرنگ کی تین، تین نشستیں مختص ہیں۔
فرحان علی کا اپنے ضلعے کے حساب سے میرٹ پر پہلا نمبر ہے اس لیے انہیں توقع ہے کہ ان کا سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں داخلہ ہو جائے گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ٹھٹہ میں پہلے انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لیا تھا۔ تاہم اگلے ہی سال والدین و ساتھی طالب علموں کے مشورے پر بائیولوجی کو خیرباد کہہ کر ریاضی کی کلاس میں چلے گئے اور پری انجنیئرنگ گروپ میں اچھے نمبروں سے انٹرمیڈیٹ مکمل کر لی۔
ان کے بقول اگر انہیں ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ملتا تو میڈیکل گروپ میں کوئی سکوپ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ "ویسے بھی اب کمپیوٹر کا دور ہے"۔
سانگھڑ کی تحصیل شہدادپور کے رہائشی فرمان علی زرداری کی بھی ایک ہی چوائس ہے: سافٹ وئیر انجینیئرنگ۔ انہوں نے مسلم کالج حیدرآباد سے پری انجنیئرنگ گروپ میں انٹرمیڈیٹ کیا اور مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں 85 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔
بظاہر انہیں اپنی پسند کے شعبے میں داخلہ ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ تاہم وہ انجینیئرنگ کے کسی بھی اور شعبے میں داخلہ لینے پر تیار نظر نہیں آتے۔

کمپیوٹر کا عروج، انجینیئرنگ کے روایتی شعبوں کا زوال ثابت ہو رہا ہے
نوجوان فرمان علی کا ماننا ہے کہ سافٹ ویئر انجینیئرنگ کے میدان میں ایجادات اور تخلیقی کام کرنے کے بہت زیادہ مواقعے ہیں۔
"نئے زمانے میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انجینیئرنگ سے ہم ناصرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر روزگار کما سکتے ہیں بلکہ اس سے بہت سے مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ میں اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی تکالیف دور کرنا چاہتا ہوں۔"
کمپیوٹر میں نوجوانوں کی دلچسپی کے باعث انجینئرنگ کے روایتی شعبوں میں داخلوں کی شرح خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔
یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے پروفیسر افتخار احمد اور ان کے بیٹے عمر احمد نور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) اسلام آباد میں سول انجنیئرنگ کے ریسرچ سکالر ہیں۔ دونوں کا پاکستان میں انجنیئرنگ کی تعلیم کو درپیش بے مثال (Unprecedented) چیلنجز کے عنوان سے پچھلے سال تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں انجنیئرنگ و ٹیکنالوجی کے روایتی شعبہ جات میں داخلوں کا تیزی سے کم ہورہا ہے۔یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں داخلے کے خواہشمند امیدواروں میں سات سال کے دوران 71 فیصد کمی آئی ہے۔
اسی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے 2017ء میں 16 ہزار سے زائد امیدواروں نے امتحان دیا تھا لیکن 2023ء کے داخلہ ٹیسٹ میں صرف چار ہزار 579 امیدوار شریک ہوئے۔
مقالہ نگار کہتے ہیں کہ پاکستان میں انجینئرنگ کے طالب علموں کی تعداد اچانک کم نہیں ہوئی۔ کالجز کی سطح پر پری انجینئرنگ میں طلباء کے داخلوں میں نمایاں کمی ہوئی جس کے براہ راست اثرات انجینیئرنگ کے باقی شعبوں پر پڑے ہیں۔
اس ممکنہ وجوہات انجینئرز کی طلب میں کمی، انجینئرنگ کے تعلیمی معیار کا گرنا یا ملک میں انجینئرنگ و صنعتی شعبے کی سست رفتاری ہو سکتی ہیں۔

' سب کچھ تو ہم باہر سے منگواتے ہیں، ہمارے پاس کونسی انڈسٹری ہے جو انجنیئرز کو روزگار دے سکے؟'
سابق وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی کراچی ڈاکٹر سروش حشمت لودھی اب پاکستان انجینئرنگ کونسل کے سینئر وائس چیئرمین اور سندھ کی جامعات کی چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیویشن کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔
وہ انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے روایتی شعبوں میں داخلے کم ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انجنئیرنگ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا بہت برا حال ہے۔ اب سندھ میں بھی یہی رحجان نظر آ رہا ہے۔
پاکستان انجنیئرنگ کونسل (پی ای سی)کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں رجسٹرڈ انجنیئرز کی تعداد تین لاکھ 94 ہزار 548 ہے جن میں پنجاب کے ایک لاکھ 81ہزار 621، سندھ کے ایک لاکھ 21 ہزار 121، خیبرپختونخواہ کے 62 ہزار941، بلوچستان کے 11 ہزار 473، وفاقی علاقے کے پانچ ہزار 455، آزاد کشمیر کے آٹھ ہزار 806 اور گلگت بلتستان کے دو ہزار 478 انجینیئرز شامل ہیں۔
روایتی شعبوں میں انجینیئرز کے لیے ملک میں روزگار کے مواقع ہی نہیں رہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کہ انجنیئرنگ کی ماں کہلانے والے سول، الیکٹریکل، مکینیکل اور پیٹرولیم جیسے ڈیپارٹمنٹس میں بھی داخلے کم ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ طالب علم کسی شعبے میں داخلہ یہ سوچ کر لیتے ہیں کہ ان کے لیے روزگار کے مواقع کتنے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کمپیوٹر اور سافٹ ویئر سے منسلک شعبوں کے سوا انجینیئرنگ کے تمام شعبوں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
"ہم سب کچھ باہر سے منگواتے ہیں۔ مینوفیکچرنگ انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے جو صنعتیں ہیں وہ ٹیکسز اور بھاری اخراجات کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ یہاں تیارکردہ اشیا کے مقابلے میں کہیں سستی چین مصنوعات دستیاب ہیں۔
ہمارے پاس ایسا کیا بن رہا ہے جو انجنیئرز ان کارخانوں میں کام کریں گے اور انہیں روزگار ملے گا؟"

آئی ٹی انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے بس ایک لیپ ٹاپ چاہیے اور انٹرنیٹ کنکشن
ہائرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 22-2021ء میں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ داخلے آرٹس اینڈ ہیومنٹیز ، نیچرل سائنسز اور ریاضی میں ہوئے جن کی تعداد سات لاکھ سے زائد رہی۔
دوسرے نمبر پر بزنس ایڈمنسٹریشن اور قانون کے شعبے تھے جن میں چار لاکھ سے زائد طلبا و طالبات نے ایڈمشن لیا۔
انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں صرف چھ فیصد یعنی ایک لاکھ 66 ہزار طلباء نے داخلے لیے جبکہ کمپیوٹر سے منسلک شعبوں کا کل داخلوں میں حصہ 10 فیصد تھا جو تقریباً دولاکھ 77 ہزار تھی اور آرٹیفشل انٹیلجنس ان میں بھی سرفہرست پایا گیا۔
عمر احمد کے مطابق پچھلے تین چار سال میں پاکستان میں کمپیوٹر، آرٹیفشل انٹیلیجنس، سافٹ ویئر اور ڈیٹا سائنس کی تعلیم کا رجحان بڑھا ہے۔ تحقیق کے دوران جن میں فیڈرل بورڈ، لاہور، گجرانوالا، بہاولپور ، فیصل آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان بورڈ سمیت چھ تعلیمی بورڈز کے انٹر امتحانات کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔
پچھلے دس سال کے دوران پری انجنیئرنگ گروپ کے طلبا و طالبات کی تعداد کم ہو رہی ہے جس کے اثرات فزکس، ریاضی، کمپیوٹر سائنس، الیکٹرانکس، آرکیٹیکچر، سپیس سائنسز و دیگر شعبوں پر پڑ رہے ہیں۔

مذکورہ شعبہ جات میں داخلے کے لیے پری انجنیئرنگ گروپ میں انٹر ہونا بنیادی شرط ہے۔ جب کالجز میں ہی کم بچے اس گروپ کا انتخاب کر رہے ہیں تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان شعبوں کے لیے سٹوڈنٹس کہاں سے آئیں گے؟
ڈاکٹر سروش حشمت کا کہنا ہے کہ تین اور چھ ماہ کے کمپیوٹر کورسز کرنے والے بچے اب ماہانہ ایک ہزار ڈالر تک گھر بیٹھے کما رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کی ڈگریوں کی اہمیت اس لیے بڑھی کہ ان میں روزگار کے لیے کوئی کارخانہ لگانا پڑتا ہے نہ زیادہ پیسہ۔ صرف لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن چاہیے۔
"پاکستان انجینیئرنگ کونسل صرف ریگولیٹری باڈی ہے، پالیسیاں بنانا اور روز گار دینا حکومت کا کام ہے۔ ہمیں ادراک ہے کہ انجنیئرز کی تعداد کم ہو رہی ہے جس کا مستقبل میں ملک کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔"
تاریخ اشاعت 4 اگست 2025