صالح محمد رانجھا کو 7 ستمبر 2021 کی شام ایک فون آیا۔ دوسری طرف ان کے علاقے کا تھانیدار بول رہا تھا۔ اُس نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں ورنہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔
صالح محمد وسطی پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے گاؤں کھمب کلاں کے رہنے والے ایک درمیانے درجے کے کاشت کار ہیں اور پاکستان کسان بورڈ نامی تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس تنظیم نے 8 ستمبر کو گوجرانوالہ شہر میں ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن، ان کے مطابق، اس احتجاج سے ایک دن پہلے پولیس نے حافظ آباد، گوجرانوالہ اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع میں مختلف مقامات پر چھاپے مار کر 70 سے زائد کسان رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
ان کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا لیکن وہ اس سے پہلے ہی روپوش ہو چکے تھے۔
اگلے دن وہ گوجرانوالہ میں نمودار ہوئے جہاں درجنوں دیگر کسان بھی چھاپوں اور گرفتاریوں سے بچتے بچاتے پہنچ چکے تھے۔ لیکن جب ان کسانوں نے اپنے احتجاج کے طے شدہ مقام کی طرف بڑھنا شروع کیا تو پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے ان کا راستہ روک لیا۔ اس سے دونوں فریقوں میں تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
اس تصادم کو روکنے کے لیے گوجرانوالہ کے اعلیٰ سطحی ڈویژنل اہل کاروں نے صالح محمد اور ان کے ساتھیوں سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ 19 ستمبر تک صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے نمائندوں سے ان کی ملاقات کا بندو بست کیا جائے گا۔
صالح محمد کہتے ہیں کہ کسانوں کے احتجاج کا ایک اہم مقصد پچھلے کچھ عرصے میں ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانا تھا۔ ان کے مطابق اس کھاد کی 50 کلوگرام کی بوری کی قیمت ایک سال میں چار ہزار روپے سے بڑھ کر ساڑھے چھ ہزار روپے ہو چکی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے اس اضافے کی وجہ سے بہت سے کسانوں کے لیے اپنی فصلوں میں اس کھاد کا استعمال بہت مشکل ہو گیا ہے۔
دیگر کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صرف گوجرانوالہ ڈویژن میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے کسان ڈی اے پی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے پریشان ہیں اور ملک کے ہر علاقے میں کسان تنظیمیں اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔
آل پاکستان کسان اتحاد نامی تنظیم کے ایک دھڑے کے سربراہ خالد محمود کھوکھر نے اس مسئلے کے حل کے لیے ستمبر کے دوسرے ہفتے میں وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھاد کی قیمتوں میں کمی کے ان کے مطالبے کے جواب میں عمران خان نے ایک کمیٹی بنا دی ہے جو حکومت کو مشورہ دے گی کہ اس کی قیمتوں کو نیچے کیسے لایا جائے۔
مقامی قیمت پر عالمی منڈی کے اثرات
پاکستان کے کسان ہر سال اوسطاً 24 لاکھ ٹن ڈی اے پی اپنے کھیتوں میں ڈالتے ہیں۔ اس میں سے سات لاکھ ٹن کھاد کراچی میں واقع فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ نامی کمپنی کے کارخانے میں بنائی جاتی ہے جبکہ باقی چین، آسٹریلیا اور سعودی عرب سے منگوائی جاتی ہے۔
پاکستان میں ڈی اے پی وہی کمپنیاں درآمد کرتی ہیں جو کھادیں بناتی ہیں۔ یہ کمپنیاں اسے درآمد کرنے کے بعد مقامی سطح پر 50 کلوگرام کی بوریوں میں بھر کر اپنے اپنے برانڈ کے تحت فروخت کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک فوجی فرٹیلائزر کمپنی ہے جس کے ایک سینئر اہل کار شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ ڈی اے پی کی مقامی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیشتر ملکوں میں اسے تیار کرنے والے کارخانے کورونا وبا کے باعث یا تو بند ہو گئے ہیں یا ان کی پیدوار میں کمی آ گئی ہے۔ اس لیے، ان کے مطابق، "بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کھاد کی قیمت پچھلے ڈیڑھ سال میں تقریبا ڈھائی گنا بڑھ گئی ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ قیمت 2020 کے آغاز میں ڈھائی سو ڈالر فی ٹن تھی لیکن جیسے ہی کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پہلا لاک ڈاؤن لگایا گیا تو اس میں اضافہ شروع ہو گیا اور اب یہ سات ہزار ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
لیکن کسان اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں جس طرح چینی بنانے والی کمپنیاں چینی کی قیمت میں بلا جواز اضافہ کر رہی ہیں اسی طرح کھاد بنانے والی کمپنیاں بھی ڈی اے پی کی قیمت میں اپنی مرضی سے اضافہ کر کے بھاری منافع کما رہی ہیں۔
کھاد کی پیداوار اور فروخت کی نگرانی کرانے والے حکومتی ادارے، نیشنل فرٹیلائزر ڈیولمپنٹ سینٹر، کے ایک اہل کار کا بھی کہنا ہے کہ عالمی قیمتوں کو بنیاد بنا کر مقامی قیمتیں بڑھانا بلاجواز ہے کیونکہ کھاد کے بین الاقوامی سودے درآمد کنندہ ملک میں اس کے پہنچنے سے کم از کم ایک سال پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اِس سال فروری-مارچ کے مہینوں میں پاکستان پہنچنے والی ڈی اے پی دراصل ایک سال پہلے اِنہی مہینوں میں خریدی گئی تھی۔ اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت اس کی عالمی قیمت ابھی بڑھنا شروع نہیں ہوئی تھی اس لیے، ان کے مطابق، 2021 کے پہلے چھ مہینوں میں پاکستان میں بیچے جانے والی ڈی اے پی کی قیمت میں اضافے کا عالمی منڈیوں میں اس کی قیمت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
کھاد کی قیمت کو کیسے نیچے لایا جا سکتا ہے؟
ڈی اے پی کا بنیادی جزو فاسفورس ہے جو فاسفیٹ کی چٹانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ چٹانیں شمالی افریقہ کے ملک مراکش میں کثرت سے پائی جاتی ہیں جہاں کی ایک سرکاری کمپنی، آفیسی شریفین ڈی فاسفیٹ، اس وقت فاسفیٹ کے معلوم عالمی ذخائر کے 70 فیصد حصے کو استعمال کرنے کا قانونی حق رکھتی ہے۔ اس کمپنی کے ساتھ افواجِ پاکستان کے ملازمین کی فلاح کے لیے قائم کیے گئے ادارے فوجی فاؤنڈیشن نے ایک کاروباری اشتراک کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ایک کمپنی، پاکستان مراک فاسفور، وجود میں آئی ہے جس کا مقصد فاسفورس، ڈی اے پی کھاد اور دوسری متعلقہ مصنوعات تیار کرنا ہے۔
پاکستان مراک فاسفور میں فوجی فاؤنڈیشن 12.5 فیصد حصے کی مالک ہے جبکہ اس کی دو ذیلی کمپنیاں، فوجی فرٹیلائزر کمپنی اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ، اس میں بالترتیب 12.5 فیصد اور 25 فیصد کی حصہ دار ہیں۔ باقی پچاس فیصد حصوں کی مالک آفیسی شریفین ڈی فاسفیٹ ہے۔
پاکستان مراک فاسفور سالانہ تین لاکھ 75 ہزار ٹن صنعتی فاسفورس پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا بیشتر حصہ فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ کے پاس آجاتا ہے جو اس سے ڈی اے پی کھاد تیار کرتی ہے جبکہ باقی کا فاسفورس عالمی منڈی میں بیچ دیا جاتا ہے۔
نیشنل فرٹیلائزر ڈیولمپنٹ سینٹر کے اہل کار کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے "حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ فاسفورس درآمد کرنے کی بجائے مراکش میں ہی اس سے کھاد بنائے اور پھر تیار شدہ ڈی اے پی کو پاکستان میں درآمد کرے کیونکہ اس طرح اس کی تیاری کی لاگت کم ہو جاتی ہے"۔
ان کے مطابق انڈیا کی کچھ کمپنیاں ایسا ہی کر رہی ہیں یعنی وہ مراکش میں فاسفورس خریدتی ہیں اور وہیں ڈی اے پی تیار کر کے اپنے ملک میں لے آتی ہیں اور پھر اسے نسبتاً سستے داموں مقامی کسانوں کو فراہم کرتی ہیں۔
انڈین پنجاب کے ضلع موگہ کے رہائشی کسان ہرمیندر سنگھ سوڈھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انڈیا میں ڈی اے پی کی قیمت پاکستان سے کہیں کم ہے۔ان کے مطابق ان کے ملک میں ڈی اے پی کی 50 کلوگرام کی بوری کی قیمت 12 سو انڈین روپے ہے (جو 27 سو پچاس پاکستانی روپوں کے برابر ہے)۔
کھاد کی قیمت کو اس سطح پر برقرار رکھنے کے لیے انڈین حکومت نے حال ہی میں کچھ اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان پر روشنی ڈالتے ہوئے 19 مئی 2021 کو انڈین اخبار بزنس سٹینڈرڈ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ عالمی منڈی میں فاسفیٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انڈیا میں بھی کھاد بنانے والی کمپنیاں ڈی اے پی کے نرخ 12 سو انڈین روپے سے بڑھا کر 17 سو انڈین روپے کرنا چاہتی تھیں لیکن حکومت نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا بلکہ کھاد کی قیمت پر دی جانے والی حکومتی امداد سات سو انڈین روپے فی بوری سے بڑھا کر 12 سو انڈین روپے فی بوری کر دی تاکہ کسانوں کو یہ کھاد سابقہ قیمت پر ہی ملتی رہے۔
لیکن اگر کسانوں کو یہ حکومتی امداد نہ بھی ملے تو انڈیا میں ڈی اے پی کی ایک بوری کی کل قیمت 55 سو پاکستانی روپے بنتی ہے جو پاکستان میں اس کی قیمت سے ایک ہزار روپے کم ہے۔
کھاد کمپنیوں کا منافع کیسے بڑھ رہا ہے
نیشنل فرٹیلائزر ڈیولپمنٹ سینٹر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ڈی اے پی کی قیمت میں اضافے سے اس کے استعمال میں کمی آرہی ہے۔ اس ادارے کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق رواں سال اپریل سے جولائی تک جاری رہنے والے خریف کے موسم میں تمام کھادوں کا استعمال 2020 کے انہی مہینوں کی نسبت 8.2 فیصد کم رہا لیکن اسی عرصے میں ڈی اے پی کے استعمال میں 24.7 فیصد کمی ہوئی۔
زراعت سے وابستہ کئی لوگ اس صورتِ حال کی وجہ سے تشویش کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ "پاکستان کی بیشتر زرعی زمینوں میں فاسفورس کی مقدار ضرورت سے 90 فیصد کم ہے جسے بہتر بنانے کا واحد ذریعہ ڈی اے پی ہے۔ اگر ان علاقوں میں ڈی اے پی کا استعمال نہ کیا گیا جہاں فاسفورس کی شدید کمی ہے تو وہاں فی ایکڑ پیداوار یقینناً کم ہو جائے گی"۔
آٹا بنانے والی مِلوں کی تنظیم پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا احمد کے خیال میں ڈی اے پی کے استعمال میں کمی کے نتیجے میں اگلے سال پاکستان میں گندم کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں اس فصل کی کاشت شروع ہونے میں صرف ڈیڑھ ماہ کا وقت رہ گیا ہے اس لیے "اگر حکومت نے فوری طور پر ڈی اے پی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو پھر کسان فصل کی کاشت کے وقت اس کا کم استعمال کریں گے جس سے گندم کی پیداوار متاثر ہوگی"۔
لیکن کھادوں کے استعمال میں اس کمی کی وجہ سے کھاد بنانے والی کمپنیاں بالکل فکر مند نہیں کیونکہ حیرت انگیز طور پر ان کے منافعے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف عالمی منڈیوں میں توانائی کے ذرائع اور زرعی اجناس کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے آرگس (Argus) نامی ایک برطانوی ادارے نے 6 اگست 2021 کو شائع کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کیا ہے۔
اس ادارے کے مطابق پاکستان کی تین بڑی کھاد کمپنیوں، اینگرو فرٹیلائزر کمپنی، فوجی فرٹیلائزر کمپنی اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ، نے 2021 کی پہلی ششماہی (جنوری سے جون) میں 2020 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں کافی کم ڈی اے پی فروخت کی لیکن اس دوران انہوں نے کہیں زیادہ منافع کمایا۔ ان میں سے فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ کا منافع پچھلے سال کی نسبت تقریباً دگنا ہو گیا۔ جبکہ اینگرو کے منافعے میں اسی دوران 53 فیصد اضافہ ہوا۔
شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ کمپنیوں کے منافعے میں اضافے کی وجہ کھاد کی قیمتیں نہیں بلکہ کورونا وبا کی وجہ سے ان کے اخراجات میں آنے والی کمی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے انتظامی سٹاف کی تعداد کم کر دی ہے، ان کے ملازمین کے تربیتی کورس نہیں ہو رہے اور نہ ہی بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کے سفر اور قیام و طعام پر اٹھنے والے اخراجات بہت کم رہ گئے ہیں۔
لیکن آرگس کی رائے اس سے مختلف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس امر کی صرف ایک ہی وضاحت پیش کی جا سکتی ہے جو یہ ہے کہ یہ کمپنیاں پہلے کی نسبت کم کھاد پہلے کی نسبت کہیں زیادہ قیمت پر فروخت کر رہی ہیں۔ یوں ایک طرف ان کے پیداواری اخراجات میں کمی آئی ہے تو دوسری طرف ان کی آمدنی اور منافع دونوں بڑھ گئے ہیں۔
تاریخ اشاعت 18 ستمبر 2021