دابلو قبیلے کے ماہی گیر سندھ کے زیریں ضلع ٹھٹھہ کے علاقے کیٹی بندر میں رہتے تھے لیکن کچھ دہائیاں پہلے سمندر کا کھارا پانی ان کی زمینوں اور بستیوں میں گھس کر انہیں نا قابلِ رہائش بنانے لگا تو انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے بارے میں سوچنا پڑا۔
ان میں سے ایک ماہی گیر علی حسن کے بقول نئی جگہ کے انتخاب کے دوران ان کے پیشِ نظر دو ہی باتیں تھیں، ایک یہ کہ وہ وہاں آسانی سے مچھلیاں پکڑ سکیں اور دوسری یہ کہ انہیں اپنا نیا گھر جلدی نہ چھوڑنا پڑے۔ اس لئے انہوں نے کراچی کے ساحل کے ساتھ واقع دو سمندری جزیروں – بھنڈار اور ڈنگی -- کا انتخاب کیا جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے انتہائی مغربی حصے – فیز آٹھ – سے لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر مغرب میں سمندر کے اندر واقع ہیں اور باقی شہر سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔
علی حسن اور ان کا قبیلہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہا ہے۔
لیکن اب انہیں ایک بار پھر نقل مکانی کا سامنا ہے کیونکہ صدرِ پاکستان عارف علوی کی طرف سے یکم ستمبر 2020 کو ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی سرحدوں کے اندر واقع تمام سمندری جزیروں پر رہائشی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا وفاقی ادارہ بنایا جائے گا جس کے اولین منصوبوں میں بھنڈار اور ڈنگی – جنہیں سرکاری کاغذات میں بُنڈل اور بُڈو کہتے ہیں -- میں پرُ آسائش رہائشی سکیموں اور اونچی اونچی تجارتی عمارات کی تعمیر شامل ہے۔
علی حسن کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کر کے ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقِ ملکیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ جزیرے اور ان سے ملحقہ تمر (mangrove) کے جنگلات قانونی طور پر ہماری ملکیت ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے کاغذات ہمارے پاس موجود ہیں'۔
خطرات اور خدشات
محمد علی شاہ پچھلی کئی سالوں سے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کراچی کے جنوب مغرب میں واقع جزائر، جن میں بھنڈار اور ڈنگی بھی شامل ہیں، آٹھ لاکھ کے قریب ماہی گیروں کے لیے روزگار اور رہائش کا ذریعہ ہیں۔ 'اگر یہاں شہر تعمیر کر دیے جاتے ہیں تو بہت بڑی تعداد میں ماہی گیروں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے'۔
محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار ہزار کے قریب مزید ماہی گیر جو کراچی اور ٹھٹھہ سے منسلک ساحل پر رہتے ہیں مختلف ندیوں کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو انہی جزیروں کے پاس سے گذرتی ہیں اور جن میں سب سے بڑی ملیر ندی ہے۔ 'لیکن صدارتی آرڈیننس کے تحت جب بھنڈار اور ڈنگی کو شہر کے باقی حصوں سے ملا دیا جائے گا تو ماہی گیروں کی یہ رسائی ختم ہو جائے گی جس کے باعث ان کا روزگار شدید طور پر متاثر ہو گا'۔
ماہرہ عمر کو ماہی گیروں کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آبی اور جنگلی حیات کو لاحق ہونے والے سنگین خطرات کی بھی فکر ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر دستاویزی فلمیں بناتی ہیں اور انہوں نے کراچی اور اس کے ارد گرد موجود تمر کے جنگلات پر کئی سال تحقیق بھی کی ہے- ان کا کہنا ہے کہ بھنڈار، ڈنگی اور اس طرح کے دوسرے جزائر 'کے ایک ایک انچ پر قسم قسم کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جو یہاں موجود قدرتی ماحول میں افزائش پاتی ہے'۔ اس لئے وہ سمجھتی ہیں کہ 'ان جزائر پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز یہاں موجود آبی اور قدرتی حیات کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گا'۔
بھنڈار اور ڈنگی کے بارے میں ماہرہ عمر کا خاص طور پر کہنا ہے کہ ان جزائر پر پختہ زمین نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا بیشتر حصہ کیچڑ اور گیلی مٹی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ دریاؤں کی لائی ہوئی سِلٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ 'یہ کیچڑ اور دلدلی زمین گھونگوں اور کیچڑ میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کی قدرتی نشوونما کے لیے لازم ہیں۔ شہری بستیوں کی تعمیر سے اس تمام آبی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا'۔
ماحولیاتی امور کے ایک اور ماہر نصیر میمن کا خیال ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی پر رہائشی اور تجارتی عمارات کی تعمیر پورے کراچی کے لئے ایک ماحولیاتی خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی ان جزائر پر لاکھوں ایکڑ پر تمر کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کا رقبہ سکڑ کر ستر ہزار ایکڑ تک رہ گیا ہے۔ 'اگر یہاں سے مزید جنگلات ختم کیے گئے تو مستقبل میں کراچی کو خطرناک سونامیوں کا سامنا ہو سکتا ہے'۔
کراچی کے مشہور سماجی محقق اور ماہرِ تعمیرات عارف حسن بھی معاشی اور ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر اِن جزیروں پر شہری آبادیاں بسانے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت یہاں تعمیرات کی اجازت دینا دراصل رامسار کنوینشن (Ramsar Convention) کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔
یہ بین الاقوامی کنوینشن 1971 میں ایران کے شہر رامسار میں منظور کیا گیا اس کا مقصد دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نم زمینوں (wetlands) کو جنگلی اور آبی حیات کی پناہ گاہوں کے طور محفوظ کرنا ہے۔ جب پاکستان نے 23 نومبر 1976 کو اس کنوینشن کی توثیق کی تو 19 مقامی جگہوں کو اس کے تحت تحفظ مل گیا۔ ان جگہوں میں وہ تمام جزائر، ساحلی علاقے اور جھیلیں شامل ہیں جو دریائے سندھ اور دوسری ندیوں کے سمندر میں گرنے کی وجہ سے قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں۔ ان wetlands کا کل رقبہ 1،343،807 ہیکٹر ہے۔
عارف حسن کے مطابق ان جزائر پر شہری آبادی بنانا ایک طرف تو کراچی کے ماحولیاتی بگاڑ کو اور شدید کردے گا اور دوسری طرف یہ اقدام یہاں موجود پرندوں، کیکڑوں اور نایاب ہرے کھچووں کی قدرتی افزائش کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں: 'بھنڈار اور ڈنگی کے سبز جزائر کراچی کے گرد و نواح میں بچ جانے والے وہ واحد علاقے ہیں جہاں ابھی تک کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے شہر میں ماحولیاتی استحکام قائم رکھنے میں ان جزائر کا ایک اہم کردار ہے۔ ان پر پختہ تعمیرات کرنا کراچی کو مستقبل میں سنگین قدرتی آفات کے منہ میں دھکیل دے گا'۔
عارف حسن وزیرِ اعظم عمران خان کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی ہر تقریر میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے 'مگر خود آپ کے دور حکومت میں اس طرح کے آرڈیننس کا نفاذ ماحول دوستی کے خلاف ہے'۔
نئے جال، پرانے شکاری
محمد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی کے جزائر پر صدارتی آرڈیننس کے تحت شہر بنانے کی اجازت دینا آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے اور مضبوط مرکزی حکومت کی حامی قوتوں کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاقی کنٹرول کے تحت لانے کے وسیع عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔
ان کے بقول اس طرح کی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ 'اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی ایسا ہی ایک قدم اٹھایا تھا جب انہوں نے بھنڈار اور ڈنگی کو دبئی کی ایک نجی تعمیراتی کمپنی عمار کو بیچنے کی منظوری دی تھی'۔
اس وقت وفاقی حکومت نے ایک وفاقی ادارے، پورٹ قاسم اتھارٹی، کو عمار کے ساتھ دونوں جزیروں کی خرید و فروخت کا معاہدہ کرنے کا مکمل اختیار دیا تھا حالانکہ، محمد علی شاہ کے مطابق، اس ادارے کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ یہاں کی زمین کا مالک ہے۔
تاہم عمار اور پورٹ قاسم اتھارٹی میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان فشر فوک فورم، سندھی دانشور اور سیاستدان رسول بخش پالیجو کی تنظیم عوامی تحریک اور اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو پیچھا ہٹنا پڑا اور عمار کے ساتھ کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔
اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے وفاقی وزیر برائے بحری امورعلی زیدی کی بات پر یقین کر لیا جائے تو اب صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت خود ہی وفاقی حکومت کو ان دونوں جزیروں پر بستیاں تعمیر کرنے کی اجازت دی رہی ہے۔ چند روز پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ٹویٹس میں سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھیجے گئے ایک خط کی نقل شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ کی کابینہ نے چند ماہ پہلے ہونے والے ایک اجلاس میں ان جزائر کو وفاقی حکومت کے استعمال میں دینے کی منظوری دے دی تھی۔
تاہم سندھ حکومت نے بعد ازاں اس دعوے کی تردید کر دی اور کہا کہ اس کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ جزائر سندھ کی ملکیت ہیں اور وفاقی حکومت کو ان کے استعمال کی اجازت اس شرط پر دی گئی کہ وفاقی حکومت یک طرفہ طور پر اور صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر وہاں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ وہاں بسنے والے ماہی گیروں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
اس تنازعے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے کابینہ کے ایک تازہ ترین اجلاس میں اس خط میں دی گئی اجازت کی تنسیخ ہی کر دی ہے اور آئینی اور قانونی حوالے دے کر کہا ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی دونوں صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں جنہیں آئین میں تبدیلیاں کیے بغیر وفاقی حکومت کی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔
اس رپورٹ کی تیاری میں لاہور سے زاہد علی نے حصہ لیا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 9 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 12 فروری 2022