نہ ملزم نہ مجرم، پھر بھی جیل میں رہ کر "سزا" پوری کرنی ہے

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نہ ملزم نہ مجرم، پھر بھی جیل میں رہ کر "سزا" پوری کرنی ہے

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

سنٹرل جیل حیدر آباد کی حدود میں ایک حصہ عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ سحرش٭ ویمن جیل کہلانے والے اس حصے میں گزشتہ ایک سال سے ہیں۔ ان کا آٹھ سالہ بیٹا اور نو سالہ بیٹی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ سحرش کا کہنا ہے کہ ان کے بچے باہر غیر محفوظ ہوں گے اس لیے انھیں اپنے ساتھ جیل میں رکھا ہوا ہے۔

سحرش چرس برآمد ہونے کے جرم میں سات برس قید کی سزا  کاٹ رہی ہیں۔

ان کی بیٹی شمائلہ٭ جیل میں ایک کمرے پر مشتمل 'ارلی لرننگ سنٹر' کہلانے والے سکول میں دوسری جماعت کی طالبہ ہیں۔ وہ پڑھ لکھ کر میڈیکل ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ وقفے کے دوران وہ باغیچے میں فٹ بال بھی کھیلتی ہیں۔ پہلی جماعت میں پڑھے والے ان کے بیٹے کاشان٭ کو سنٹر کا فراہم کردہ یونیفارم پسند ہے۔ وہ بڑے ہو کر فوجی کمانڈو بننا چاہتے ہیں۔

گزشتہ چار برسوں سے قتل کیس میں قید انعم٭ کو تقریباً تین ماہ قبل جرم ثابت ہونے پر 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل آنے کے وقت ان کا بیٹا رضوان٭ بمشکل تین ماہ کا تھا۔

اب رضوان جیل میں پہلی جماعت میں پڑھتا ہے۔ وہ مادری زبان سندھی نہیں سیکھ پایا اور اردو میں بات چیت کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی آرزو ماں کے ساتھ جیل سے باہر جانے کی ہے۔

ڈاکٹر عرفانہ خان حیدر آباد میں عورتوں کی جیل میں چیف ویمن میڈیکل افسر کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ جیل میں کام کرتے ہوئے انھیں 15 سال ہو چکے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ملازمت کے دوران کم و بیش آٹھ بچے جیل میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ انڈر ٹرائل قیدی مائیں جب عدالت جانے کے لیے جیل سے باہر جاتی ہیں، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ جاتے ہیں مگر سزا یافتہ ماؤں کے بچے باہر نہیں جاتے۔

"ماؤں کے ساتھ جیل میں رہنے والے بچوں میں بعض نے آنکھ ہی جیل میں کھولی ہوتی ہے اور ان میں سے کچھ ماں کا دودھ پینے کی عمر میں جیل آتے ہیں۔ یہیں بڑے ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا سے ناواقف ہوتے ہیں۔"

ان کے مطابق ماؤں کے ساتھ جیل میں رہنے والے بچوں کی اصطلاحات بھی جیل والی ہوتی ہیں۔ بچے کھانے کو بھتا کہتے ہیں کیونکہ یہاں اسے یہی کہا جاتا ہے۔

"جیل میں رہنے والی عورتوں کی گفتگو، ان کی مایوسی اور غصہ ماؤں کے ساتھ موجود بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ جیل میں ہونے والی تقاریب یا فنکشنز کی تیاریوں میں عملے کے ساتھ قیدی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان تیاریوں کی خوشی سے ان دنوں میں ان کی ذہنی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی رہنما اور ماہر اطفال ڈاکٹر حبیبہ حسن گزشتہ 40 سالوں سے سنٹرل جیل کراچی میں عورتوں کے لیے مخصوص قید خانے میں جا رہی ہیں۔ انہوں نے 1995ء میں یہاں قید ماؤں کے ساتھ موجود بچوں کے لیے پہلا مونٹیسری سکول قائم کیا تھا۔

ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں"عموماً سمگلنگ کے الزامات پر قید غیر ملکی عورتیں ہمارے قائم کردہ سکول میں پڑھاتی تھیں۔ ہم انھیں پانچ سو روپے ماہانہ تنخواہ دیتے تھے۔ ان عورتوں کو اپنے اچھے سلوک کی وجہ سے جیل قانون کے مطابق سزا میں کمی کا بھی فائدہ ہوتا تھا۔"
ڈاکٹر حبیبہ نے بتایا کہ اس زمانے میں جیل میں رہنے والے اکثر بچوں نے چوہے اور بلی کے سوا کوئی جانور نہیں دیکھا ہوتا تھا۔

ان کے مطابق اس وقت کراچی اور حیدر آباد کی سنٹرل جیل میں عورتوں کے لیے مخصوص حصے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر ماحول ہے۔ وہاں بچوں کو پڑھانے کے لیے ارلی لرننگ سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ بچوں کی تفریح اور سوجھ بوجھ بڑھانے کے لیے 'سینسری گارڈن ' ہیں۔ انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے بھی میسر ہیں۔ لرننگ سنٹرز میں لیڈی ٹیچرز مقرر ہیں۔ وہاں پڑھایا جانے والا نصاب بھی خاص جیل میں رہنے والے ان بچوں کے ذہن اور حالات کو نظر میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔

"بچوں کے ہفتہ وار اور ماہانہ جائزے کے لیے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ بچوں کے لیے جیل میں چند جانور اور پرندے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ بچوں کو جیل انتظامیہ کبھی کبھار چڑیا گھر گھمانے بھی لے جاتی ہے۔"

لیگل ایڈ آفس کی جانب سے حکومتی اشتراک سے کراچی سنٹرل جیل میں پہلا ارلی لرننگ سنٹر 2015ء میں اور دوسرا حیدر آباد سنٹرل جیل کے اندر عورتوں کی جیل میں 2017ء میں قائم کیا گیا۔ ان سنٹرز کے لیے لیگل ایڈ آفس کو مخیر حضرات اور اداروں نے مالی مدد اور وسائل بھی فراہم کیے۔

ڈاکٹر حبیبہ کہتی ہیں "بچوں کی سب سے بڑی حسرت یہ ہوتی ہے کے وہ جیل سے باہر کی دنیا دیکھیں اور جلد اپنی ماؤں کے ساتھ باہر جائیں۔"

لیگل ایڈ آفس صوبہ سندھ میں 2004ء سے قیدیوں کی انصاف تک رسائی ممکن بنانے اور قانونی معاملات پر آگاہی دینے کا کام کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جناب جسٹس ناصر اسلم زاہد  اس کے سربراہ ہیں۔

فاطمہ عمر فاروقی لیگل ایڈ آفس کی کمیٹی فار دی ویمن پرزنر میں گزشتہ دو سالوں سے بطور پروگرام اینڈ ریسرچ کوآرڈینیٹر کام کر رہی ہیں۔ ان کا سندھ کے جیلوں میں اکثر آنا جانا رہتا ہے۔

ان کے مطابق بطور ملزم یا مجرم قید ماؤں کے ساتھ ان کے وہ بچے بھی جیلوں میں ہیں جن پر نہ کوئی الزام ہے، نہ وہ کسی جرم میں سزا یافتہ ہیں۔

"یہ وہ بچے ہیں جن کا ماؤں کے سوا کوئی سہارا نہیں یا ان کی مائیں سمجھتی ہیں کہ وہ جیل میں ان ہی کے ساتھ محفوظ ہیں۔ کراچی، حیدر آباد اور سکھر میں قائم سندھ کی تین بڑی جیلوں میں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ رہتے ہیں۔"

انہوں نے بتایا کے ان میں سے اکثر بچے دو چار کھیل ہی کھیلتے ہیں جیسے چور پولیس، جج وکیل وغیرہ۔ ان بچوں اور بچیوں میں سے کوئی خوشی میں بڑی دعا یہ کرتا ہے کہ "اللہ تمہیں جج بنائے۔"

فاطمہ نے بتایا کہ یہ بچے خاندانی رشتوں اور تعلقات سے نا آشنا  اور سماجی زندگی سے ناواقف ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ باہر نکلنے کی خوشی میں یہ بچے اکثر وقت سے پہلے سنٹر یا سکول کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کی بس یہی آرزو ہوتی ہے کہ نکلیں، کھیلیں اور مختلف ماحول میں رہیں۔

ڈاکٹر عرفانہ خان کے مطابق جیلوں میں قید حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے علاوہ پانچ سال تک کے بچوں کو روزانہ دودھ فراہم کیا جاتا ہے۔

سندھ کے محکمہ جیل خانہ سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق تین اکتوبر 2023ء تک صوبہ سندھ میں ماؤں کے ساتھ جیل میں رہنے والے بچوں کی تعداد 59 ہے جن میں 24 بچیاں اور 35 بچے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'غربت کی وجہ سے جیلوں میں قید سینکڑوں بچے بالغ ہونے سے پہلے ہی اپنا بچپن کھو بیٹھتے ہیں'۔

ماؤں کے ساتھ کراچی میں 40، حیدر آباد میں 14 اور سکھر جیل میں پانچ بچے ہیں۔ قید ماؤں کی کل تعداد 44 ہے، جن میں کراچی میں 30، حیدر آباد میں 11 اور سکھر میں تین مائیں قید ہیں۔

ان اعداد و شمار کے مطابق کم سے کم عمر کا بچہ دو ماہ کا ہے، اس کے بعد چار ماہ کی بچی ہے۔ یہ کراچی جیل میں اپنی ماؤں کے ساتھ ہیں۔ زیادہ عمر والوں میں سحرش کی بیٹی اور بیٹا شامل ہیں۔ کراچی جیل میں قیدی ماؤں میں افغانستان سے تعلق رکھنے والی دو ایسی مائیں بھی ہیں جن کے ساتھ آٹھ ماہ اور دو سال کے بچے ہیں۔

اقبال احمد ڈیتھو حکومت سندھ کے تحت کام کرنے والے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً 90 فیصد قیدی عورتوں کا ٹرائل چل رہا ہوتا ہے اور باقی سزا یافتہ ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق قیدی ماؤں کے بچے اپنی ماں کی تکالیف میں حصہ دار ہو جاتے ہیں۔

وہ اس کے ساتھ عدالت آتے جاتے ہیں اور مقدمے کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں "بچے کو کم سے کم چھ ماہ تک ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کو جیل میں اچھی خوراک اور پرائیویسی میسر ہونے ہی پر وہ اپنے بچے کی اچھی دیکھ بھال کر سکے گی۔"

وہ تجویز دیتے ہیں  کہ ایسی قیدی مائیں جو کسی بڑے جرم کی سزا یا الزام میں قید نہیں، انھیں زچگی یا دودھ پلانے کے لیے دو ماہ  کی پے رول پر رہائی کو آسان بنایا جائے۔

"قانون کے مطابق پے رول پر رہائی کے لیے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو اجلاس بلانا ہوتا ہے۔ یہ اجلاس صوبہ بھر میں ڈویژنل سطح پر کمشنر اور ڈی آئی جی کی سربراہی میں ہوتا ہے۔ اس سے عام قیدی عموماً مستفید نہیں ہو پاتے۔"

٭فرضی نام۔

تاریخ اشاعت 1 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.