پینتیس سالہ دیالو کولہی، ٹنڈو الہیار کی یونین کونسل جارکی کے کسان ہیں اور وہ 15 سال سے تحصیل چمبڑ کے زمیندار خادم حسین آریسر کی زمین بٹائی (نصف حصے) پر کاشت کر رہے ہیں۔ دیالو عام طور پر روایتی فصلیں گندم اور کپاس ہی اگاتے ہیں۔
وہ شکوہ کرتے ہیں کہ فصل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں لیکن جب فصل آتی ہے تو زمیندار اور ہاری دونوں کو کچھ نہیں بچتا۔ سخت موسم اور اس سال شدید گرمی کی وجہ سے پیداوار اچھی نہیں آ رہی پہلے جس رقبے سے 40 من فی ایکڑ پھٹی نکلتی تھی اب وہاں سے 20 من پیداوار بھی شاید ہی نکلے۔
"فصلوں کی بیماریاں زیادہ ہو گئی ہیں، پودوں کو بچانے کے لیے دس دس دوائیں ملا کر سپرے کرنا پڑتے ہیں۔ بیج، کھاد، پانی پورا کرنے کے لیے انجن کے ڈیزل تک ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے لیکن گندم کے بعد اب پھٹی بھی ہمیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنی پڑ رہی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ عورتیں بچوں سمیت ان کا پورا خاںدان دن رات فصل پر محنت کرتا ہے لیکن آخر میں دوا کے لیے پیسے بھی نہیں بچتے۔
"یوں لگتا ہے کہ جیسے آڑھتیوں اور کارخانہ داروں (جننگ فیکٹری مالک) کے گھر ہمارے خون پسینے سے چل رہے ہیں لیکن ہمارا کسی کو کوئی احساس نہیں۔ "
گلاب بھیل، سندھ ہاری کمیٹی ٹنڈو الہیار کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سندھ میں بڑے زمیندار زیادہ تر دہاڑی مزدوروں سے کام لیتے ہیں، درمیانے درجے کے زمینداروں کے پاس ہاری بٹائی پر کام کرتے ہیں۔ فصل کی پیداوار کم ہو یا ریٹ گر جائے، زمیندار تو کسی اور فصل سے کما لیتا ہے مگر ہاری رگڑا جاتا ہے۔
"بجٹ سے پہلے ہاری کو ایک من پھٹی میں سے ساڑھے چار ہزار روپے (آدھا حصہ) مل جاتے تھے لیکن جب سے قیمت نو ہزار سے ساڑھے چھ ہزار روپے من پر آ ئی ہے تو ہاری کا حصہ بھی سوا تین ہزار ہو گیا ہے۔ فصل کا جائز معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے کسان اور زمیندار سب پریشان ہیں۔"
کپاس کی کاشت کا جائزہ
پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پنجاب میں گزشتہ سال 40 لاکھ 77 ہزار 239 ایکڑ (1.65 ملین ہیکٹر) رقبے پر کپاس کا شت کی گئی تھی۔
رواں سال پنجاب میں کپاس کی کاشت کا ہدف 41 لاکھ 51 ہزار 370 ایکڑ (1.680 ملین ہیکٹر) مقرر کیا گیا تھا مگر 31 مئی تک تقریباً 31 لاکھ 63 ہزار ایکڑ(1.28 ملین ہیکٹر) اراضی پر ہی کپاس بوئی گئی تھی جو ہدف کا 76 فیصد ہے اور پچھلے سال سے 22.42 فیصد کم ہے۔
سندھ میں گزشتہ سال(24-2023ء) میں تقریباً 14 لاکھ ایکڑ (0.563 ملین ہیکٹرز) رقبے پر کپاس کاشت کی گئی تھی۔ رواں سال کاشت کا ہدف 15 لاکھ 56 ہزار 764 ایکڑ رکھا گیا تھا لیکن 13 لاکھ 17 ہزار 72 ایکڑ رقبے پر ہی کپاس کاشت ہوئی جو ہدف کا 85 فیصد اور پچھلے سال کے مقابلے میں 5.32 فیصد کم ہے۔
تاہم محکمہ زراعت (توسیع ) سندھ کے 13 جون 2024ء کے حتمی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبے میں رواں سال تقریباً 13 لاکھ 59 ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی جو ہدف سے 13 فیصد اور گزشتہ سال سے تقریباً 12 فیصد کم ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سانگھڑ سمیت بیشتر اضلاع میں اس بار کپاس کی کاشت میں کمی آئی ہے۔
سنٹرل کاٹن کمیٹی نے نئی خبر دی ہے کہ رواں سال (25-2024ء) بلوچستان میں کپاس کی کاشت کا ہدف تقریباً 20 لاکھ ایکڑ رکھا گیا ہے جہاں فی ایکڑ پیداوارکا تخمینہ اگرچہ کم (تقریباً 40 کلو گرام فی ایکڑ) لگایا گیا ہے تاہم پیداواری ہدف چار لاکھ 73 ہزار گانٹھ مقرر کیا گیا۔
یوں اس بار پنجاب، سندھ، بلوچستان کے ساتھ خیبر پختونخوا کی 930 گانٹھ شامل کر کے ملک میں کپاس کا مجموعی ہدف ایک کروڑ آٹھ لاکھ 74 ہزار گانٹھ مقرر کیا گیا۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں گذشتہ(24-2023ء) سال 83 لاکھ 96 ہزار 557 گانٹھ روئی پیدا ہوئی تھی جس میں 42 لاکھ 81 ہزار 779 گانٹھ پنجاب اور 41 لاکھ 14 ہزار 778 گانٹھ سندھ سے حاصل ہوئی تھی۔
لیکن رواں سال پی سی جی اے کے اعداد و شمار کپاس کی فیکٹریوں میں آمد کی بہتر صورت حال نہیں بتا رہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور نئے بیجوں کی آمد کے باعث سندھ میں عام طور پر کپاس کی چنائی مئی کے آخر ہی میں شروع جاتی ہے جو اکتوبر تک چلتی ہے تاہم پنجاب میں اس کا آغاز جون کے آخر میں ہوتا ہے۔
جنرز ایسوسی ایشن کی ارائیول رپورٹ کے مطابق پچھلے ماہ یعنی 15 جولائی 2024ء تک نئی فصل کی چار لاکھ 42 ہزار 41 گانٹھ کپاس جننگ فیکٹریوں میں پہنچیں جبکہ پچھلے سال اس تاریخ (15 جولائی) تک آٹھ لاکھ 58 ہزار سات گانٹھ آ چکی تھی۔
یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ رواں سال اب تک کپاس پچھلے سال کی نسبت 48.48 فیصد یعنی تقریباً نصف ہی مارکیٹ میں آئی ہے جس میں پنجاب کا حصہ ایک لاکھ 14 ہزار 375 گانٹھ ( 42.49 فیصد کم) اور سندھ کا حصہ تین لاکھ 27 ہزار 666 گانٹھ( 50.29 فیصد کم) ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پچھلے دو سال کپاس کے نرخ کیا رہے؟
پی سی جی اے کے مطابق 23-2022ء میں ملک بھر میں کپاس کی کل پیداوار 49 لاکھ 12 ہزار 69 گانٹھ ہوئی تھی جس میں پنجاب کا حصہ 30 لاکھ 33 ہزار 50 اور سندھ کا 18 لاکھ 79 ہزار 19 گانٹھ تھا۔
سنٹرل کاٹن کمیٹی کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 23-2022ء میں پنجاب میں پھٹی کا اوسط نرخ (مارچ سے مارچ) لگ بھگ نو ہزار روپے من (فی 40 کلو) رہا جبکہ سندھ میں پھٹی تقریباً سات ہزار 400 سے آٹھ ہزار روپے من تک خریدی جاتی رہی تھی۔
کمیٹی کی تین ماہ قبل جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال (24-2023ء) اگست میں پنجاب کی پھٹی کے نرخ آٹھ ہزار 200 سے آٹھ ہزار 600 روپے من تھے جبکہ سندھ میں آٹھ ہزار روپے کے قریب تھے۔ لیکن دسمبر تک نرخوں میں پانچ سو سے ایک ہزار روپے من تک کمی آ گئی تھی۔
تاہم پچھلے سیزن کے اختتام پر یعنی مارچ 2024ء میں جب سندھ پنجاب کے بیشتر اضلاع میں پھٹی ختم ہو چکی تھی تو ریٹ دوبارہ سنبھل گیا اور رحیم یارخان، بہاول پور میں پھٹی نو ہزار 662 روپے تک فروخت ہوئی تھی۔
لیکن اس سال جون میں بجٹ کے بعد اچانک پھٹی کے نرخ گر گئے اور ساتھ ہی جنرز نے بھی کچھ روز کے لیے ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔
کپاس کی پیداواری لاگت اور آمدنی
سندھ میں ضلع سانگھڑ کو 'کپاس کا گھر' کہا جاتا ہے جہاں دیگر اضلاع سے کاشت زیادہ اور اوسط پیداوار نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔
محمد خان وسان، ضلع سانگھڑ کے کاشت کار ہیں جو عام طور پر اپنے گاؤں برہون شہداد پور میں گندم اور کپاس کاشت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کپاس کے لیے زمین کی تیاری (ہل، ریجر وغیرہ) پر تقریباً 12 ہزار، کھاد بیج، پانی کے اخراجات 31 ہزار اور بیجائی، چھدرائی و صفائی کی مزدوری دو ہزار کی لگ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی ادویات اور سپرے پر 30 ہزار فی ایکڑ سے کم نہیں لگتے۔ یوں کل ملا کر 70 سے 80 ہزار روپے فی ایکڑ لاگت آتی ہے جبکہ رواں سال موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سانگھڑ میں بھی 25 من فی ایکڑ سے زیادہ پھٹی کی توقع نہیں۔
"میری پھٹی بمشکل اس سال 15 من فی ایکڑ نکلتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ ریٹ ساڑھے چھ سے سات ہزار من چل رہا ہے۔ چنائی کا خرچہ ایک ہزار روپے من آتا ہے اس حساب سے مجھے تو پھٹی ساڑھے پانچ سے چھ ہزار روپے من پڑتی ہے۔ اگر زمین بھی لیز یا ٹھیکے کی ہو تو کسان کو کچھ نہیں بچتا بلکہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ گندم کی فصل کے دوران بھی زیادتی ہوئی۔ سندھ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت چار ہزار روپے من (40 کلو گرام) مقرر تھی لیکن محکمہ خوراک نے ان سے ایک دانہ بھی نہیں خریدا مجبوراً انہوں نے ڈھائی سے تین ہزار روپے من آڑھتیوں کو گندم بیچی۔
کپاس کے نرخ کیوں گرے؟
گلاب بھیل، کہتے ہیں کہ جننگ فیکٹری کی بجلی مہنگی ہو، بنولہ، روئی یا تیل پر کوئی ٹیکس لگے تو متاثر کسان ہی ہوتا ہے۔ کارخانہ دار یہ تمام بوجھ یا ٹیکس کسان پر ہی منتقل کر دیتا ہے اور کپاس مزید سستی ہو جاتی ہے۔
محمد خان کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ سے پہلے سندھ میں پھٹی نو ہزار من بک رہی تھی لیکن بجٹ میں کھل بنولہ (کھلی) پر نیا ٹیکس لگا اور جننگ فیکٹریوں کی بجلی کے ریٹ بڑھا دیے گئے۔ فیکٹریوں نے احتجاجاً خریداری بند کر دی اور پھٹی کے نرخ دو ہزار روپے من تک گر گئے۔
"پہلے ہم نے گندم میں نقصان برداشت کیا اب پھٹی کی پیدوار کم ہو گئی ہے۔ لاگت زیادہ ہے اور پیدوار کم، جب اس کے بھی ریٹ نہیں ملیں گی تو آئندہ کپاس کون بیجے گا؟"
"فیکٹری پر ٹیکس کا بوجھ کسان کو اٹھانا ہوگا"
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے چیئرمین چودھری وحید ارشد بتاتے ہیں کہ کاٹن فیکٹری کو دو ہزار کلو واٹ بجلی پہلے 500 روپے میں مل رہی تھی اب یہ قیمت دو ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ یعنی جو فیکٹری مالک پہلے بجلی کا دو لاکھ تک بل دیتا تھا اب وہ آٹھ لاکھ روپے دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے روئی، بنولے( کپاس کا بیج)، تیل بنولہ اور آئل ڈرٹ پر 18، 18 فیصد سیلز ٹیکس نافذ تھا لیکن حالیہ بجٹ میں کھل (کھلی) پر بھی 10 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
" نئے ٹیکس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہم نے جون کے آخری ہفتے کارخانے اور خریداری بند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔"
یہ بھی پڑھیں
گندم کی بے قدری کے بعد کپاس کی کاشت میں کمی، قیمت کون چکائے گا؟
انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اب حکومت کے تمام ٹیکسوں اور فیکٹریوں کی بجلی کی اضافی قیمتوں کا بوجھ براہ راست کسان اور ہاری کو اٹھانا ہو گا۔
ضلع سانگھڑ میں تقریباً 50 کاٹن جننگ فیکٹریاں موجود ہیں جن میں سے گاؤں مقصودو رند، شھداد پور میں واقع ایک فیکٹری غلام سرور رند چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاٹن فیکٹری سال میں چار سے پانچ ماہ چلتی ہے مگر بجلی کا بل پورے سال کا ادا کرتی ہے۔
"بند کارخانے کے دوران سات ماہ ہم بجلی کا وہی بل دیتے ہیں جو چلتے کارخانے والے دنوں میں ادا کرتے ہیں۔اب پھر بجلی کی قیمتیں بڑھا دی گئیں اور نیا ٹیکس بھی لگا دیا گیا۔ بری پالیسی اور منصوبہ بندی کی سزا کسان، زمیندار اور فیکٹری مالکان ایک ساتھ بھگت رہے ہیں۔"
سندھ آبادگار بورڈ کے سینیئر نائب صدر سید ندیم شاہ بتاتے ہیں کہ پنجاب میں 60 لاکھ ایکڑ پر کپاس کاشت ہوتی تھی جو 30/40 لاکھ ایکڑ تک محدود ہو گئی ہے۔اب وہاں زمیندار سال میں دھان کی دو فصلیں لگا کر کما رہا ہے اور گندم بھی اگاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب سندھ میں بھی کاشت کم ہو جائے گی۔
"کارخانہ دار کھل، بنولہ اور روئی کے الگ الگ ٹیکس کاٹنے کے بعد بیوپاری یا کسان کو رقم ادا کرتے ہیں اور کاٹے گئے ٹیکسوں کی رسید بھی نہیں دیتے۔ وہ پہلے ایک من پھٹی پر دو سو روپے کاٹ رہے تھے تو اب سات سو کاٹ لیں گے انہیں کیا فرق پڑے گا۔"
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ گانٹھ(170 کلو گرام) روئی کی سالانہ کھپت ہے لیکن یہاں کاٹن کی پیداوار کی صورت بگڑ چکی ہے حالانکہ پاکستان 12-2011ء میں دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ کپاس (ایک کروڑ 48 لاکھ گانٹھ) پیدا کرنے والا ملک تھا۔
تاہم امریکی محکمہ زراعت (فارن ایگریکلچر سروس) کی 26 مارچ 2024ء کی پیش گوئی کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال (25-2024ء) میں 32 لاکھ گانٹھ روئی درآمد کرنا پڑے گی جو پچھلے سال سے کچھ زیادہ ہے۔
تاریخ اشاعت 20 اگست 2024