فیصل آباد کے ایک نواحی گاوں میں آٹھ سالہ عبدالرحمان اینٹوں کے بھٹے پر ایک پرانے بائیسکل ٹائر کو لکڑی کے ڈنڈے کی مدد سے زمین پر لڑھکا رہا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر دو بچے کچی اینٹوں کی قطاروں کے درمیان پلاسٹک کی ٹوٹی پھوٹی کھلونا گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ کئی دیگر بچے ادھر ادھر مٹی سے کھیل رہے ہیں۔
چند سال پہلے ان میں سے زیادہ تر بچے پنجاب حکومت کی طرف سے بھٹوں پر بنائے گئے ان غیر رسمی سکولوں میں پڑھ رہے تھے جو 2016 میں ایک خصوصی پروگرام کے تحت کھولے گئے تھے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد بھٹوں پر کام کرنے والے 90 ہزار سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینا تھا۔ لیکن ان سکولوں کے کھلنے کے بعد بھٹہ مزدوروں کے دوسرے بچے بھی وہاں پڑھنے لگے تھے۔
ان سکولوں میں پڑھنے والے ہر بچے کے والدین کو دو ہزار روپے ماہانہ ادا کئے جاتے تھے۔ جن بچوں کی حاضری 75 فیصد ہوتی تھی انہیں ہزار روپے ماہانہ بطور انعام بھی دیے جاتے تھے۔ پنجاب حکومت کا سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پڑھنے والے تمام بچوں کو کتابیں، وردی، سکول بیگ اور جوتے بھی مفت فراہم کرتا تھا۔
جولائی 2018 کے عام انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آنے والی صوبائی حکومت نے ان بھٹہ سکولوں کا انتظام سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے لے کر لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا لیکن پنجاب کے صوبائی بجٹ میں اس پرگرام کے لئے 30 جون 2019 کو ختم ہونے والے مالی سال میں مختص کی گئی ڈیڑھ ارب کے قریب رقم پہلے ڈیپارٹمنٹ سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ کو منتقل نہ کی گئی۔ جس کی وجہ سے یہ سکول بند ہو گئے۔
پرانے ٹائر سے کھیلنے والے عبدالرحمان اس وقت دوسری جماعت کے طالب علم تھے۔ انہیں اپنے سکول کے دن بہت یاد آتے ہیں کیونکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
عبدالرحمان کے والد غلام حیدر بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بڑا بیٹا تیسری جماعت اور چھوٹا بیٹا دوسری جماعت میں پڑھ رہا تھا جب اچانک بھٹے پر بنا ہوا سکول بند ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں: 'اب یہ بچے آوارہ پھرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم انہیں پڑھانے کے لئے فیس یا دیگر اخراجات ادا نہیں کر سکتے'۔
بارہ سالہ محمد عابد ان چند بچوں میں شامل ہیں جنہوں نے بھٹے والا سکول بند ہونے کے باوجود اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ وہ بھٹے سے دس کلومیٹر دور ایک سرکاری سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔
انہیں سب سے بڑا مسئلہ روزانہ سکول آنے جانے کا ہے جس میں پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں اور وقت بھی۔ انہیں سکول کی فیس بھی دینا پڑتی ہے اور وردی اور کاپیوں کتابوں پر بھی خود خرچہ کرنا پڑتا ہے۔
عابد کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اور شدید مالی مشکلات برداشت کر کے ان کی پڑھائی کو یقینی بنا رہے ہیں لیکن بھٹے پر کام کرنے والے دوسرے خاندان ان اخراجات کو برداشت نہیں کر سکتے اس لئے وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے۔ عابد کہتے ہیں: 'بھٹے پر بنے ہوئے سکول میں میرے ساتھ 65 بچے پڑھتے تھے لیکن اب میں اکیلا ہی سکول جاتا ہوں جبکہ باقی سب بچوں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے'۔
بھٹے کے مالک میاں فرمان علی کہتے ہیں کہ ان کے بھٹے پر ڈیڑھ سو کے قریب بچے ایسے ہیں جو سکول بند ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اگر یہ سکول جاری رہتے تو بہت سے بھٹہ مزدوروں کے بچے پڑھ لکھ کر کہیں نہ کہیں چھوٹی موٹی ملازمت پر لگ کر بہتر زندگی گزار سکتے تھے'۔
بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور خاندان کسی ایک جگہ پر ہی ہمیشہ کام نہیں کرتے بلکہ ہر چھ ماہ بعد اپنے کام کی جگہ بدل لیتے ہیں۔ ان کا اس طرح مسلسل حرکت میں رہنا ایک اہم وجہ ہے کہ ان کے بچے کسی باقاعدہ سکول میں پڑھ نہیں پاتے۔ لیکن، جیسے کہ میاں فرمان علی کہتے ہیں، 'اگر ہر بھٹے پر ایک غیر رسمی سکول موجود ہو تو یہ خاندان جہاں بھی کام کریں گے وہیں ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا'۔
سکول ایجوکیشن کے صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس سے جب پنجاب اسمبلی میں بھٹہ سکولوں کی بندش کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس مد میں پنجاب حکومت کے پاس پچاس کروڑ روپے کی رقم موجود ہے لیکن اسے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کرنے کا معاملہ صوبائی کابینہ کی ایک کمیٹی کے سامنے زیرِ التوا ہے۔ ان کے مطابق اس کمیٹی سے منظوری ملنے کے بعد یہ رقم لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کر دی جائے گی جس سے بھٹہ سکول دوبارہ کھل جائیں گے۔
لیکن کمیٹی کے پاس یہ معاملہ جنوری 2020 سے اٹکا ہوا ہے۔ شاید کمیٹی ممبران کو معلوم نہیں کہ عبدالرحمان جیسے کئی لاکھ بچوں کا تعلیمی مستقبل ان کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ کیے جانے کی وجہ سے خطرے میں پڑ چکا ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 24 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 18 مئی 2022