شادی سے پہلے ایستھر کی زندگی بہت اچھی تھی۔ ان کے والد نذیر ایمانویل کا روزگار ان کی ملکیت تین ایکڑ زرعی اراضی سے وابستہ تھا اگرچہ وہ کامیاب کسان سے زیادہ ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کے مطابق ان کے والد اتوار کی اجتماعی عبادت سے کسی صورت میں بھی غیر حاضر نہیں ہوتے تھے۔
چرچ کے ذریعے ہی نذیر کو ایستھر کے لیے شادی کی پیشکش موصول ہوئی۔ یوں 2000 میں انہوں نے اپنی بیٹی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ساجد نامی شخص سے بیاہ دی جو الیکٹرانکس کی مرمت کا کام کرتا تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک بیڈ، صوفہ سیٹ، ایک میز، کچھ برتن اور ایک سلائی مشین جہیز میں دی اور اسے کہا کہ ''ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں اور اب تمہارا شوہر تمہارا خیال رکھے گا''۔
2010 میں ایمانویل کی وفات تک ساجد نے ایستھر کا خوب خیال رکھا۔
تاہم ان کی وفات کے بعد اس نے ایستھر پر زور دینا شروع کر دیا کہ وہ اپنے والد کی جائیداد میں حصہ مانگیں مگر وہ ہمیشہ اس تجویز کی مخالفت کرتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنا لالچ پر مبنی ہو گا اور ایک گناہ کا کام ہو گا۔ ان کے بقول انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ''میں چند مادی فوائد کی خاطر آخرت میں گناہ گار نہیں بننا چاہتی''۔
اس دوران ایستھر کے تین بھائیوں نے اپنے والد سے ورثے میں ملی جائیداد بیچ دی اور راولپنڈی میں ایک بڑے اور پہلے سے بہتر گھر میں منتقل ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ساجد نے ایک وکیل سے رجوع کیا جس نے اسے بتایا کہ قانون کی رو سے ان کی بیوی بھی اپنے والد کی وراثت میں حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ساجد نے ایستھر پر زور دیا کہ وہ جائیداد میں اپنا حصہ لینے کے لیے اپنے بھائیوں سے بات کریں۔ لیکن جب انہوں نے ایسا کیا تو ان کے بھائی غصے میں آ گئے اور انہیں کہنے لگے کہ کہ وہ اپنا ایمان کھو بیٹھی ہیں اور ان کے دل میں لالچ آ گیا ہے۔
ایستھر سالہا سال سے یہی سنتی آئی تھیں کہ شادی شدہ عورت اپنے والدین کی ملکیتی ہر چیز پر اپنا حق کھو دیتی ہے چنانچہ اپنے بھائیوں کی سرزنش اور ملامت کے بعد وہ جائیداد پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئیں۔ انہیں یہ پریشانی بھی تھی کہ جائیداد میں حصہ مانگنے پر ان کے اپنے بھائیوں سے تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا الزام وہ اپنے سر نہیں لینا چاہتی تھیں۔
تاہم 2015 میں ان کی زندگی میں اس وقت ایک غیر متوقع تبدیلی آئی جب ساجد اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔ اس نے اپنے پیچھے ایسا کچھ نہیں چھوڑا تھا جس سے وہ اپنے دو بچوں کی پرورش کر سکتیں۔ایستھر راولپنڈی کی اڈیالہ روڈ کے قریب شاہ پور نامی ایک غریب بستی میں کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے لیے اس گھر کا ماہانہ کرایہ ادا کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپڑے سیتی ہیں۔ ان کا بیٹا ناتھن بے روزگار ہے حالانکہ اس نے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ لے رکھا ہے اور گزشتہ سال کورونا وائرس کی وبا میں بے روزگار ہونے سے پہلے وہ ایک دوا ساز کمپنی میں سیلزمین کے طور پر کام بھی کرتا تھا۔ ایستھر کی بیٹی کرن نے پانچویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ دیا تھا اور اب گھر پر ہی رہتی ہے۔
اپنے نازک مالی حالات سے مجبور ہو کر بالاآخر ایستھر نے اپنے والد کی جائیداد میں حصہ لینے کے لیے مسیحی وراثتی قانون مجریہ 1925 کے تحت راولپنڈی کی سول کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا لیکن اس مقدمے کی حتمی سماعت کئی سال سے زیر التوا ہے۔
ان کے وکیل نعیم رانجھا کا کہنا ہے کہ مسیحی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ان کے دعوے کی مخالفت کے باعث ان کا مقدمہ پیچیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔
سپریم کورٹ کا بھولا بسرا فیصلہ
جوڈیشل لا نامی جریدے کے مدیر اعلیٰ حبیب اللہ عامر لکھتے ہیں کہ ''جائیداد میں حصہ نہ دیے جانے کے بہت سے واقعات اس لیے بھی ہمارے قانونی نظام کی نظروں میں نہیں آتے کہ خواتین کی بڑی تعداد اپنی پوری زندگی خصوصاً مشکل حالات میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی حمایت سے محروم ہونے کے خوف سے ایسے مقدمات عدالت میں نہیں لے جاتی''۔
اعداد و شمار ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ 18-2017 میں کیے گئے پنجاب بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ایک جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صوبے میں 15 سال سے 64 سال کی عمر کی 8.8 فیصد خواتین کو ہی اپنے متوفی والد کے ترکے سے حصہ مل سکا۔ متوفی شوہروں کے ترکے سے اپنا حصہ وصول کرنے والی خواتین کی تعداد اس سے قدرے زیادہ یعنی 21.1 فیصد ہے۔ لیکن مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں والدوں اور شوہروں کا ترکہ حاصل کرنے والیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بہت سی مسیحی شخصیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین خصوصاً مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو ان کا وارثتی حق نہ ملنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس حق سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
2017 میں انتقال کر جانے والے معروف قانون دان نعیم شاکر نے ایک غیر ملکی میگزین کو بتایا تھا کہ ''خواتین مسیحی وراثتی ایکٹ مجریہ 1925 کے تحت خود کو حاصل حقوق سے لا علم ہیں اس لیے انہیں اپنے والد اور شوہر کی جائیداد سے حصہ نہیں ملتا''۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے سنٹر فار سوشل جسٹس کے بانی پیٹر جیکب اس سلسلے میں 1992 میں کیے گئے سپریم کورٹ کے ایک اہم فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس فیصلے نے مسیحی وراثتی قانون میں ایک بہت بڑا خلا بند کر دیا جس کی رو سے ایسے مسیحی گروہوں اور فرقوں کو اس قانون سے استثنیٰ دیا گیا تھا جو یہ کہتے تھے کہ وہ وراثتی معاملات میں اپنے مروج قانون کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے اور وہ اس ایکٹ کے پابند نہیں ہیں۔ اس استثنیٰ نے وراثتی ایکٹ کو مسیحی برادری کے ایسے مذہبی رہنماؤں کی خواہشات کے تابع کر دیا تھا جو ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان محمد افضل ظلہ کے لکھے ہوئے اس فیصلے میں مسیحی وراثتی ایکٹ میں بیان کردہ لفظ 'مساوات' کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ ملک کے باقاعدہ قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی فرقے یا برادری کو اس کے ہاں مروج رسموں کے مطابق وراثتی معاملات کا فیصلہ کرنے کی اجازت دینا مساوات کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم، جیسا کہ پیٹر جیکب کہتے ہیں، پاکستانی مسیحی بالعموم اور ان میں سے صاحب حیثیت لوگ بالخصوص جسٹس افضل ظلہ کے اس فیصلے کو تقریباً ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں۔
لیکن بہت سے مقدمات میں مسیحی مذہبی رہنماؤں کی نمائندگی کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے وکیل اور مسیحی وکلا کی ایک تنظیم کے سربراہ کاشف الیگزنڈر کا کہنا ہے کہ ایسا قانون جو کسی برادری کے مذہبی اعتقاد سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ اس برادری کے خلاف امتیاز برت رہا ہو گا اور اسی لیے اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ''آپ کسی گروہ کے مذہب کے خلاف قانون بنا کر یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اس کے خلاف مزاحمت نہیں کرے گا''۔
ان متضاد آرا کی موجودگی میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مذہبی معاملات سے متعلق ہر مقدمے میں کارروائی مختلف تشریحات کی وجہ سے الجھ جاتی ہے۔ ایستھر کے وکیل بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقدمے کا اب تک فیصلہ نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی الجھن ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے چونکہ جج حضرات عام طور پر مسلمان ہوتے ہیں اس لیے انہیں مسیحی عقیدے کی پیچیدگیوں اور اس میں فرقہ وارانہ اختلافات کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ ان کے بقول ''جب مسیحی مذہبی رہنما کسی مخصوص قانونی پہلو کی مخالفت کرتے ہیں تو جج حضرات مزید الجھ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے لیے فوری فیصلہ دینا ممکن نہیں رہتا''۔
ورثے کے حصول کے لیے مذہب کی تبدیلی
قانونی راستوں کی عدم موجودگی میں مسیحی خواتین اپنا وراثتی حق لینے کے لیے عموماً ایک مشکل فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتی ہیں جس کے باعث ان کے لیے مسلم قوانین کے تحت اپنے قانونی حقوق کے حصول کا دعویٰ کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
لاہور کے علاقے اچھرہ میں رہنے والی ایک خاتون نے یہی کچھ کیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر نشے کا عادی تھا اور اپنی نشے کی لت پوری کرنے کے لیے وہ ان سے پیسے مانگتا اور انہیں مارتا پیٹتا تھا۔ چنانچہ 2015 میں وہ ایک اور مسیحی شخص کے ساتھ گھر سے بھاگ گئیں جس کے بعد دونوں نے مسلم قانون کے مطابق شادی کر لی۔ 2018 میں انہوں نے اپنے مرحوم والد کے 12 مرلے کے مکان میں اپنا حصہ لینے کے لیے مسلم قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا۔
ضلع خانیوال میں واقع ایک مسیحی گاؤں شانتی نگر کے ایک پادری عبدالمسیح اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان جیسی خواتین کو اپنے قانونی حقوق حاصل کرنے کے لیے مذہب تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑنے پر اس لیے مجبور ہوتی ہیں کہ پاکستان میں مسیحیوں کے خاندانی قوانین میں اصلاحات لانے کی کوئی کوششیں نہیں ہوئیں۔
شاید یہ بات پوری طرح درست نہ ہو۔ بہت سے لوگوں نے ان قوانین کی اصلاح کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کی ہیں۔ اس حوالے سے نعیم شاکر کا نام نمایاں ہے۔ 2005 میں انہوں نے ایک مشاورتی عمل شروع کیا جس کا مقصد مسیحی وراثتی قانون کو اس انداز میں بدلنا تھا کہ اس کے نتیجے میں خواتین کا وراثتی حق یقینی بنایا جا سکے۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ''اس مشاورت میں وراثتی معاملے میں خواتین کے حصے پر خاص توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کیونکہ وراثت کی تقسیم کے وقت خاندان کے مرد ارکان عام طور پر خواتین کو ان کا حق نہیں دیتے''۔ تاہم رجعت پسند مذہبی حلقوں کی مخالفت کے باعث اس مشاورت کے مقاصد حاصل نہ ہو سکے
یہ بھی پڑھیں
افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔
دوسری جانب حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے خاندانی قوانین میں اصلاح کی کوششوں سے پیدا ہونے والے کسی تنازعے کا حصہ نہ بنے۔ موجودہ حکومت کی مسیحی شادی اور طلاق کے قانون کی منظور ی دینے میں ہچکچاہٹ اس کی نمایاں مثال ہے حالانکہ اس قانون کے مسودے کو دو سال پہلے ایک طویل مشاورتی عمل کے بعد حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ اسی ہچکچاہٹ کی وجہ سے حکومت کو مذہبی اقلیتوں کی مشترکہ جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق قانون میں لفظ 'وفاقی' کو 'صوبائی' سے تبدیل کرنے میں 22 سال لگ گئے۔
انہی وجوہات کی بنا پر کاشف الیگزنڈر مسیحی وراثتی قانون میں تبدیلی کے معاملے میں حکومتی نمائندوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''آپ ایسے نااہل لوگوں سے قانونی اصلاحات پر کام کرنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جن کے پاس نہ تو اس کام کی مہارت ہے اور نہ ہی انہیں مسیحی برادری کی حمایت حاصل ہے؟''
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 16 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 16 فروری 2022