خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان کی زراعت اور پینے کے پانی کیلئے خصوصی اہمیت کی حامل چشمہ رائٹ بنک کینال(سی آر بی سی) پچھلے سال آنے والے بدترین سیلاب کے باعث متعدد جگہوں سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نہر کی لمبائی تقریباً تین کلومیٹر ہے اور اب اس کا مرمتی کام طویل تاخیر کے بعد ہیڈ جمعہ شریف سے جھوک عبداللہ تک آخری اور حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔
اس نہر سے سیراب ہونے والے علاقے دامان میں لاکھوں ایکڑ اراضی کو اسی نہر کا پانی لگتا ہے اور اسی علاقے سے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کو گندم، گنا، چاول، مکئی، سبزیاں اور دیگر اجناس کی بھاری مقدار فراہم کی جاتی ہے۔
مقامی شوگر مل کے ملازم عبدالرحمٰن نے بتایا کہ سی آر بی سی کے ساتھ آباد زمینوں میں گنا بڑی مقدار میں کاشت کیا جاتا ہے کیونکہ اس نہر سے متصل کراچی روڈ پر تین بڑی شوگر ملیں 'چشمہ شوگرملز، میرن شوگر ملز اور چشمہ شوگر ملز ٹو قائم ہیں' جو ان زمینوں میں کاشت ہونے والا سارا گنا خریدتی ہیں اور مقامی کسانوں کو اپنی پیداوار سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔
پچھلے سال کے بدترین سیلاب نے جہاں درجنوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹادیں وہاں اس نہر میں جگہ جگہ پڑنے والے شگافوں کے نتیجے میں ملحقہ زمینوں کو بھی شدید نقصان پہنچا اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، لوگوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اور مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ اس نہر کی بحالی کے کام میں تاخیر کے باعث اب یہاں کے لوگوں کو اجناس کی قلت کا سامنا ہے۔
مقامی زمیندار لال خان کیتھران نے بتایا کہ سی آر بی سی کے ٹوٹنے سے اس علاقے میں ایک سال سے زمینیں بنجر اور خشک پڑی ہیں اور یہ سلسلہ چشمہ بیراج سے پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان تک پھیلا ہوا ہے۔
"اس نہر کی مرمت کا کام اگرچہ پچھلے سال سے جاری ہے اور ہیڈ جمعہ شریف سے جھوک عبداللہ تک تقریباً تین کلومیٹر تک مختلف شگافوں، موگاجات کی ٹوٹ پھوٹ اور سلیٹوں کے اصل جگہوں سے ہٹ جانے والے حصوں کو مٹی اور کنکریٹ سے دوبارہ بنایا جا رہا ہے لیکن اس میں تاخیر سے لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے جس کے خلاف چھوٹے بڑے مقامی کاشتکاروں نے احتجاجی جلوس بھی نکالے اور دھرنے بھی دیے ہیں۔"
لال خان کے مطابق یہ نہر کندیاں کے قریب دریائے سندھ کے چشمہ بیراج سے نکالی گئی ہے اور اس پر کام کی تاخیر سے علاقہ میں غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے اور خشک سالی کے باعث بیسیوں خاندان دیگر علاقوں اور ڈیرہ اسماعیل خان شہر کو ہجرت کرچکے ہیں۔
چشمہ رائٹ بنک کینال پر کام کرنے والے انجینئروں اور دیگر عملے کا کہہنا ہے نہر پر 95 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، تین کلومیٹر کے متاثرہ حصے کی تعمیر کو دو مراحل میں مکمل کیا جارہا ہے، پہلے مرحلے میں نہر کے بیرونی حصے کی مٹی سے بھرائی کی جا رہی ہے جبکہ اندرونی حصے کو کنکریٹ سے مضبوط کیا جا رہا ہے، علاقہ کی اہم ڈسٹری ڈسٹری نمبر 15 پر کنکریٹ سے گیٹ تعمیر کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی تقسیم کو منظم طریقے سے بروئے کار لایا جاسکے۔ اس کی تکمیل سے سات لاکھ ایکڑ زیر کاشت رقبہ سیراب ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں
ملک کی طویل ترین نہر میں پانی کی قلت سے سندھ کی زراعت متاثر، کاشت کار زمینیں بیچنے لگے
اس بارے میں جب منصوبے کے چیف انجنیئر گوھر زمان بھابھہ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ چشمہ رائٹ بنک کینال میں آزمائشی بنیادوں پر کچھ پانی چھوڑا گیا تو ایک جگہ پر مسئلے کی نشاندہی ہوئی جہاں تقریباً بیس سے پچس فٹ کا شگاف پڑ چکا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے اس جگہ زمین نرم پڑچکی ہے۔ نہر کی تعمیر شروع کرنے سے قبل ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نہر میں شگاف پڑ سکتے ہیں تاہم ان مسائل کو دور کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ اگرچہ کسانوں کی شکایات بجا ہیں لیکن انہیں مزید نقصان سے بچانے کے لیے نہر کی بحالی میں احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھے جانا ضروری ہیں۔
سی آر بی سی کی مرمت کا کام مکمل ہونے کے بعد 31 اکتوبر کو نہر میں باضابطہ طور پر پانی چھوڑا جانا ہے، تعمیر کے بعد سی آر بی سی کا 60 فیصد پانی خیبرپختونخوا جبکہ 40 فیصد پانی ڈیرہ غازی خان (پنجاب) کو ملے گا۔
سی آر بی سی سے منسلک دیہاتوں کیلئے یہ نہر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اس پورے خطے کے کاروباری، معاشرتی اور سماجی معاملات کا دارومدر اسی نہر کے پانی پر ہے۔ اسی لیے پورے علاقے کے لاکھوں افراد نہر کی مرمت میں تاخیر سے پریشان ہیں اور مرمتی کام کی جلد تکمیل چاہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس نہر سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تقریباً 12 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
تاریخ اشاعت 23 اکتوبر 2023