پنجاب میں بے موسمی بارشوں کی وجہ سے کہیں خوشی کہیں غم

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

پنجاب میں بے موسمی بارشوں کی وجہ سے کہیں خوشی کہیں غم

احتشام احمد شامی

پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی میں شامل ایک گاؤں ماڑی ٹھاکراں کے کچھ کاشتکار ان دنوں خوشی سے نہال ہیں اور کچھ کے چہروں پر پریشانی اور اداسی عیاں ہے۔خوشی اور پریشانی کی وجوہات ذاتی نوعیت کی نہیں بلکہ موسم ان کے چہروں پر مسکراہٹیں اور مایوسیاں بکھیرنے کا سبب بنا ہے۔

موسم ایک ہی ہے لیکن کچھ اس کے اثرات مختلف ہیں۔

بارشیں اور ژالہ باری کچھ کاشتکاروں کے چہروں پر رونق لے آئیں تو کچھ کاشتکار یہ دعا مانگتے نظر آئے کہ یا اللہ اس بارش کو ٹال دے اور کہیں دور جاکر برسا۔

عادل رانجھا جنہوں نے دس ایکڑ رقبہ پر دھان کی فصل کاشت کی ہے، وہ خوش ہیں کہ مئی اور جون کے مہینوں میں ہونے والی بے موسمی بارشوں کے باعث انہیں ٹیوب ویل اور پیٹر انجن نہیں چلانا پڑا جس سے بجلی اور ڈیزل کا خرچہ بچ گیا ہے۔ وہ بارشوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ قرار دیتے ہوئے شکر ادا کرتے ہیں جس نے بارشیں برسائیں۔

عادل رانجھا نے بتایا کہ جن زرعی زمینوں کو نہری پانی لگتا ہے وہ کاشتکار فائدے میں رہتے ہیں کیونکہ محکمہ انہار والے، موہگے سے پانی سپلائی کرتے ہیں اور اس کا آبیانہ سال بعد وصول کرتے ہیں جوکہ فی ایکڑ تین چار سو روپے ہوتا ہے۔

جن زرعی زمینوں کو نہری پانی نہیں لگتا ان زمینوں کے کاشتکاروں کو مجبورا ٹیوب ویل چلانا پڑتا ہے جس کی بجلی اور ڈیزل کا خرچہ کاشتکار کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔

دھان کی فصل میں  ٹیوب ویل سے پانی لینے کی صورت میں لگ بھگ 25 ہزار روپے فی ایکڑ کا پانی کا خرچہ آ جاتا ہے جس سے کاشتکار  کی آمدن کم ہو جاتی ہے۔

اسی گاؤں کے رہنے والے محسن علی نے سات ایکڑ رقبہ پر تربوز اور خربوزے کی فصلیں کاشت کی تھیں  جوکہ مطلوبہ دھوپ نہ لگنے اور بارشوں، ژالہ باری اور تیز ہوائوں کے جھکڑ چلنے کے باعث خراب ہوگئیں۔

محسن علی  کا کہنا ہے کہ خربوزے میں مٹھاس تیز دھوپ سے آتی ہے جو مئی میں میسر نہیں آئی۔بارشوں کے باعث تربوز کو جالا بھی لگ گیا ہے۔

"پکے خربوزے کو فوری طور پر چننا مجبوری ہے"۔

محکمہ زراعت پنجاب بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ تربوز گرمیوں کی فصل ہے اور نیم گرم و خشک آب ہوا میں بہتر پھل دیتی ہے۔ اگر پھل لگنے کے بعد دن گرم اور راتیں قدرے ٹھنڈی رہیں تو اس میں مٹھاس زیادہ پیدا ہوتی ہے۔

خربوزے کے حوالے سے محکمہ زراعت یہ بتاتا کہ جب فصل برداشت کے قریب ہو تو اس کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے نہیں تو پھل پھیکا رہ جاتا ہے۔

محسن نے بتایا کہ پچھلے سال اسی سات ایکڑ رقبہ پر اس نے خربوزہ اور تربوز اگایا تھا جس پر فصل کی تیاری تک 25 ہزار روپے فی ایکڑ خرچہ آیا تھا اور ان کا مال چھ لاکھ روپے میں فروخت ہوگیا تھا۔ یوں انہیں ڈھائی لاکھ روپے کی اضافی آمدن ہوئی تھی۔

لیکن اس سال  پیداواری اخراجات بڑھ گئے اور فصل بھی اچھی نہ ہوسکی جس کے باعث انہیں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خراب تربوز اور خربوزے کو جانوروں کی خوراک کے طور پر بیچا گیا جس سے انہیں گھاٹا ہوا ہے۔

محکمہ پنجاب کے ایگری مارکیٹنگ سروس کے ادارے کی رپورٹ محسن کو موقف کی تصدیق کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق  رواں سال 15 مئی سے 23 جون تک خربوزے کی اوسط فی کلو گرام قیمت پچھلے سال انہی دنوں کے مقابلے میں 27 روپے کم ہے۔جبکہ تربوز کی قیمت میں یہ کمی سات روپے تک رہی۔

محسن علی نے نے سبزیاں بھی کاشت کی تھیں جن میں سے کدو اور بھنڈی توری کو نقصان پہنچا۔

"جن کاشتکاروں نے زمینیں سالانہ ٹھیکے پر حاصل کی تھیں ان کا حال ہم سے بھی برا  ہے"۔

اپریل ، مئی اور جون میں ریکارڈ توڑ بارشیں، ژالہ باری اور آندھیاں

صوبہ پنجاب کے اضلاع میں بے موسمی بارشوں سے آم، تربوز، خربوزہ اور سبزیوں  کی فصل کاشت کرنے والے کاشتکار پریشان ہیں کیونکہ اپریل سے جون تک جس تیز دھوپ کی فصلوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ انہیں نہیں ملی جس وجہ سے فصل بہتر نہیں ہوسکی اور کاشتکاروں کو شدید مالی نقصان ہوا ہے۔

کئی اضلاع میں ژالہ باری بھی ہوئی اور لوگ اولے پڑنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے نظر آئے۔ شہری علاقوں کے لوگوں کی خوشیاں تو گرمی کی شدت کم ہونے کی وجہ سے ہیں لیکن دیہات میں معاملہ الگ ہے۔
دیہات میں دھان کے کاشتکار خوش ہیں کہ ان بارشوں سے انہیں ٹیوب ویل کا خرچہ برداشت کرنا نہیں پڑ رہا اور بارشوں سے ان کے پیداواری اخراجات کم ہوگئے ہیں۔

محکمہ زراعت پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران صوبہ پنجاب میں دھان کے زیر کاشت رقبہ میں 6.7 فیصد  اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس سال صوبہ پنجاب میں دھان کی فصل کی کاشت کا ہدف 50 لاکھ ایکڑ مقرر کیا گیا ہے۔

بے موسمی بارشیں کیوں ہورہی ہیں ؟

پاکستان میں گزشتہ تین سالوں سے موسم میں غیر معمولی بدلاؤ کیوں دیکھنے میں آرہا ہے۔ لوک سجاگ نے اس سوالات کے جوابات کے لیے ماہر امور موسمیات پروفیسر محمد شفیق سے رابطہ کیا جوکہ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

محمد شفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 18 ممالک میں شامل ہے جسے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔ جس کی ایک بڑی مثال گزشتہ سال کا بدترین سیلاب ہے جس میں ملک کا 70 فیصد حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ رواں سال ماہ اپریل سے ماہ جون میں ہونے والی بارشیں معمولی بات نہیں۔

"پاکستان میں اب وہ موسم نہیں رہا جوکہ تین چار سال پہلے ہوتا تھا اور ہمیں نئے موسموں کے ساتھ ہی ایڈجسٹ ہونا ہوگا"۔

محمد شفیق کہتے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ دو تین سالوں میں سب سے زیادہ نقصان زراعت کا ہوا ہے۔ اس معاملے کو سنجیدہ لے کر کاشتکاروں کی سرکاری سطح پر راہنمائی کی جائے کہ وہ کس موسم میں کیا اگائیں؟ ورنہ ہمارے پھل بے مزہ اور سبزیاں ناکارہ ہو جائیں گی۔

چند روز قبل جاری ہونے والی اقتصادی سروے رپورٹ برائے مالی سال 2022-23 میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے گزشتہ سال 4.27 فیصد کی نمو کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران زرعی پیداوار میں معمولی 1.55 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ تمام ضروری اشیائے خورونوش کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ قومی اقتصادی سروے میں زرعی شعبے میں ہونے والے کل نقصان کا تخمینہ تقریباً 8 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔

سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر سے اپریل تک رہنے والے ربیع کا سیزن سندھ اور بلوچستان کے کسانوں کے لیے مشکل رہا، جو کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب نے خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچایا، چاول کی پیداوار 93 لاکھ 20 ہزار ٹن سے کم ہو کر 73 لاکھ 20 ہزار ٹن رہ گئی جو  ایک سال میں 21.5 فیصد کم ہے۔ اسی طرح کپاس کی پیداوار ایک سال قبل 83 لاکھ 30 ہزار گانٹھوں سے41 فیصد گھٹ کر 49 لاکھ 10ہزار گانٹھوں پر آگئی۔

بارشوں پر پنجاب کے مختلف اضلاع کے کاشتکاروں کی رائے  

ضلع رحم یار خان کے کاشتکار محمد حفیظ نے لوک سُجاگ کو  بتایا کہ بے موسمی بارشوں نے پہلے گندم اور پھر کپاس کو نقصان پہنچا۔

جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل کو بھی بارشوں کے باعث خطرات ہیں اور کاشتکار دعا کررہے ہیں کہ فصلیں محفوظ رہیں۔

گجرات کے نواحی قصبہ منگووال کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ جن زمینداروں نے گندم کی کٹائی مکمل کرلی تھی وہ تو بارشوں کے باعث فائدے میں رہے اور جنہوں نے دھوپ لگنے کا لالچ کیا انہیں اپریل اور مئی کی بارشیں لے ڈوبی ہیں۔

زمیندار اقبال سرویا نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ انہوں نے اپریل ، مئی ، جون کے مہینوں میں کبھی اتنی بارشیں نہیں دیکھیں جتنی اس سال ہوئی ہیں ، جھکڑوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔

سرویا کہتے ہیں کہ انہوں نے 20 ایکڑ زمین پر تربوز ، خوبوزے اور سبزیاں کاشت کی تھیں جن میں پیداوار گزشتہ سال سے بیس پچیس فیصد کم نکلی، اس کی وجہ بارشیں اور اولے ہیں۔   

کاشتکار ناصر خان نے کہا کہ مئی، جون کی گرمی اور دھوپ کا فائدہ کسان کو ہوتا ہے۔ان بارشوں سے دھان کے کاشتکاروں کے سوا باقی سب کو نقصان ہی ہوا ہے۔ "آپ کہہ سکتے ہیں کہ سبزیاں اور پھل  اگانے والے اس سال گھاٹے میں رہے ہیں"۔

ایک پریشان حال کسان اللہ دتہ کہتے ہیں ان بارشوں سے جانوروں کی قیمتیں بھی کم ہوگئی ہیں ۔کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا  کریں اور کیا نہ کریں؟

"جن کسانوں نے  چارہ اگا رکھا تھا ان کا چارہ بھی بارشوں کے باعث خراب ہوگیا ہے"۔

ضلع منڈی بہاوالدین کے ایک کاشتکار محمد اعظم نے کہا کہ اپریل سے جون تک ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری سے کاشتکاری کرنے والے رل گئے ہیں۔ اپریل میں گندم کے کاشتکاروں کو اور مئی جون میں تربوز اور خربوزے کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔

منڈی بہاؤالدین پاکستان کا 41 واں بڑا شہر ہے جہاں کی زمین بہت زرخیز اور نہری نظام بھی بہت بہتر ہے جس وجہ سے منڈی کے کاشتکار عمومآ خوش نظر آتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کاشتکار پریشان ہیں

ایک کاشتکار جاوید نے بتایا  کہ وہ گندم کے علاؤہ سبزیاں اور پھل بھی اگاتے ہیں ، انہوں نے کچھ رقبے پر گندم لگائی اور کچھ پر سبزیاں اور پھل اگائے۔

 "اپریل میں گندم کی فصل تیار تھی اس دوران  غیر متوقع بارشیں ہوئی اور منڈی بہاوالدین میں بہت زیادہ اولے پڑے جس کا نقصان گندم کو ہوا جس کا سٹہ ٹوٹ گیا اور فصل خراب ہوگئی"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوتی گندم کی پیداوار: کیا ہمیں غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے ضلع منڈی بہاوالدین کو گندم کی خریداری کےلئے چھ لاکھ 10 ہزار بوری کا ہدف جاری کیا تھا جس میں سے (بقول سرکای حکام کے) 90 فیصد ٹارگٹ حاصل کرلیا گیا ہے جس میں ذخیرہ کی گئی گندم کی پکڑ دھکڑ سے حاصل شدہ گندم بھی بحق سرکار ضبط کرنا شامل ہے۔

کپاس کی کاشت کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے: پنجاب حکومت

پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ رواں سال کپاس کی بوائی گزشتہ سالوں سے زیادہ کی گئی ہے جس وجہ سے امید ہے کہ 15 جون تک 50 لاکھ ایکڑ رقبہ کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق فیصل آباد ، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژنوں میں کپاس کی بوائی کا 100 فیصد جبکہ ملتان 96 فیصد، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژنوں میں 92 فیصد ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پنجاب کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ مجموعی پیداوار کا  تقریباً 70 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔

کپاس کی کاشت کے مرکزی علاقوں میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، ساہیوال اور رحیم یار خان کے اضلاع شامل ہیں جبکہ ثانوی علاقوں میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، بھکر، میانوالی، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع شامل ہیں۔

تاریخ اشاعت 5 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.