چھ سال پہلے بلوچستان کے شہر چمن سے چار کلومیٹر جنوب میں چمن ماسٹر پلان کے نام سے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ 117 ایکڑ رقبے پر محیط اس منصوبے میں مذبحہ خانہ، گوشت مارکیٹ، کولڈ سٹوریج، ڈیری فارم، ٹرک اڈا، ٹیکسی سٹینڈ، فائر بریگیڈ سٹیشن، بس سٹینڈ، سبزی منڈی اور دیگر سہولیات تعمیر کی جانا تھیں لیکن یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔
گزشتہ دو عشروں سے بیج کا کاروبار کرنے والے حاجی عبدالصمد کی دکان بوغرہ روڈ پر موجودہ سبزی منڈی کے قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بوغرہ روڈ کے دکان دار یہ سن کر خوش تھے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سبزی منڈی شہر سے باہر منتقل کر دی جائے گی تاہم ایسا نہ ہو سکا اور ان تاجروں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سڑک پر ہر 10 منٹ بعد ٹریفک جام ہوتا ہے۔ انتظامیہ نے دن کے وقت بڑے ٹرکوں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ گزشتہ پانچ برس سے بوغرہ روڈ کی مرمت نہیں ہوئی۔ اس کا خستہ حال مرکزی پل کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہیں۔ کئی بار حکام بالا کو ان مسائل کے بارے میں آگاہ کیا مگر ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
سابق کونسلر عبدالولی چمن بائی پاس روڈ سے چند گز کے فاصلے پر محلہ حاجی گل زمان میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چمن بائی پاس روڈ پر پاک افغان تجارتی قافلوں کے ساتھ چمن تا کراچی بسیں بھی چلتی ہیں۔ ان بسوں کا سٹینڈ مال روڈ پر مرکزی بازار میں ہے جہاں ان کے پریشر ہارن ذہنی سکون برباد کر دیتے ہیں۔
"زیادہ ٹریفک کی وجہ سے بائی پاس روڈ پر کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں ایک سکول وین حادثے کا شکار ہوئی جس میں سوار چار بچے جاں بحق اور پانچ زخمی ہو گئے تھے۔ دسمبر 2022ء میں باراتیوں کی کوچ کو حادثہ پیش آیا جس میں خواتین سمیت چھ افراد جاں بحق اور ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے۔ میگا پروجیکٹ کے مکمل ہونے سے بائی پاس روڈ پر ٹریفک کم ہو جائے گی۔"
گزشتہ 15 برس سے شہر کے قندھاری بازار میں موٹر سائیکل پرزہ جات کے کاروبار سے وابستہ تاجر اللہ داد نے بتایا کہ 50 سال پہلے تعمیر کی گئی اس مارکیٹ کے اکثر حصے منہدم ہو چکے ہیں۔ مارکیٹ کے سامنے ذبح کیے گئے جانوروں کی آلائشیں پھینکی جاتی ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کا عملہ ہفتے میں ایک ہی بار اس جگہ کی صفائی کرتا ہے جس کے سبب آس پاس کے دکان داروں کا تعفن سے برا حال رہتا ہے۔
"بہت سی دکانیں اسی وجہ سے یہاں سے منتقل ہو گئی ہیں۔ اگر یہاں میری ذاتی جائیداد نہ ہوتی تو میں ایک دن بھی اس بازار میں نہ ٹھہرتا"۔
چمن ماسٹر پلان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد یونس نے بتایا کہ منصوبہ فیز 1 اور فیز 2 پر مشتمل ہے۔ پہلے فیز میں بس اڈا، ٹرک اڈا، فروٹ منڈی، سبزی منڈی، کولڈ سٹوریج اور ٹیکسی سٹینڈ کی تعمیر ہونی ہے جبکہ دوسرے فیز میں مذبحہ خانہ، ڈیری فارم اور فائر بریگیڈ سٹیشن بنائے جانا ہیں۔ ان کے مطابق فیز 1 پر کام آخری مراحل میں ہے اور یہ دو ہفتوں میں فعال ہو جائے گا۔
چمن چیمبر آف کامرس کے نائب صدر محمد قسیم اچکزئی کا کہنا ہے کہ اس میگا پروجیکٹ میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح الگ الگ بازار ہونے چاہئیں جیسے سبزی اور گوشت کا الگ الگ بازار ہو۔ ٹرک اڈہ اور ٹیکسی سٹینڈ وغیرہ ان بازاروں سے دور ہوں۔ نیز مرکزی شہر تک ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے۔
محمد یونس کے مطابق 2019ء میں 50 کروڑ روپے، 2020ء میں 10 کروڑ روپے، 2021ء میں پانچ کروڑ روپے اور 2022ء میں تین کروڑ روپے ملے تھے۔ پیسے وقت پر نہیں ملتے تھے اس لیے کام میں تاخیر ہوئی ورنہ یہ منصوبہ دو سال پہلے فعال ہو جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اب تک صرف فیز 1 کے لیے ہی فنڈ ملے ہیں۔ فیز 2 کا پی سی ون تیار کر کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیش کیا جائے گا۔
تاہم سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر حمید خان اچکزئی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ منظورشدہ ایک ارب 60 کروڑ روپے دونوں فیز کے لیے تھے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع چمن کیپٹن (ر) راجہ اطہر عباس نے بتایا کہ دو گاؤں کلی لنڈی کاریز اور کلی پڈو کاریز کے رہائشی ماسٹر پلان کا راستہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ شہر آنے جانے کے لیے ان کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔
"اس لیے آمد و رفت پر مکمل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اوباش نوجوان اس امر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ بار بار گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں، ان پر مقدمے بھی درج ہوئے لیکن وہ باز نہ آئے۔"
یہ بھی پڑھیں
کوئٹہ میں ٹریفک کا دباؤ اور آلودگی کم کرنے کا منصوبہ 35 سال میں مکمل نہ ہو سکا
انہوں نے کہا کہ اب وہاں لیویز فورس کے اہلکار داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ان میں مذکورہ گاؤں کا اہلکار بھی شامل ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ گاؤں کے رہنے والوں کے علاوہ کسی کو ماسٹر پلان کی حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
دوسری جانب سیکٹر اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر فیصل خان یقین دہانی کراتے ہیں کہ آئندہ ایک ہفتے میں یہ منصوبہ فعال ہو جائے گا اور سب سے پہلے سبزی منڈی یہاں منتقل کی جائے گی۔
آل بلوچستان گڈز اینڈ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر عبدالاعلیٰ اچکزئی نے بتایا کہ شہر میں اس وقت تین ٹرک اڈے ہیں۔ 2017ء میں ماسٹر پلان کی منظوری کے وقت ہونے والے ایک اجلاس میں حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جو دکان دار اس وقت اڈوں میں کرایے پر ہیں انہیں وہاں کرایے پر دکانیں اور جن کی یہاں ذاتی ہیں انہیں وہاں ذاتی دکانیں دی جائیں۔ ٹرک اڈوں پر فی ٹرک فیس 50 روپے ہے تو وہاں اسے 50 سے 100 روپے کے درمیان ہونا چاہیے۔ ہم اپنے مطالبات منظور ہونے پر اڈے منتقل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مطالبات منظور ہونے پر وہ اپنے اڈے نئی جگہ منتقل کر دیں گے۔
سبزی منڈی کے جنرل سیکرٹری عبدالنافع حقیار نے بھی اسی طرح کا مؤقف اختیار کیا کہ اگر انہیں وہاں پر دکانوں کی ملکیت اور بہتر سہولیات دی جائیں تو وہ منڈی کو نئی جگہ لےجانے کے لیے تیار ہیں۔
تاریخ اشاعت 18 اکتوبر 2023