نئی حلقہ بندیاں: بلوچستان کا ضلع چمن کیوں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہا؟

postImg

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نئی حلقہ بندیاں: بلوچستان کا ضلع چمن کیوں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہا؟

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی حلقوں میں بحث تو الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گی۔ تاہم ان تبدیلیوں سے بلوچستان میں زیارت، دکی، جھل مگسی جیسے اضلاع کو تو فائدہ ہوا ہے۔ لیکن یہاں جو علاقہ سب سے زیادہ گھاٹے میں رہا وہ نیا ضلع چمن ہے۔

پچھلی مردم شماری کے بعد چمن سمیت ضلع قلعہ عبداللہ کی آبادی سات لاکھ 58 ہزار 354 نفوش پر مشتمل تھی۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے اس ضلعے میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ این اے 263 اور بلوچستان اسمبلی کے تین حلقے بنائے گئے تھے۔ جن میں پی بی 21، پی بی 22، اور پی بی 23 شامل تھے۔

ان صوبائی حلقوں میں سے دو پر پچھلے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی اور اصغر خان اچکزئی جیتے تھے۔ ایک نشست جمعیت علمائے اسلام کے حاجی نواز کاکڑ  لے گئے تھے۔

2021 ء میں ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل چمن کو الگ کر کے نیا ضلع بنا دیا گیا۔

حالیہ مردم شماری میں ضلع قلعہ عبداللہ کی آبادی تین لاکھ 61 ہزار 971 اور ضلع چمن کی آبادی چار لاکھ 66 ہزار 218 بتائی گئی ہے۔ یوں ان دونوں اضلاع کی آبادی آٹھ لاکھ 28 ہزار 189 بنتی ہے۔

نئی حلقہ بندی میں الیکشن کمیشن نے ضلع چمن اور قلعہ عبداللہ کی مشترکہ قومی نشست کے علاقوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس حلقے کا محض سیریل نمبر اب این اے 265 ہو گیا ہے۔ یہ حلقہ بدستور دونوں اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ پر مشتمل ہو گا۔

تاہم ان دونوں اضلاع کو بلوچستان اسمبلی کی ایک ایک نشست دے کر یہاں تیسرا حلقہ ختم کر دیا گیا ہے۔ یوں چمن کو چار لاکھ 66 ہزار 218 آبادی پر مشتمل بلوچستان کا سب سے بڑا صوبائی حلقہ بنا دیا گیا ہے۔

اب پی بی 50 ضلع قلعہ عبداللہ پر مشتمل ہے جس میں تحصیل قلعہ عبداللہ، تحصیل دوبندی اور تحصیل گلستان شامل ہیں۔

اسی طرح پی بی 51 اب ضلع چمن پر مشتمل ہے جس میں تحصیل صدر اور تحصیل سٹی چمن شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا صوبائی حلقہ اوسطاً دو لاکھ 92 ہزار 47 کی آبادی پر بنتا ہے اور ضلع چمن میں 1.6 صوبائی نشستیں بنتی ہیں۔

اسی طرح قلع عبداللہ کی 1.24 نشستیں بنتی ہیں۔ دونوں اضلاع کی آبادی کو ملا کر 2.84  نشستیں بنتی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے اپنے فارمولے کے تحت چمن کو دو نشستیں ملنی چاہئیں تھیں لیکن ایک دی گئی ہے۔

سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ دو اضلاع کا ایک قومی حلقہ بنایا جا سکتا ہے تو اس علاقے میں ایک مشترکہ صوبائی حلقہ بھی تشکیل دیا جا سکتا تھا۔

صحافی وحید اللہ سمجھتے ہیں کہ ایک نشست کی خاتمے سے یہاں کے لوگوں کی نمائندگی کم ہو گئی ہے، اس لیے بڑا نقصان تو عوام ہی کا ہوا ہے۔ جہاں تک امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے پچھلی بار ضلع قلعہ عبداللہ  سے دو سیٹیں  اے این پی اور ایک جے یو آئی  نے جیتی تھی اس لیے یہ جماعتیں بھی خوش نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چمن کی نشست پر اے این پی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن اب دونوں اضلاع میں پشتونخوا میپ،  اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ البتہ امیدواروں کی ہار جیت کا اندازہ سیاسی صف بندی سامنے آنے کے بعد ہو گا، کیونکہ کسی اتحاد کی صورت میں معاملات مختلف ہو جاتے ہیں۔

 قلعہ اور چمن سے صوبائی حلقہ ختم ہونے پر متعدد اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز کے مطابق بلوچستان سے خضدار، پشین، آواران، حب، لسبیلہ اور موسیٰ خیل کی حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کرائے جا چکے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کو چمن، موسیٰ خیل اور ہرنائی کے حلقوں کی حد بندی پر اعتراضات ہیں۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی ،نیشنل پارٹی کو کوئٹہ اور خضدار کی حلقہ بندیوں پر اعتراضات ہیں۔

اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری محبت کاکا کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے غیر منصفانہ حلقہ بندیاں تشکیل دی ہیں۔ چار لاکھ 66 ہزار سے زائد آبادی پر ایک نشست عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

پشتونخوامیپ کے سیکرٹری برائے پارلیمانی امور حضرت عمر اچکزئی کہتے ہیں انہیں انصاف نہ ملا تو ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندی قانونی تقاضا ہے۔ انہیں کی پارٹی کو موسیٰ خیل، بارکھان، زیارت، ہرنائی اور چمن کے حلقوں پر اعتراضات ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیں

postImg

چمن میں کئی روز سے جاری دھرنے کے شرکا کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری، کوئٹہ اور خضدار کی حلقہ بندیوں سے ناخوش ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن میں اعتراضات جمع کرا ئے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں بلوچ حلقوں کو منصوبے کے تحت بگاڑا گیا ہے۔ لسبیلہ کی ایک صوبائی نشست  بھی کم کر دی گئی ہے۔ ان چیزوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تحریک انصاف کو کسی حلقے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پارٹی کے صوبائی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری عالم خان کاکڑ کہتے ہیں کہ "ہمارا واحد مطالبہ ہے کہ جلد سے جلد انتخابات کرائے جائیں۔"

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما ہمایوں خان الکوزئی کہتے ہیں کہ ایسی حلقہ بندیوں کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ نفرت پھیلے گی۔

" اقوام کو تقسیم کرنے کی بجائے ان کی آبادی کی بنیاد پر انہیں حلقے دیے جائیں۔"

ادھر الیکشن کمیشن نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ابتدائی حلقہ بندیوں میں اگر ایسی غلطی پائی گئی ہیں جس کی قانون اجازت نہیں دیتا تو اعتراضات کی سماعت کے دوران ان غلطیوں کو درست کیا جائے گا۔

تاریخ اشاعت 9 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مطیع اللہ مطیع کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، خواتین اور بچوں کی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.