پاکستان میں بجلی کے شعبے کی نگرانی کرنے والا ادارہ نیپرا اعتراف کرتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کے باعث بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے سے گھریلو صارفین سے صنعت و زراعت تک ہر شعبہ شدید متاثر ہوا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
ملک میں توانائی کا بحران پچھلے دو ڈھائی عشروں سے سنگینی اختیار کر چکا ہے۔ رواں سال مئی میں گزشتہ مئی کے مقابلے میں بجلی کی طلب میں 22 فیصد کمی کے باوجود شارٹ فال چار ہزار میگاواٹ کے قریب بتایا گیا جبکہ جون جولائی میں حالات اس سے کہیں مشکل ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر 2006ء میں عالمی اداروں کے تعاون سے وسط ایشیائی ممالک سے بجلی خریدنے کا پروگرام بنایا گیا جہاں کرغزستان اور تاجکستان گرمیوں میں وافر پن بجلی پیدا کرتے ہیں۔
کاسا-1000منصوبہ
وسط ایشیا سے بجلی خریدنے کے لیے ابتدائی مذاکرات اسلام آباد میں 2006ء میں شروع ہوئے اور اسی سال ہی دوشنبے میں چار ممالک کے درمیان اس منصوبےکا پہلا سمجھوتہ طے پایا جو بعد ازاں ' CASA-1000 project(سنٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا)' کے نام سے مشہور ہوا۔
کاسا-1000 کی فزیبلیٹی رپورٹ 2011ء میں تیار ہوئی تاہم عالمی بینک نے یہ منصوبہ مارچ 2014ء میں انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن کی ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت سے منظور کیا تھا ۔اس میں اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک، پورپین بینک آف ری کنسڑکشن ایںڈ ڈیویلپمنٹ، پورپین بینک آف انویسٹمنٹ، یو ایس ایٖڈ و دیگر انٹرنیشنل فنانشل ادارے شامل ہیں۔
2016ء میں 'ڈیویلپمنٹ آف سنٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا ریجنل الیکٹریسٹی مارکیٹ(سی اے ایس ای آر ای ایم) کے نام سے اس منصوبے پر پاکستان، افغانستان، کرغزستان اور تاجکستان نے کابل میں ایک اور نئی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے۔
2016ء میں ' ڈیویلپمنٹ آف سنٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا ریجنل الیکٹریسٹی مارکیٹ(سی اے ایس ای آر ای ایم) کے نام سے اس منصوبے پر پاکستان، افغانستان، کرغزستان اور تاجکستان نے کابل میں ایک اور نئی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے۔
کاسا-1000 کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق کرغزستان اور تاجکستان سے کل ایک ہزار 387 کلو میٹر طویل ہائی ٹرانسمشن لائن بچھائی جا رہی ہے۔اس میں مجموعی طور پر چار ہزار 264 ٹاور (پول) لگیں گے جن میں سے ایک ہزار 243 کرغزستان ہی میں ہوں گے۔
اس ترسیلی لائن کے ذریعے وسط ایشیا سے ایک ہزار 300 میگاواٹ کلین انرجی (پن بجلی) فراہم کی جائے گی جس میں سے300 میگاواٹ افغانستان اور 1000 میگاواٹ پاکستان خریدے گا۔ پاکستان میں کاسا ٹرانسمشن لائن کو نوشہرہ گرڈ سے منسلک کیا جائے گا۔
منصوبہ ساز کہتے ہیں کہ اس پراجیکٹ کے بنیادی مقاصد میں چار شریک ممالک کی معاشی ترقی، تجارتی منڈیوں کو مربوط کرنا، کلین انرجی سے وسطی ایشیائی ممالک کی آمدنی بڑھانا اور جنوبی ایشیائی ممالک میں بجلی کی قلت کو دور کرنا شامل تھا۔
ٹائم لائن کے مطابق اس ٹرانسمشن کا تعمیراتی کام 2018ء میں شروع ہوا جو 2023ء میں مکمل ہونا تھا لیکن 2021ء میں افغانستان میں کام رک گیا۔ اس وقت تک کرغزستان میں 77 فیصد، تاجکستان میں 88 فیصد، پاکستان میں 51 فیصد اور افغانستان 18 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا۔
تاہم اس منصوبے کی نئی تکمیلی تاریخ کا باضابطہ تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔
پاکستان کمیونٹی سپورٹ پروگرام (کاسا-1000)
کاسا منصوبے میں چاروں شراکت دار ملکوں کے لیے کمیونٹی سپورٹ پروگرام (سی ایس پی) شامل کیا گیا ہے تاکہ اس منصوبے کو عوامی حمایت حاصل ہو اور ٹرانسمیشن لائن کے قریب بسنے والی آبادی کو اس سرمایہ کاری کا فائدہ پہنچایا جائے۔
پاکستان میں پی سی ایس پی کے تحت طورخم سے نوشہرہ تک 113 کلومیٹر طویل ٹرانسمشن لائن کی کوریڈور میں ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں جہاں 462 ٹاور نصب ہوں گے۔
کاسا کی ویب سائٹ کے مطابق کوریڈور میں آنے والے ضلع خیبر، پشاور اور نوشہرہ کے علاقوں میں تعلیم و صحت کی 17 سکیموں پر عمل درآمد کیا گیا ہے جن میں لڑکیوں کے آٹھ پرائمری سکولوں کی بحالی اور نو بنیادی مراکز صحت شامل ہیں۔
"کمیونٹی کی دیگر ترقیاتی سکیموں میں پینے کے پانی کی فراہمی، آبپاشی کے ٹیوب ویل، کھیت سے منڈی تک سڑکیں، واٹر کورسز کی لائننگ، نکاسی آب کے ساتھ گلیاں پختہ کرنے جیسے 166 چھوٹے منصوبے شامل ہیں۔"
ان سکیموں کی نگرانی کے لیے متعلقہ علاقوں میں کمیونٹی سپورٹ پروگرام کونسلز تشکیل دی گئیں جن میں سے ہر ایک کا سر براہ مقامی لوگوں میں سے منتخب کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں پر منصوبے کے مثبت اثرات
شاہ عالم، کمیونٹی سپورٹ پروگرام میں بطور سوشل ویلفئیر اینڈ ڈیویلپمنٹ ایکسپرٹ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ٹرانسمیشن لائن کے دائیں بائیں دو کلومیٹر کے اندر رہائش پذیر لوگوں کو سکولوں اور آبپاشی ٹیوب ویلز کے لیے شمسی توانائی کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
"خواتین کو ہنرمند بنانے کے مراکز، نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر اور کمیونٹی ہالز کی تعمیر کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ان اضلاع میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ان سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ ان منصوبوں کے لیے ایک کروڑ پانچ لاکھ ڈالر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ملٹی ڈونر فنڈ میں رکھے گئے جبکہ 20 لاکھ ڈالر 'کاسا ملٹی ڈونر ٹرسٹ فنڈ' سے مختص کیے گئے تھے جو کمیونٹی کونسلز کی تربیت وغیرہ پر خرچ کیے گئے ہیں۔
ضلع نوشہرہ کی یونین کونسل جلوزئی میں واقع گاؤں شیخان کے کاشتکار گل محمد کاسا منصوبے سے بہت خوش ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ترقیاتی پروگرام سے ان کی وہ زرعی اراضی سیراب ہوئی ہے جو برسوں سے بنجر پڑی تھی۔ اب اسی زمین پر آلو کی کاشت سے انہیں اچھا منافع حاصل ہوا۔
"ہمارا گاؤں کاسا 1000کی سپلائی لائن کے قریب ہے جہاں پی سی ایس پی کے تحت نہ صرف 500 فٹ گہرے ٹیوب ویل لگائے گئے بلکہ 36 ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل بھی کیا گیا جس سے یہاں 30 ایکڑ اراضی دوبارہ آباد ہو گئی ہے۔"
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے سید میر آفریدی مقامی ترقیاتی کونسل کے ممبر تھے۔ وہ بتاتے ہں کہ ان کے گاؤں میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے برساتے نالے پر حفاظتی پشتے تعمیر کیے گئے، گلیاں پختہ کی گئیں اور پینے کا صاف پانی فراہم کیا گیا ہے۔
تاہم لنڈی کوتل کے گاؤں پسدخیل سمیت کچھ دیہات میں ایک بھی ترقیاتی سکیم نہیں دی گئی جبکہ ان عوامی سکیموں کے لیے مختص رقم میں سے تقریباً چار ملین ڈالر خرچ ہی نہیں کیے جا سکے۔
پی سی ایس پی کے ذمہ داران تصدیق کرتے ہیں کہ ایسے 25 دیہات کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں مقررہ مدت ختم ہو نے کے باعث ترقیاتی کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
زمینوں کے معاوضے کی ادائیگی اور شکایات
ٹرانسمینشن لائن کی تعمیر کے لیے حاصل کی گئی اراضی کے معاوضے کی نگرانی کے لیے بھی گاؤں کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، شاکر خان آفریدی لنڈی کوتل میں گاؤں نیک خیل کی ایسی ہی کمیٹی کے سربراہ تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ٹرانسمیشن کے ہر ٹاور کے لیے پانچ مرلے زمین درکار تھی جس کے مالکان کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے کے حساب سے ادائیگی بذریعہ چیک کی گئی جبکہ پہاڑوں پر نصب کیے جانے والے ٹاورز کی زمین کے معاوضے کے لیے قبیلے کے کئی افراد نے پیسے وصول کیے۔
نوشہرہ کے علاقے جلوزئی کے رہائشی اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں بجلی کے سات ٹاور لگائے گئے ہیں جن کی وجہ سےکچھ افراد اپنی پوری ملکیت سے محروم ہو گئے۔ لیکن ان میں سے چند کو معاوضہ ملا اور باقی دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں۔
"حکومت متاثرہ لوگوں کو بہتر معاوضہ دے تاکہ وہ اپنے گھر یا کاشتکاری کے لیے متبادل زمین خرید سکیں۔"
پاکستان میں کاسا ٹرانسمشن لائن کی تعمیر کی ذمہ داری نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی لمیٹڈ (این ٹی ڈی سی) کے سپرد کی گئی ہے اور یہاں کی انوائرمینٹل اینڈ سوشل اسیسمنٹ رپورٹ بھی اسی نے ہی تیار کی تھی۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کاسا منصوبے سے کل 257 گھرانے متاثر ہوں گے جن میں سے 51 خاندان اپنی تقریباً 63 ایکڑ اراضی مستقل طور پر کھو رہے ہیں جبکہ تقریباً 111 ایکڑ رقبے پر ٹاور لگانے کے دوران 195خاندانوں کو فصلوں اور زمین کی ویلیو کم ہونے کا نقصان ہو گا۔ گیارہ گھرانوں کی بنجر زمین/چراہ گاہیں متاثر ہوں گی۔
این ٹی ڈی سی کے مطابق نجی مالکان سے زمین خیبرپختونخوا لینڈ ایکوزیشن (ترمیمی) ایکٹ کے تحت حاصل کی جائے گی۔ گھروں و فصلوں کے نقصان کا معاوضہ اور زمین کی ویلیو کم ہونے کا سپورٹ الاؤنس دیا جائے گا۔ یوں ازالے کی مد میں مجموعی رقم تقریباً 39 کروڑ 27 لاکھ روپے بنتی ہے۔
تاہم اب تک کتنے لوگوں کو ادائیگیاں کی گئی ہیں ان کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں
بےقابو لائن لاسز یا بجلی چوری کی سزا بل ادا کرنے والے کیوں بھگت رہے ہیں؟
این ٹی ڈی سی ذرائع کے مطابق پاکستان کی حدود میں کل 462 میں سے 376 ٹاور نصب کیے جا چکے ہیں جبکہ لنڈی کوتل میں بعض مسائل کے بنا پر آٹھ ٹاورز پر کام نہیں کیا گیا۔
لنڈی کوتل میں معاوضے کی عدم ادائیگی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گھروں کے قریب کیکر کے درختوں کا 80 ہزار روپے معاوضہ تو دیا گیا ہے مگر زمین اور پہاڑ کی کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔
جمرود کے علاقے علی مسجد اور باڑہ میں کچھ ٹاورز کے بعض حصے چوری ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے تھے جس کے بعد حکام نے ٹاورز پر تار بچھانے کے کام مؤخر کر دیا اور کہا کہ جب تک افغانستان میں منصوبہ مکمل نہیں کیا جاتا یہاں بھی زیرالتو رہے گا۔
اگست 2021ء میں کاسا منصوبے پر کام رکنے سے پہلے افغانستان میں ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے لیے درکار 95 فیصد سامان اور آلات فراہم کیے جا چکے تھے مگر 18 فیصد کام ہی ہو پایا تھا۔
افغانستان میں بجلی سپلائی کرنے والے ادارے کے ترجمان حکمت اللہ میوندی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ طالبان حکومت پر عالمی پابندیوں کے باعث بیرونی امداد سے جاری منصوبوں پر کام بند کیا گیا جن میں کاسا منصوبہ بھی شامل تھا۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں ٹرانسمشن لائن کے 300 سے زائد ٹاور نصب کیے جا چکے ہیں۔ یہاں تعمیراتی کام میں کوئی رکاٹ نہیں البتہ مالی اداروں کی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے کام بند کرنا پڑا۔
رواں سال 23 فروری کو ورلڈ بینک نے افغانستان میں کاسا منصوبے کی بحالی کے لیے خصوصی بندوبست کے ذریعے فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت تعمیراتی کام کی ادائیگیوں سے طالبان عبوری حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہو گا اور تعمیراتی کمپنیوں کو ادائیگیاں افغانستان سے باہر کی جائیں گی۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان، کرغزستان اور تاجکستان میں منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھا تھا اور تینوں ملکوں میں تعمیراتی کام تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔ توقع ہے کہ افغانستان میں کاسا منصوبے کے تعمیراتی کام میں تین سال لگیں گے جس کے بعد اس کو فعال کرنے کا مرحلہ آئے گا۔
تاریخ اشاعت 10 جولائی 2024