"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

postImg

اشفاق لغاری

postImg

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

اشفاق لغاری

انتالیس سالہ روی تنبولی، حیدرآباد کی غریب آباد کالونی کے رہائشی ہیں۔ گیارہ اگست 2022ء کا دن ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا جسے آج بھی جب وہ یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ رکھشا بندھن کا تہوار قریب تھا اس لیے ان کی بہنیں اور دیگر عزیز و اقارب گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ اور ان کے بیوی بچے اوپر والے پورشن میں رہ رہے تھے جبکہ ان کے والدین اور چھوٹے بھائی ساگر کی فیملی گھر کے نچلے حصے میں ر ہتے تھے۔

 انہوں نے بتایا  کہ اس روز ان کے بھائی ساگر حسب معمول رات کی ڈیوٹی کر کے صبح سات بجے گھر پہنچے تو انہوں نے اپنی بیوی کو چائے بنانے کا کہا۔

"بھابی نے جونہی گیس والے چولہے کو دیاسلائی دکھائی پورا گھر دھماکے سے لرز اٹھا جس سے نچلے حصے میں موجود تمام گیارہ افراد آگ میں بری طرح جھلس گئے۔ تاہم اوپر کے پورشن موجود تمام لوگ محفوظ رہے۔"

جھلسنے والوں میں روی کے والد، والدہ، ایک بہن اور اس کے تین بچے، بھائی، بھابھی اور ان کے دو بچوں کے ساتھ بھابھی کی بہن بھی شامل تھے۔

زخمیوں کو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال المعروف لال بتی حیدرآباد کے برن وارڈ پہنچایا گیا جہاں روی تنبولی نہ صرف خود ملازم ہیں بلکہ اس ہسپتال کی پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ لال بتی کے برن وارڈ میں ایمرجنسی سہولیات میسر نہ ہونے پر تمام گیارہ متاثرین کو ایمبولینسز میں ڈال کر برن سنٹر کراچی منتقل کر دیا گیا۔

تاہم وہاں ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد ہسپتال والے ایک ایک گھر والے کے مرنے کا اطلاع دیتے رہے۔

"میرا بھائی ساگر کم متاثر ہوا تھا۔ انہیں ہم کراچی برن سنٹر والوں کے مشورے پر واپس لال بتی برن وارڈ لے آئے۔ یہاں بہتر علاج نہ ہونے پر ان کے زخم خراب ہوگئے جس کو ہم واپس کراچی لے گئے مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔"

یوں گیارہ کے گیارہ افراد میں سے کوئی بھی جانبر نہ ہو سکا۔

وہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں بلکہ یہ ڈیتھ وارڈ ہے جہاں مریضوں کو آہستہ آہستہ مرنے کے لیے داخل کیا جاتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق جلنے یا جھلسنے کاعمل تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب جلد کے خلیات (سیلز) کی کچھ یا تمام تہیں گرم مائع گرنے، گرم ٹھوس کے چھونے یا جلتے شعلے کی لپیٹ میں آکر تباہ ہو جاتے ہیں۔

"لوگوں کا جھلس جانا دنیا بھر میں صحت عامہ کا سنگین مسئلہ ہے۔ صرف آگ لگنے کے واقعات میں سالانہ ایک لاکھ 95 ہزار سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ تابکاری، بجلی یا کیمیکلز کی وجہ سے جھلسنے اور دھوئیں سے دم گھٹنے کو بھی جلنا شمار جاتا ہے۔

عالمی ادارہ کہتا ہے کہ آگ لگنے کے 95 فیصد سے زیادہ مہلک واقعات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ہلاکتوں سب سے زیادہ شرح پانچ سال سے کم عمر کے بچوں اور 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔

" بڑا مسئلہ  یہ ہے کہ جلنے کی وجہ سے صرف ہلاکتیں ہی نہیں ہوتیں بلکہ لاکھوں لوگ عمر بھر کی معذوری کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش، کولمبیا، مصر اور پاکستان میں جھلسنے والے 17 فیصد بچے عارضی اور 18 فیصد مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔"

معروف پلاسٹک سرجن ڈاکٹر سید محمد طاہر 2018ء میں بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے جنہوں نے حیدرآباد میں برن وارڈ کی بنیاد رکھی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2001ء میں انہوں نے کافی جدوجہد کے بعد یہاں خودمختار برن وارڈ کی بنیاد رکھوائی تھی جس کی منصوبہ بندی میں ڈی کیئر، ہائی ڈپینڈنسی یونٹ(ایچ ڈی یو)، انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) اور مشینری سمیت تمام سہولیات شامل تھیں۔

سرکاری دستاویز کہتی ہیں کہ وارڈ کی تین منزلہ عمارت پر تقریباً چھ کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے گئے جبکہ اتنی ہی رقم طبی آلات اور مشینری کے لیے رکھی گئی تھی جس میں آئی سی یو بھی شامل تھا۔
تاہم اب یہاں ایچ ڈی یو ہے نہ آئی سی یو۔

عالمی ادارہ بتاتا ہے کہ  جلنے یا جھلسنے کی براہ راست نگہداشت پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ حالت زیادہ خراب ہو تو خرچ بڑھ جاتا ہے۔

ادارے کے مطابق 2014ء میں برس کیسوں میں مریض کی دیکھ بھال پر اوسطاً 22ہزار امریکی ڈالر کے اخراجات ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم سے کم اخراجات 704 ڈالر سے اور زیادہ سے زیادہ  سات لاکھ 17 ہزار ڈالر سے زائد کا تخمینہ ہے۔

اتنے اخرجات برداشت کرنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور لوگ بجا طور پر حکومت سے علاج کی توقع رکھتے ہیں۔

 سندھ کی لگ بھگ پانچ کروڑ 57 لاکھ آبادی میں سے تقریباً دو کروڑ چار لاکھ لوگ  کراچی اور تین کروڑ 53 لاکھ صوبے کے دیگر شہروں اور دیہات میں رہتے ہیں۔

تاہم صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں سے صرف ایک ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی کے برن سینٹر میں آئی سی یو کی سہولت موجود ہے۔ یہاں کل 21 بستر ہیں۔ ان میں سے چھ بچوں، سات خواتین اور نو مردوں کے لیے مختص ہیں۔

برن سنٹر کے رجسٹرار ڈاکٹر روشن رسول چانڈیو تصدیق کرتے ہیں کہ پورے صوبے کے صرف دو سرکاری ہسپتالوں لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد اور سول ہسپتال کراچی میں برن وارڈز بنائے گئے ہیں۔ تاہم برن آئی سی یو کی سہولت صرف کراچی میں میسر ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سندھ کے دیگر علاقوں میں جھلسنے والے مریضوں کی بڑی تعداد حیدرآباد پہنچتی ہے جہاں 70 کے قریب مریض داخل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے مگر وہاں نہ تو مطلوبہ تعداد میں عملہ ہے اور نہ ہی سہولیات میسر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر مریض کا چہرا، سینہ، گردن اور پرائیویٹ پارٹس وغیرہ جیسے حصے جھلس گئے ہوں تو اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے جو آئی سی یو میں ہی میسر ہوتا ہے۔

"حیدر آباد برن وارڈ میں آئی سی یو نہ ہونے کی وجہ سے 15 فیصد جھلسے بچوں اور 30 فیصد سے زیادہ جھلسے بڑوں کو وہاں سے کراچی منتقل کر دیا جاتا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ رواں سال 30 مئی کو حیدرآباد میں جب گیس سلنڈر سے دھماکا ہوا تو اس وقت بھی صورت حال گھمبیر تھی کیونکہ 60 متاثرین کو حیدرآباد میں رکھنا ناممکن تھا۔ ان میں زیادہ تر بچے تھے جو فوت ہو گئے۔

 برن سنٹر کراچی سے ملنے والے ریکارڈ کے مطابق یہاں گزشتہ سال ایک ہزار 158 مریض آئے جن میں سے 398 کی زندگی ہار گئے، صرف 913 مریضوں کو  داخل کیا گیا ان میں سے 321 دم توڑ گئے۔

لال بتی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران 235 مریض علاج کے لیےکراچی برن سنٹر بھیجے گئے۔ رواں سال 23 اکتوبر تک 227 مریضوں کو کراچی منتقل کیا گیا ہے۔

 برن وارڈ حیدر آباد میں رواں سال کل 499 مریض داخل ہوئے۔ ریکارڈ کے مطابق 387 علاج کے بعد چھٹی دی گئی اور 36 جانبر نہ ہو سکے۔

"گیارہ مریض ڈاکٹروں کی مرضی کے برعکس چلے گئے، 50 کو لواحقین کی "درخواست" پر ڈسچارج کیا گیا جبکہ 15 کو مزید علاج کے لیے کراچی ریفر کر دیا گیا۔

لال بتی میں تعینات ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ یہاں برن وارڈ سے کراچی بھیجے جانے والے بیشتر مریضوں کو ریکارڈ میں درخواست کر کے جانے والوں (ڈسچارج آن ریکوئسٹ) کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

اس بات کی تصدیق ضلع بدین کے رہائشی اختر علی بھی کرتے ہیں جو آگ سے جھلسے اپنے بھائی اطہر علی کو تین ستمبر کو 50 کلو میٹر دور لال بتی لائے تھے۔

 "ہم بھائی کو ایمر جنسی سے برن وارڈ تک لانے کے لیے وہیل چیئر یا سٹریچر کا نصف گھنٹہ انتظار کرتے رہے اور بالآخر سیلانی ٹرسٹ والوں سے وہیل چیئر ملی۔"

وہ بتاتے ہیں کہ چھ ستمبر کو جب انہیں بھائی کو  کراچی لے جانے کا مشورہ دیا گیا تو عملے نے مریض کو ریفر نہیں کیا بلکہ فائل میں 'ڈسچارج آن ریکوئسٹ' لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لال بتی برن وارڈ میں شام پانچ بجے کے بعد بس ایک ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر دکھائی دیتے ہیں۔

لال بتی حیدرآباد کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد علی قائم خانی پلاسٹک سرجن ہیں جو طویل عرصہ برن وارڈ میں بطور  اے ایم ایس خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے 22 اکتوبر کو ہی اپنے نئے عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگر مریض کے جسم کا 30 فیصد حصہ جل جائے تو اسے آئی سی یو کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ان کے بقول ان کے وارڈ میں تین وینٹی لیٹر موجود ہیں مگر آئی سی یو کو فعال کرنے کے لیے ڈاکٹر اور عملہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"خیراتی ہسپتال کے عملے نے شاپر میں بچے کا دھڑ تھما کر کہا فوراً مٹھی ہسپتال جائیں، مریضہ کی حالت نازک ہے"

وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے سوا پورے صوبے سے مریض علاج کے لیے حیدرآباد کے اسی ہسپتال میں آتے ہیں۔ یہاں رش زیادہ ہے مریضوں کے لحاظ سے ڈاکٹر، عملہ اور سہولیات بہت کم ہیں۔

"برن وارڈ میں کل 10 میڈیکل افسروں، پانچ ویمن میڈیکل آفیسرز، انستھیزیا کے ڈاکٹر کی ایک اور پلاسٹک سرجنز کی چار اسامیاں ہیں۔ تاہم اس وقت آٹھ میڈیکل افسر، چار کنسلٹنٹ، سات پی جی آر(پوسٹ گریجویٹ ) اور چار ہاؤس جاب کرنے والے(ٹرینی) ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ خالی اسامیوں پر جلد تقرر ہوگا۔

"میری کوشش ہے کہ برن وارڈ کی تیسری منزل جو دانتوں کے وارڈ والوں کے استعمال میں ہے، کو خالی کرایا جائے۔ اوپر چوتھی منزل بنوا کر دونوں منزلوں پر ایچ ڈی یو اور آئی سی یو کے انتظامات کیے جائیں۔

تاہم برن وارڈ کی ایک خاتون اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں آپریشنز کے بعد طبی آلات 16، 16 گھنٹے تھیٹر میں ہی پڑے رہتے ہیں ان کی روز صفائی نہیں ہو پاتی تو وارڈ کی حالت کیا سدھرے گی؟

"برنس وارڈ کی لفٹ بند پڑی ہے۔ میں نے جھلسے ہوئے مریضوں کے لواحقین کو انہیں کندھے اور بازوؤں پر اٹھائے کئی بار سیڑھیاں چڑھتے اترتے دیکھا ہے۔"

تاریخ اشاعت 31 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.