17دسمبر 2018 کو برطانیا کی ثالثی عدالت نے پاکستان کو حکم دیا کہ وہ بدعنوان پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثہ جات کا پتہ چلانے والی برطانوی جزیرے آئل آف مین کی کمپنی براڈ شیٹ کو ہرجانے کے طور پر دو کروڑ پندرہ لاکھ نواسی ہزار چار سو ساٹھ ڈالر ادا کرے۔ اس رقم کی ادائیگی میں تاخیر پر پاکستان کو روزانہ سود بھی دینا تھا۔
پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستانیوں کے بیرون ملک مبینہ ناجائز اثاثوں کا پتہ چلانے کے لیے 2000 میں براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں۔ تاہم 2003 میں نیب نے اس کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا جس پر کمپنی نے ثالثی عدالت میں دعویٰ کیا کہ نیب نے یہ معاہدہ غیر قانونی طور پر توڑا لہٰذا اس اقدام کے نتیجے میں اسے پہنچنے والے مالی نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ اس دعوے پر عدالت نے 2016 میں براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ دیا۔
نیب نے اسی کام کے لیے براڈ شیٹ کے علاوہ ایسٹس ریکوری انٹرنیشنل (آئی اے آر) نامی کمپنی سے بھی معاہدہ کیا۔ تاہم نیب نے یہ دونوں معاہدے 2003 میں منسوخ کر دیے جس کے بعد ان کمپنیوں نے نیب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔
کچھ سالوں کی رسی کشی کے بعد نیب نے دونوں کمپنیوں سے تصفیے کا فیصلہ کیا اور گفت و شنید کے بعد 2008 میں آئی اے آر کو 15 لاکھ پاؤنڈ جبکہ براڈ شیٹ کو 15 لاکھ ڈالر ادا کر دیے۔ اگرچہ اس وقت براڈ شیٹ کی قانونی حیثیت تبدیل ہو چکی تھی اور آئل آف مین کی ایک عدالت اس کی تحلیل کا حکم دے چکی تھی اس کے باوجود نیب نے اسی نام سے بنائی گئی ایک امریکی کمپنی کے مالک جیری جیمز کو تصفیے کی رقم ادا کر دی۔ اصل براڈ شیٹ کو اسی دوران آئی اے آر کے مالکان کاوے موساوی اور ڈاکٹر ولیم پیپر نے خرید لیا۔ انہوں نے ہی بالاآخر 2009 میں نیب سے ہرجانے کی رقم کے حصول کے لیے ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیب نے آئی اے آر کو تصفیے کے لیے جو رقم ادا کی تھی اسے کبھی ظاہر ہی نہیں کیا تھا۔ یہ رقم اس وقت سامنے آئی جب ثالثی عدالت کے جج سر انتھونی ایونز نے عدالتی کارروائی میں اس کمپنی کو نیب کی طرف سے کی گئی ادائیگی کو مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنایا۔ چونکہ ثالثی عدالت میں چلنے والا مقدمہ آئی اے آر سے متعلق نہیں تھا اس لیے اس حوالے سے عدالت نے اس معاملے پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی۔
شریف خاندان کے بیرون ملک سامنے لائے جانے والے اثاثوں میں براڈ شیٹ کے حصے کا تعین کرتے ہوئے ثالثی عدالت نے طے کیا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں دی گئی مالیت پر براڈ شیٹ کا حصہ 19 کروڑ ڈالر سے زیادہ بنتا ہے لیکن نہ تو ان اثاثوں کی مالیت کا تعین حتمی طور پر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حکومت پاکستان ان تمام اثاثوں کو مکمل طور پر واپس لینے کی قانونی صلاحیت رکھتی ہے۔
براڈ شیٹ نے ثالثی عدالت کو بتایا کہ وہ ان فہرستوں میں شامل تین طرح کے لوگوں سے پیسوں کی وصولی کی حق دار ہے۔
1۔ جن سے نیب نے بدعنوانی کے ذریعے بنائی ہوئی رقم واپس لی اور وہ رقم نیب کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو گئی۔
2۔جن سے بدعنوانی کا پیسہ براڈ شیٹ کی کاوشوں سے واپس لیا گیا۔
3۔ وہ 'رجسٹرڈ اہداف' جن کے بدعنوانی سے بنے ہوئے اثاثے ان کے اور نیب کے درمیان مصالحت کے نتیجے میں واپس لیے گئے۔
یہ 'رجسٹرڈ اہداف' وہ لوگ تھے جن کے اثاثے براڈ شیٹ نے ڈھونڈنا اور واپس لانا تھے۔
جن کیسز کی بنیاد پر براڈ شیٹ کو ہرجانے کا حق دار ٹھہرایا گیا انہیں ثالثی عدالت کے فیصلے کی رو سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے حصے میں وہ کیس/افراد آتے ہیں جو نیب کے رجسٹرڈ اہداف میں شامل تھے لیکن ان سے براڈ شیٹ اور نیب کے درمیان معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد پیسے حاصل کیے گئے۔ ان معاملات میں ثالثی عدالت نے براڈ شیٹ کو ذیل میں دی گئی رقوم کا حق دار ٹھہرایا۔
1۔ شون گروپ: 48,760 ڈالر اور لاکھانی گروپ: 25,000 ڈالر
2۔ فوزی علی کاظمی: 85,600 ڈالر
3۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زاہد علی اکبر: 381,600 ڈالر
دوسرے حصے میں ایسے کیس/افراد شامل ہیں جن کے بارے میں براڈ شیٹ کا کہنا تھا کہ ان سے مستقبل میں پیسے واپس لیے جانے کا امکان تھا۔ نیب نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہی ان کے خلاف تحقیقات روک دی تھیں۔ ایسے کیسز میں ثالثی عدالت کے مطابق براڈ شیٹ کا حصہ درج ذیل ہے:
1۔ آفتاب احمد شیرپاؤ: 210,000 ڈالر
2۔ جمیل انصاری: 338,500 ڈالر
3۔ شریف خاندان/ایون فیلڈ اپارٹمنٹس: 1,500,000 ڈالر
شریف خاندان/ دیگر اثاثے: 19,000,000 ڈالر
براڈ شیٹ کا مجموعی حصہ: 21,589,460 ڈالر
چونکہ پاکستان/ نیب یہ کیس ہار چکا ہے اس لیے عدالتی کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات بھی اسے ہی دینا ہیں۔
اگر اس رقم میں ثالثی عدالت کے فیصلے کے وقت (نومبر 2018) سے لے کر پاکستان کی طرف سے رقم کی ادائیگی کی تاریخ (17 نومبر 2020) تک روزانہ کی بنیاد پر 4758 ڈالر سود شامل کیا جائے تو یہ رقم دو کروڑ ستاسی لاکھ چھ ہزار پانچ سو تینتیس ڈالر بنتی ہے جو برطانیا میں پاکستان کے ہائی کمیشن کے اکاؤںٹ سے وصول کی جا چکی ہے۔
ثالثی عدالت کے فیصلے میں شریف خاندان کے اثاثہ جات اور نیب کی ان کے خلاف کارروائی کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ شریف خاندان کے کل اثاثہ جات کی مالیت بیاسی کروڑ ڈالر ہے اگرچہ اس میں لندن فلیٹس کی مالیت شامل نہیں جو تیرہ کروڑ ڈالر بنتی ہے۔
ان اثاثوں میں براڈ شیٹ کے حصے کا تعین کرتے ہوئے ثالثی عدالت نے ایک تفصیلی طریقہ کار اختیار کیا اور بالاخر طے کیا کہ ان اثاثوں کی جے آئی ٹی کی تحقیقات میں دی گئی مجموعی مالیت پر اگرچہ براڈ شیٹ کا حصہ انیس کروڑ ڈالر سے زیادہ بنتا ہے لیکن نہ تو ان اثاثوں کی مالیت کا تعین حتمی طور پر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حکومت پاکستان ان تمام اثاثوں کو مکمل طور پر واپس لینے کی قانونی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے اس حوالے سے حتمی ہرجانے کا تعین ایک کروڑ نوے لاکھ ڈالر کیا گیا۔
چونکہ پاکستان/ نیب یہ کیس ہار چکا ہے اس لیے عدالتی کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات بھی اسے ہی دینا ہیں۔ یہ رقم قریباً بائیس لاکھ ڈالر بنتی ہے جو ابھی ادا کی جانا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے براڈ شیٹ کو بھی اس کے قانونی اخراجات پر اٹھنے والی رقم دینا ہے جو سات لاکھ اکیانوے ہزار ایک سو ننانوے ڈالر بنتی ہے جبکہ ثالثی عدالت میں نمائندگی کے لیے پاکستان کے وکلا کو دی جانے والی فیسیں اس کے علاوہ ہیں جو کم از کم اتنی تو ضرور ہیں جتنی براڈ شیٹ نے اپنے وکیلوں کو ادا کی ہیں۔
ان تمام ادائیگیوں کی بنیاد پر پاکستان کے اس قضیے پر آنے والے تمام اخراجات کی تفصیل درج ذیل ہے:
غیرملکی کرنسیوں کی آج کی قیمتوں کے مطابق یہ رقم پانچ ارب اناسی کروڑ بیاسی لاکھ اٹھائیس ہزار نو سو ساٹھ روپے بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ مالی سال میں پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں سرکاری سکولوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ محض تین ارب اڑتیس کروڑ روپے ہے۔ گویا یہ رقم ان سکولوں کو ایک سال اور لگ بھگ نو ماہ چلا سکتی تھی۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 10 فروری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جنوری 2022