اٹھارہ سالہ راول مسیح اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے تھے۔ سترہ اپریل کو بھٹی میں کوئلہ ڈال رہے تھے۔ اس دوران مین ہول کا ڈھکن ٹوٹ گیا اور وہ دھکتی بھٹی میں جا گرے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق حادثہ آدھی رات کے بعد پیش آیا تھا۔ ریسکیو ٹیم چند منٹ کے اندر موقع پر پہنچ گئی تھی لیکن اس وقت تک راول مسیح کی لاش جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد زاہد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بھٹی میں دہکتی آگ کے شعلے کئی فٹ بلند تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے لیے لاش نکالنا ممکن نہیں تھا۔
یہ واقعہ فیصل آباد کے نواحی چک 225 آر بی ملکھانوالہ کا ہے۔
پچاس سالہ خورشید مسیح اپنے جوان بیٹے کی المناک موت کے بعد اپنے گھرانے کے واحد کفیل ہیں جس میں ان کی اہلیہ اور تین چھوٹے بچے شامل ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب سے ان کے بیٹے کی جان گئی ہے ان کے شب و روز اپنے بیٹے کی موت کے ذمہ داروں سے انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے گزر رہے ہیں۔
"ایک تو جوان بیٹے کی موت نے میری کمر توڑ دی اور اب گھر میں کھانے کو روکھی سوکھی بھی نہیں رہی اور نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔"
خورشید مسیح کے مطابق جب وہ اپنے بیٹے کی لاش لینے کے لیے بھٹے پر گئے تو انہیں اپنے بیٹے کی جلی ہوئی ہڈیاں دینے سے پہلے سادہ کاغذات پر انگوٹھے لگانے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کر سکیں۔
"میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگا لگا کر تھک گیا ہوں لیکن کوئی نہیں سنتا، شاید وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے، ہم ان کی نظروں میں کیڑے مکوڑے ہیں جن کی موت سے کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔"
راول مسیح کی موت پر ورثاء کی مالی امداد اور اینٹوں کے بھٹوں پر حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے مزدور تنظیمیں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے احتجاج بھی کر چکی ہیں لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔
لیبر قومی موومنٹ کے صدر بابا عبدالطیف نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ راول کے اہلخانہ کو معاوضہ دلوانے کے لیے ڈائریکٹر لیبر ایسٹ سید غضنفر علی شاہ سے متعدد ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں لیکن لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چک 225 آر بی میں بھٹہ مزدور غلاموں سے بھی بدتر حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
"یہ علاقہ مزدور تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے نوگو ایریا بنا ہوا ہے جہاں بھٹہ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے یونین سازی کے حق سے محروم رکھنے کے علاوہ سب سے کم اجرت پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔"
انہوں نے الزام لگایا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ، سوشل سکیورٹی کا محکمہ اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بنی ہوئی ڈسٹرکٹ ویجلنس کمیٹی بوگس رپورٹیں تیار کرنے کے علاوہ بھٹہ مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہیں۔
بابا عبدالطیف کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں پر حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی کے باعث ہونے والے حادثات میں مزدوروں کے مرنے یا زخمی ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
"پچھلے ایک ماہ میں اینٹوں کے بھٹوں پر چار انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جن میں ایک بھٹہ مزدور کے دو بچے بھی شامل ہیں جو اینٹیں بنانے کے لیے جمع کی گئی مٹی کا تودہ گرنے سے اس کے نیچے دب کر جاں بحق ہو گئے تھے۔"
انہوں نے بتایا کہ تاحال پولیس نے ان میں کسی حادثے پر بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی بھٹہ مالکان یا لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔
اگرچہ بھٹہ خشت کا کاروبار صدیوں پرانا ہے لیکن اسے آج بھی پاکستان میں انفارمل سیکٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔
پنجاب کے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے آج تک بھٹے میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی سیفٹی گائیڈ لائنز یا قواعد وضوابط نہیں بنائے، نہ ہی بھٹوں کی انسپکشن کے وقت سیفٹی اقدامات کو چیک کیا جاتا ہے۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار چائلڈ لیبر اور مزدوروں کو درپیش صحت کے مسائل کی مانیٹرنگ تک محدود ہے۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کئے گئے ایک سروے میں 72 فیصد بھٹہ مزدوروں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کے حالات کار کو کسی سرکاری ادارے یا نان گورنمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے مانیٹر نہیں کیا جاتا ہے۔
سروے میں 87 فیصد افراد نے کام کے حالات کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں سے 61 فیصد افراد نے صحت سے متعلق سہولیات کی دستیابی پر بھی زور دیا ہے۔
وفاقی وزارت ماحولیات، پنجاب حکومت اور بھٹہ مالکان کی ایسوسی ایشن و دیگر اداروں کے اشتراک سے ہونے والے ایک سروے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں پر درپیش پیشہ ورانہ خطرات کے باوجود زیادہ تر مزدور حفاظتی اقدامات اور سامان سے محروم ہیں۔
سروے کے مطابق بھٹی میں کوئلہ ڈالنے والے مزدوروں کو زیادہ درجہ حرارت کے باعث آگ، دھویں اور دھول سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ جلنے، کٹنے اور زخمی ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
اس رپورٹ میں کوئلہ ڈالنے والے مزدوروں کے لیے ماسک، حفاظتی دستانے، جوتے، چشمے اور ہیلمٹ کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے۔
حفاظتی لباس نہ استعمال کرنے سے بھٹہ مزدوروں میں سانس کی بیماریاں پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کیونکہ وہ دھول کے علاوہ کوئلے اور دیگر غیر معیاری ایندھن سے پیدا ہونے والے زہریلے دھوئیں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
اس بارے میں فیصل آباد کے ڈائریکٹر لیبر ایسٹ سید غضنفر علی شاہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر رائے یسین کھرل سے بارہا رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اینٹوں کے بھٹوں پر حفاظتی انتظامات سے متعلق قواعد وضوابط اور ان کی مانیٹرنگ سے متعلق لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کردار سے متعلق واضح جواب نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹے کا شعبہ نیشنل لیبر لا پروفائل کے تحت تجویز کردہ تمام پالیسیوں اور ضوابط پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
راول مسیح کے ورثاء کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق معاوضے سوال پر فیصل آباد کے کمشنر یاسر عرفات نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کمپنسیشن ایکٹ 1932ء کے تحت بھٹہ مالک کو پانچ لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی کے لیے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
"قانون کے مطابق معاوضے کی ادائیگی کے لیے 30 دن کی معیاد مقرر ہے جو ابھی پوری نہیں ہوئی، اگر 30 دن کے اندر معاوضے کی ادائیگی نہ ہوئی تو کیس ڈگری ہو کر ڈپٹی کمشنر کے پاس چلا جائے گا جس کے بعد ڈپٹی کمشنر معاوضے کی ادائیگی یقینی بنائے گا۔"
اس حادثے کا باعث بننے والے بھٹہ مالک کے خلاف قانونی کاروائی سے متعلق سوال پر پولیس ترجمان ملک شاہد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ افراد یا ان کے ورثاء بھٹہ مالکان سے معاوضہ لے کر قانونی کاروائی نہ کروانے کا تحریری بیان دے دیتے ہیں۔ جس کے بعد پولیس اتفاقی حادثے کی رپٹ لکھ کر معاملہ داخل دفتر کر دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر راول مسیح یا دیگر کسی مزدور کے ورثا بھٹہ مالک کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اب بھی متعلقہ تھانے میں درخواست دے سکتے ہیں جس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا اور ملزم متوفی کے ورثاء کو دیت کی رقم ادا کرنے کا پابند ہو گا۔
اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث پیش آنے والے حادثات کے علاوہ کم از کم اجرت، سوشل سکیورٹی اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
فیصل آباد بائی پاس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی 50 سالہ نذیراں بی بی بتاتی ہیں کہ پانچ افراد پر مشتمل ان کا خاندان کئی دہائیوں سے اینٹیں بنا رہا ہے۔
"ہم رات ایک بجے جب بھٹے پر اینٹیں بنانے کا کام شروع کرتے ہیں تو بچے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، رات کے اندھیرے میں سانپ یا کیڑوں مکوڑوں کے کاٹنے کی فکر رہتی ہے لیکن کام کرنا پڑتا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ان کا خاندان 12 گھنٹے میں تقریبا ایک ہزار سے 1200 تک اینٹیں تیار کرتا ہے جس کا معاوضہ انہیں ڈیڑھ روپیہ فی اینٹ کے حساب سے ادا کیا جاتا ہے۔
’’اس آمدنی میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھٹہ مالک سے قرض لینا پڑتا ہے جو کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا تا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی بھٹہ مزدور بیمار ہو جائے تو اسے چھٹی کی سہولت میسر نہیں ہوتی کیونکہ بھٹہ مزدور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور زیادہ تر کے سوشل سیکیورٹی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے ہیں۔
نذیراں بی بی کے مطابق بھٹہ مالکان کا بھٹہ مزدورں کے ساتھ غیر انسانی برتاو ان کے روئیے سے ظاہر ہوتا ہے۔
’’جب مزدور اپنی ہفتہ وار اجرت لینے بھٹہ مالک کے پاس جاتے ہیں تو وہ چارپائی پر بیٹھا ہوتا ہے اور مزدوروں کو زمین پر بٹھایا جاتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ یہ مزدوروں کی تذلیل کا ایک طریقہ ہے تاکہ وہ ہمیشہ مالکان سے خوفزدہ رہیں اور اپنے استحصال کے بارے میں بات نہ کریں۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سروے میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ بھٹہ مزدوروں کی اکثریت قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہونے کی وجہ سے خواہش کے باوجود یہ کام چھوڑنے کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔
سروے کے مطابق صرف 16 فیصد بھٹہ مزدوروں کے پاس تحریری معاہدہ ہے اور انہیں 11 سے 13 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔کام کی جگہ پر پینے کے پانی کے علاوہ کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔
اس سروے میں 16 فیصد مزدوروں نے ہراساں کرنے اور بچوں سے مار پیٹ کی بھی شکایت کی ہے جبکہ خواتین بھٹہ مزدوروں نے کام کی جگہ پر لیٹرین کی عدم موجودگی کے باعث درپیش مشکلات کا ذکر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں، زراعت اور گھریلو کام کاج کے شعبے میں جبری مشقت سب سے زیادہ ہے۔
وفاقی وزارت ماحولیات، پنجاب حکومت اور بھٹہ مالکان کی ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ہونے والے سروے کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 20 ہزار سے زائد اینٹوں کے بھٹے موجود ہیں جن میں سے 52 فیصد صوبہ پنجاب میں ہیں جبکہ بھٹہ مزدوروں کی مجموعی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'آتا ہے یاد مجھ کو سکول کا زمانہ': سرکاری محکموں کی لڑائی کے باعث بھٹہ مزدوروں کے بچے تعلیم سے محروم۔
غلامی کی زندگی گزارنے والے افراد سے متعلق عالمی درجہ بندی جاری کرنے والے ادارے واک فری کے دی گلوبل سلویری انڈیکس 2023ء کے مطابق پاکستان دنیا کا 18واں اور ایشیا کا چوتھا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے فیصل آباد میں نمائندے میاں فرمان علی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بھٹوں پر مزدورں کو درپیش خطرات سے بچاو کے لیے حفاظتی سامان اور دیگر سہولیات کی فراہمی بھٹہ مالکان کی ذاتی صوابدید پر منحصر ہے۔
"ایسوسی ایشن تمام ممبران پر مزدوروں کو حادثے کی صورت میں قانون کے مطابق فوری معاوضے کی ادائیگی کے علاوہ کام کے حالات کو بہتر بنانے پر زور دیتی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ بھٹہ مالکان کی ایسوسی ایشن متعدد مرتبہ حکومت سے یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے تاکہ بھٹہ مالکان اور مزدوروں کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ واضح قوانین کی عدم موجودگی کے باعث سرکاری محکموں کے اہلکاروں نے بھٹہ مالکان کو رشوت کی وصولی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور اسی وجہ سے بھٹہ مالکان کو مزدوروں کا استحصال کرنے کا موقع ملتا ہے۔
فروری 2020ء میں لاہور ہائیکورٹ نے صوبائی محکمہ محنت اور انسانی وسائل کو فیکٹریز ایکٹ 1934ء کے تحت صوبے میں تمام اینٹوں کے بھٹوں کی رجسٹریشن چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ اینٹوں کے بھٹے کی صنعت کو باضابطہ طور پر رجسٹر کرکے ریگولیٹ کیا جا سکے۔ تاہم اس فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
وفاقی وزارت ماحولیات، پنجاب حکومت اور بھٹہ مالکان کی ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ہونے والے سروے میں بھی اس شعبے کو منظم کرنے کے لیے حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں کو ایک صنعت کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ اس شعبے کو صنعتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ بھٹہ مزدوروں کی زندگیاں محفوظ بنانے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اینٹوں کے بھٹے کا روایتی ڈیزائن اور تعمیر تربیت یافتہ انجینئرز کی بجائے عام راج مستری کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اکثر بھٹوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور گرمی کے رساؤ کے باعث ایسے حادثات ہوتے ہیں جن میں راول مسیح جیسے مزدور اپنے زندگی گنوا بیٹھتے ہیں۔
رپورٹ میں اینٹوں کے بھٹوں کے ڈیزائن، تعمیر کے معیار اور درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے طریقوں کا معیار طے کرنے کے لیے قانون سازی پر بھی زور دیا گیا ہے۔
یہ اقدامات اس لحاظ سے بھی ضروری ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے اور بھٹہ مزدوروں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حادثات میں بھی۔
تاریخ اشاعت 1 مئی 2024