"جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہاں بچوں کی تعلیم کیسے ترجیح بن سکتی ہے؟"

postImg

فیصل شہزاد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہاں بچوں کی تعلیم کیسے ترجیح بن سکتی ہے؟"

فیصل شہزاد

loop

انگریزی میں پڑھیں

قمر مشانی کے شیر رسول سمیت علاقے کے بہت سے لوگوں نے نسل در نسل سے چلتی غربت کا چکر توڑنے کی کوشش کی تھی جو حکومت نے ناکام بنا دی ہے۔

شیر رسول میانوالی کی تحصیل عیسی' خیل سے 20 کلومیٹر دور، قمر فشانی میں ایک بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے بھی برسوں کی خاندانی "روایت" پر عمل کرکے  انہی کی طرح  اپنی ساری زندگی بھٹے میں جھونک دیں۔

حکومت کی جانب سے کنڈیشنل کیش ٹرانسفر پروگرام برائے تعلیم  کی سہولت سال 2016ء میں اُن کے علاقے تک پہنچی تو انہوں نے اپنے چاروں بچو ں کو سکول داخل کروا دیا تھا۔ لیکن یہ سکیم صرف پانچ سال تک چلی پائی۔

پنجاب لیبر اینڈ ہیومن ریسوس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ضلع میانوالی میں 150 اینٹوں کے بھٹے موجود ہیں جہاں 14 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ایک ہزار  342 ہے جن میں سے 362 بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔  

بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کے لیے تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے اور چائلڈ لیبر کے تدارک کے لئے مئی 2016 میں پنجاب حکومت نے صوبے میں کنڈیشنل کیش ٹرانسفر پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ 

اس پرواگرام کے تحت ہر بچے کو داخلے کے وقت دو ہزا ر روپے جبکہ ہر سہہ ماہی پر تین ہزار روپے کا وظیفہ دیا جاتا تھا ۔تاہم وظیفے کے حصول کے لئے بچے کی 75 فیصد حاضری کی شرط رکھی گئی تھی۔وظیفے کے لئے بھٹہ مزدور خاندانوں کو خدمت کارڈ جاری کئے گئے تھے۔

محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق پہلے سال میں اس پروگرام کے تحت 37 ہزار  سے زائد بچے سکولوں میں داخل ہوئے۔

ضلع میانوالی میں بھی اس سکیم کے تحت بھٹہ مزدوروں نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرایا۔ فوکل پرسن برک کلن کنڈیشنل کیش ٹرانسفر پروگرام، فضل الہی' ایک عرصے تک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میانوالی رہے ہیں۔ 

انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ سکیم شروع کی گئی تو ایک ہی سال میں میانوالی میں ایک ہزار سے زائد بچے سکولوں میں داخل ہوئے لیکن سکیم بند ہو جانے سے بچوں کی انرولمنٹ پر بہت اثر پڑا ہے۔

محکمہ تعلیم کا ضلعی دفتر بھی فضل الہیٰ کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔  محکمے کے مطابق سکیم بند ہوجانے سے بچوں تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے ، خصوصا 2021ء میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نے سکول کو خیرباد کہہ دیا اور صرف 180 بچے سکولوں میں رہ گئے۔

شیر رسول بے حد پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نےچار سال پیسے دئیے تو انہیں  بچوں کو پڑھانے میں کافی آسانی ہو گئی تھی، لیکن حکومت نے یہ ذریعہ بھی چھین لیا تو ان کے بچوں کے لیے سکول جانا ممکن نہیں رہا۔

میانوالی شہر سے 30 کلومیٹر دور ایک بھٹے پر کام  کرنے والے 43 سالہ الطاف بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ان کے پانچ بچے اب سکول نہیں جاتے۔
 

سماجی رہنما علی خان پائی خیل کا کہنا ہے، بھٹہ مزدوری غلامی کی ہی ایک شکل ہے۔ یہ مزدور پیشگی رقم کے ایسے چکر میں پھنسے ہوتے ہیں جس سے یہ نسلوں تک نکل نہیں پاتے۔

"جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہاں بچوں کی تعلیم ان کی ترجیح کیسے بن سکتی ہے؟" وہ کہتے ہیں کہ کنڈیشنل کیش ٹرانسفر پروگرام سے ملنے والی ماہانہ رقم سے مزدوروں کی معاشی مدد ہو رہی تھی اور بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے تھے، لیکن اس سکیم کے رکنے سے بچوں کی تعلیم بھی چھن گئی اور والدین کا آسرا بھی دم توڑ گیا۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میانوالی محمد خالد خان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے شروع ہونے سے کافی تعداد میں بچوں کو والدین نے سکول بھیجنا شروع کیا تھا کیونکہ مالی طور پر انہیں اس میں فائدہ نظر آتا تھا۔ مثال کے طور پر جس مزدور کے پانچ بچے سکول جاتے تھے اسے داخلے کے وقت یکدم 10 ہزار روپے اور ماہانہ پانچ ہزار روپے مل جاتے تھے جو ان کےلیے یہ بہت بڑی مدد تھی۔

انہوں نے بتا یا کہ حکوت پنجاب نے ورلڈ بنک اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر تین ارب کے اس پراجیکٹ کو 2021ء تک جا ری رکھا جب پروجیکٹ کا وقت ختم ہوا تو حکومت نے اسے جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی۔

لیبر انسپکٹر میانوالی محمد نوید کا کہنا ہے کہ 2016ء میں حکومت پنجاب نے پنجاب پروٹیکشن آف چائلڈ لیبر ایٹ برک کلن ایکٹ منظور کیا، جس کے تحت 14سا ل سے کم عمر بچے بھٹوں پر مزدوری نہیں کر سکتے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے والدین اور بھٹہ مالک دونوں کو کم سے کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا مل سکتی ہے۔ سزا کے ساتھ کم از کم 50 ہزار  اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'آتا ہے یاد مجھ کو سکول کا زمانہ': سرکاری محکموں کی لڑائی کے باعث بھٹہ مزدوروں کے بچے تعلیم سے محروم۔

"ہم اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے  بھٹوں پر چھاپے بھی مارتے رہتے ہیں، اس کے باوجود دو سے تین مہینوں کے دوران پانچ سے چھ ایسے کیس آجاتے ہیں"۔

ماہرِ تعلیم پروفیسر (ریٹائرڈ) غلام سرور خان نیازی نے اس حوالے سے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملک میں اس وقت لاکھوں بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں جن کے لیے شاید ہی کسی حکومت نے سنجیدہ پالیسی بنائی ہو۔ 

"کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم پانچ سال بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے لیے مالی معاونت کرتے رہے لیکن پھر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ان بچوں کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا گیا"۔ 

وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ اگر انہیں تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا تو ان کی زندگی انہیں بھٹوں پہ اینٹیں ڈھوتے گزر جائے گی۔

تاریخ اشاعت 8 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فیصل شہزاد کا تعلق میانوالی سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور گزشتہ 5 سال سے محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- رومانہ بشیر

آنند کارج شادی ایکٹ: کیا سکھ برادری کے بنیادی حقوق کو تحفظ مل جائے گا؟

پنجاب: سکھ میرج ایکٹ، آغاز سے نفاذ تک

thumb
سٹوری

"ستھرا پنجاب" کے ورکروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا ذمہ دار کون ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

سندھ: 'سب کچھ ثابت کر سکتے مگر اپنی بیوی کا شوہر ہونا ثابت نہیں کر سکے'

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

نمائندے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں، اقلیت راہ دیکھتی رہتی ہے

سندھ: ہندو میرج ایکٹ تو پاس ہو گیا مگر پنڈتوں کی رجسٹریشن کب ہو گی؟ نکاح نامہ کب تیار ہو گا؟

thumb
سٹوری

آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 4، وسیم نذیر

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 3، طلحہ سعید

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 2، میاں سلطان محمود

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.