رخسانہ کا تعلق گجرات سے ہے، ان کی عمر ستائیس برس اور وہ کینسر کی مریضہ ہیں۔ان کی شادی کو چار سال ہو چکے ہیں اور ان کا ایک بچہ بھی ہے۔ رخسانہ بتاتی ہیں جب ان میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تو انہیں احساس شرمندگی نے آن گھیرا، کیونکہ پہلی بار ان کے جسم کے بارے میں خاندان کے مرد اور عورتیں بات کر رہے تھے۔ انہیں شوہر اور ان کے بچے سے بھی دور کر دیا گیا کہ کہیں ان پر بیماری کا اثر نہ ہوجائے۔ حتٰی کہ گھر میں شوہر کی دوسری شادی کی باتیں بھی ہونے لگیں۔
"تیمارداری کرنے والی خواتین کا رویہ تکلیف دہ ہوتا وہ مجھے یوں محسوس کرواتیں جیسے میں ایک بری عورت ہوں اور بیماری کی شکل میں مجھے سزا مل رہی ہے۔"
چھاتی کا کینسر ایک عالمی اور اہم مسئلہ ہے اور پچھلی نصف صدی میں تیزی سے منظر عام پر آنے والی بیماریوں میں سے سرفہرست ہے۔
ڈاکٹر فضیلت گائناکالوجسٹ ہیں اور گجرات کے شفا ہسپتال میں 2018ء سے کام کر رہی ہیں۔ ان کے پاس جو خواتین آتی ہیں وہ انہیں بریسٹ کینسر کے حوالے سے بھی رہنمائی دیتی رہتی ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان میں اس مرض کے ساتھ شرم و حیا کا عنصر جڑا ہوا ہے، اس کے علاو خاتون ڈاکٹر کی عدم دستیابی، مریض کی طرف سے لاپروائی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے مرض کی بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی۔
"گجرات جیسے چھوٹے شہروں میں اگر کسی خاتون میں کینسر کی تشخیص ہو جاتی ہے تو بروقت علاج نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ اس بارے میں بات کرنے سے شرماتی ہیں، ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہوتے۔ اس مرض کے ساتھ ضیف العتقادی بھی جڑی ہے، وہ پیروں فقیروں سے دم کیے پانی پر اکتفا کرتی ہیں۔ اس دوران مرض بڑھتا رہتا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع گجرات کے تین ہسپتالوں میں کسی حد تک اسکریننگ یونٹس قائم تو ہیں مگر تربیت یافتہ افرادی قوت اور انفراسٹرکچر دونوں لحاظ سے بہت سی خامیاں موجود ہیں۔
ضلع گجرات میں عزیر بھٹی ہسپتال، ویمن کلینک ٹی ایچ کیو ڈنگا، ٹی ایچ کیو ہسپتال کھاریاں، سرائے عالمگیر اور میجر شبیر شریف شہید ٹی ایچ کیو ہسپتال کنجاہ کے ریکارڈ کے مطابق 2020ء سے 2023ء کے دوران 24 ہزار 202 خواتین کی سکرینگ کی گئی جن میں سے 789 خواتین میں چھاتی کے کینسر کی علامات دیکھی گئی۔ ہسپتال میں رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 267 ہے۔ یعنی علاج پر راضی ہونے والی مریضوں کا تناسب 30 فیصد سے بھی کم ہے۔
عزیز بھٹی شہید ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق 2020ء سے 2023ء تک کل 641 خواتین مریضوں کی سکرینگ کی گئی جن میں سے 89 خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ان میں سے 23خواتین نے علاج جاری رکھا جبکہ 57 خواتین تشخیص کے بعد غائب ہو گئیں۔ نو مریض خواتین جانبر نہ ہو سکیں۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے تقریباً ایک عورت چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ ہر 24 گھنٹے میں 109 خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ سالانہ 90 ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے 40 ہزار جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں متاثرہ خواتین کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب کینسر کافی حدتک بگڑ چکا ہوتا ہےاور علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔
جرنل آف کینسر پالیسی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق، سال 2020ء میں پاکستان میں خواتین میں چھاتی کے کینسرکے ایک لاکھ 78ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت کے ذیلی ادارے، انٹرنیشل کینسر ریسرچ ایجنسی کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال تقریباً 13 لاکھ 80 ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخص ہوتی ہے جن میں سے چار لاکھ 58 ہزار جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔
رقیہ بی بی گجرات کے نواحی گاؤں پھلاں کی رہائشی ہیں، ان کی عمر 47 برس ہے۔ چند سال پہلے ان میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ علاج کے بعد وہ ایک نارمل زندگی گزار رہی ہیں۔
" میری زندگی کامشکل ترین وقت تھا جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے چھاتی کا کینسر ہے۔ مجھے لگا اب چند دنوں میں، میں مر جاؤں گی تو بہتر ہے علاج پر اپنے گھروالوں کے پیسے ضائع نہ کرواؤں۔ اب میں اس ڈاکٹر کو دعائیں دیتی ہوں جنہوں نے مجھے علاج پر قائل کیا اور اب سرجری کے بعد میں ایک صحت مندانہ زندگی گزار رہی ہوں۔میرے جیسی کتنی ہی کم پڑھی لکھی خواتین اس مرض کا شکار ہوں گی جنہیں بالکل نہیں علم کہ اس بیماری کا علاج ممکن ہے"۔
پاکستان میں اس مرض کے علاج میں بڑی رکاوٹ ضیعف العتقادی بھی ہے۔
آمنہ کی عمر 34 برس ہے، ان کا تعلق گجرات شہر سے ہے، انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پہلے پہل جب انہوں نے اپنی چھاتی میں ایک گلٹی محسوس کی تو اپنی بہنوں اور کزنر کو اس بارے میں بتایا۔ ان کی ایک کزن نے انہیں روحانی علاج کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ ایسی کئی کہانیاں بھی سنائیں جن میں دم اور تعویزوں کے استعمال سے خواتین کو صحت یابی مل گئی تھی۔
"میں اس بیماری کے بارے صرف اتنا جانتی تھی اگر ڈاکٹری علاج کروایا جائے تو عورت کی چھاتیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔ اس ڈر سے میں چھ ماہ تک مختلف آستانوں پر جاتی رہی لیکن گلٹی سکڑنے کی بجائے پھیلتی رہی اور میری تکلیف دن بدن بڑھتی رہی۔"
یہ بھی پڑھیں
اپنا شریکِ درد بنائیں کسی کو کیا: چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کیسے گھٹ گھٹ کر مر رہی ہیں۔
ڈاکٹر نعمان عزیر بھٹی ہسپتال میں کیسنر وارڈ کے انچارج ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بیشتر خواتین مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا معیوب سمجھتی ہیں۔ان پر خاندان کی طرف سے بھی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ مرد معالج کے پاس نہیں جائیں گی۔ ایسی صورت میں اگر خاتون ڈاکٹر دستیاب نہ ہو تو علاج میں بہت دیر ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے اور عام طور پر کمآمدنی والے خاندان ان اخراجات کو برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنے درد کو چھپاتی ہیں۔
ڈاکٹر مائلہ کھاریاں ہسپتال میں ایم بی ایس جنرل سرجن ہیں اور کینسر ڈیپارٹمنٹ میں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
انہوں نےلوک سجاگ کو بتایا کہ خواتین میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔انہیں بتایا جائے کہ اس مرض کی بروقت تشخیص بہت ضروری ہے۔ وہ اپنا معائنہ خود سے کر سکتی ہیں اگر انہیں چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی یا ساخت میں تبدیلی محسوس ہو تو فورا ڈاکٹرسے رابطہ کرنا چاہیے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان میں اس بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محسن 2020ء سے اکرام ہسپتال گجرات میں آنکولوجسٹ کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ چھاتی کا کینسر خاموش مرض ہے۔ بعض اوقات آخری سٹیج تک چھاتی میں کسی قسم کا درد نہیں ہوتا لیکن چھاتی کے اطراف کا رنگ یا ساخت بدل جاتی ہے، نپل سے خون آلود یا بد بودار مواد نکلتا ہے۔
"بروقت تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ چالیس سال کی عمرکے بعد خواتین باقاعدگی سے سکریننگ کرواتی رہیں۔ چھاتی کے کینسر کی تشخیص زیادہ تر بیماری کے مرحلے پر منحصر ہے۔ ٹیومر جتنا چھوٹا ہو گا، علاج اتنا ہی آسان اور سستا ہو گا"۔
تاریخ اشاعت 7 فروری 2024