چوالیس سالہ کالو خان ضلع بھكر کی بستی عمروالی کے رہائشی ہیں۔ وہ چھ ایكڑ زرعی رقبے كے مالک ہیں جس میں سے انہوں نے چار ایکڑ پر دھان كاشت كیا تھا لیکن فصل کو پورا پانی نہ ملنے کے باعث نقصان کر بیٹھے۔
كالو خان نے اپنے کھیتوں کی آب پاشی كے لیے ٹیوب ویل (بور) لگا رکھا ہے جو ڈیزل والے انجن پر چلتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دھان کو کچھ ہفتوں تک روزانہ اور اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے روز پانی دینا ہوتا ہے بصورت دیگر پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
"دھان کو پانی دینے پر روزانہ دس سے بارہ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں كیونكہ کچھ عرصہ قبل تک ڈیزل 350 روپے لٹر رہا ہے۔ انجن دو سے تین لٹر فی گھنٹہ کھا جاتا ہے۔ ٹیوب ویل کو پورا دن بھی چلائیں تو بہ مشکل دو ایکڑ فصل سیراب ہوتی ہے۔ اس لیے فصل کو پانی پورا نہیں مل سکا اور پیداوار 20 من فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہوئی"۔
ضلع بھکر میں زراعت ہی بیشتر آبادی کا ذریعہ روزگار ہے۔ مگر پچھلے کئی سالوں سے بجلی اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں کاشتکاروں کے لیے مسئلہ بن چكی ہیں اور چھوٹا کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
چھوٹے کاشتکاروں کی اکثریت کے پاس اپنے ٹیوب ویل نہیں ہیں اور وہ فصل کے لیے پانی دوسروں سے خریدتے ہیں جو بہت ہی مہنگا پڑتا ہے۔ جن کے اپنے ٹیوب ویل ہیں ان کے لیے ڈیزل کے اخراجات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھکر میں زیادہ تر کاشتکاروں نے اپنے ٹیوب ویل سولر انرجی پر منتقل کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
ملازم حسین بھی بستی عمر والی كے رہائشی ہیں۔ کالو خان کے برعکس انہوں نے اپنے چار ایکڑ دھان سے پونے دو لاکھ روپے سے زائد منافع کمایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پانچ ایكڑ رقبہ ان کا اپنا ہے اور پندرہ ایكڑ زمین انہوں نے ٹھیكے پر لے رکھی ہے۔
"پہلے منافع تو کیا فصل کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا تھا لیکن جب سے ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کیا ہے تو میں نے دھان کے ساتھ 10 ایکڑ گنا بھی کاشت کر لیا ہے کیونکہ پانی وافر ہے۔ اس بار دھان کی پیداوار شاندار رہی اور گنے کی فصل بھی اچھی ہے۔"
ملازم حسین بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیوب ویل کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کے لیے ایک ہی بار رقم خرچ کرنا پڑی لیکن بجلی کی طرح ہر ماہ بھاری بھرکم بل نہیں آتا ہے، اب نہ ڈیزل خریدنےکا جھنجھٹ ہے نہ انجن کی مرمت کے اخراجات۔ اب سارے عذابوں سے چھٹکارا مل گیا ہے۔
عابد حسین 120 ایكڑ زرعی رقبے كے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی زمین میں ڈیزل انجن پر چلنے والے چار ٹیوب ویل لگائے ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پانچ سال قبل دو ٹیوب ویل بجلی پر منتقل كر دیے تھے جس سے وہ دہری مشكل میں پھنس گئے۔ ایک تو بجلی روز بروز مہنگی ہوتی گئی اوپر سے لوڈشیڈنگ نے ناک میں دم كر دیا تھا بوقت ضرورت پھر وہی پرانا ڈیزل انجن چلانا پڑتا تھا۔
"كسی دوست نے مجھے سولرسسٹم لگانے كا مشورہ دیا تو میں نے تجربہ کرنے کے لیے پچھلے سال ایک ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل كر لیا جس پر 22 لاكھ روپے خرچہ آیا كیونكہ ان دنوں سولر پینلز كے ریٹ زیادہ تھے۔ مگر اب باقی تینوں ٹیوب ویل بھی سولر سسٹم پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔"
بستی بختاور کے زمیندار مظفر حسین ڈھانڈلہ بتاتے ہیں کہ 50 ایکڑ سے زائد رقبے والے بعض زمینداروں نے 2012 ء میں ہی ٹیوب ویل سولر پر چلانا شروع کردیے تھے مگر اب سولر پینلز لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مہنگے پانی سے تنگ کاشتکار ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سولر سسٹم لگوا رہے ہیں لیکن سرکاری سطح پر کسانوں کی معاونت یا رہنمائی نہیں کی جا رہی۔ حکومت کو چاہیے سولر ٹیوب ویل لگانے کے لیے سبسڈی یا بلاسود قرضوں کی سہولت دے تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کی پریشانیاں کم ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ سابق دور حکومت میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت پڑھے لکھے نوجوانوں کو سات فیصد مارک اپ پر زرعی قرضے دینے کا اعلان کیا گیا تھا جس میں سولر ٹیوب ویل بھی شامل تھے۔ لیکن نجی بنکوں نے ایسی شرائط رکھیں کہ عام کاشتکار یہ سہولت حاصل نہیں کر سکا۔
اس سلسلے میں نیشنل پروگرام برائے اصلاح آبپاشی کے ضلعی افسر ڈاکٹر امتیاز حسین بتاتے ہیں کہ ان کا محکمہ چھوٹے کاشتکاروں کو سولر انرجی کے ساتھ ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹم پر75 فیصد سبسڈی دے رہا ہے۔
"ہمارے پروگرام کا بنیادی مقصد زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنا ہے اس لیے جو کاشتکار ڈرپ ایریگیشن یا سپرنکلر سسٹم میں دلچسپی نہیں رکھتے انہیں ہم سولر ٹیوب ویل پر سبسڈی نہیں دیتے۔"
واجد حسین بستی گرہ كے رہائشی ہیں۔ انہوں نے دوسال قبل کاشتکاری اس لیے چھوڑ دی تھی کہ انہیں فصل کے لیے پانی قریبی زمیندار سے 600 روپے گھنٹہ خریدنا پڑتا تھا۔ جب بجلی كے نرخ مزید بڑھے تو انہوں نےکاشتکاری کو ترک کرنا ہی مناسب سمجھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ڈیڑھ سال قبل بستی میں ان کے ایک عزیز نے اپنا ٹیوب ویل سولر پر چلانا شروع کیا تو انہیں یہ تجربہ انتہائی مفید نظر آیا۔
"میں نے بھائیوں سے بات کی کیونکہ مسئلہ یہ تھا کہ ہماری اپنی صرف دو ایکڑ زمین ہے اور اتنی کم اراضی کے لیے سولر کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ سوچا اگر رقبہ ٹھیکے پر لیتے ہیں تو وہاں سے پینلز چوری ہو جائیں گے جس پر دکاندار نے 'ٹرالی پر سولر سسٹم نصب کرنے' کا مشورہ دیا۔"
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ٹرالی والا سولر سسٹم لگوا لیا ہے اور دس ایکڑ رقبہ ٹھیکے پر لے کر دوبارہ کاشتکاری شروع کر رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سولر پینل سستا کر دیں: راجن پور میں شمسی توانائی پر منتقلی کے خواہش مند کسانوں کا واحد مطالبہ
"میری زمین اور لیز والا رقبہ دونوں الگ الگ سمت میں ہیں مگر دونوں جگہ بور موجود ہیں اس لیے کوئی پریشانی نہی۔ جس زمین کو پانی دینا ہوتا ہے وہاں ٹریکٹر کے ذریعے سولر پینلز لے جاتے ہیں اور رات کو واپس گھر لے آتے ہیں"۔
مظفر حسین ڈھانڈلہ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ کاشتکار سولر سسٹم لگوا تو رہے ہیں مگر معلوم نہیں یہ سسٹم وارنٹی کی مدت تک چلے گا یا نہیں۔
"پینلز کی کوالٹی کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہاں چند ایک کاروباری افراد کے سوا سولر پینل بیچنے والے بیشتر دکانداروں کی وارنٹی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا"۔
بھکر میں سولر سسٹم فروخت کرنے والی کمپنی کے نمائندے سید علی عابد بخاری نے لوک سجاگ كو بتایا کہ نہری پانی کے بعد سب سے سستا ذریعہ آبپاشی سولر سسٹم ہے جو ایک بار لگانے پر 25 سال استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں كہ پچھلے سال ڈالر اور امپورٹ کی مشکلات کے باعث سولر پینلز اور متعلقہ سامان کے ریٹ بڑھ گئے تھے۔ چھ انچ قطر پانی کی نکاسی کے لیے مکمل سولر سسٹم ٹیوب ویل چھ ماہ قبل 22 سے 23 لاکھ روپے تک کا لگایا جا رہا تھا لیکن اب ویسا ہی سسٹم، اچھے مٹیریل اور 25 سالہ وارنٹی کے ساتھ 14 سے 15 لاکھ میں نصب ہو رہا ہے۔
وہ کہتے کہ کہ اگر آپ اوسطاً پانچ گھنٹے روزانہ ٹیوب ویل چلاتے ہیں تو ڈیزل کے موجودہ ریٹ کے حساب سے ایک سال میں سولر سسٹم ٹیوب ویل پر لگی رقم واپس مل جاتی ہے۔ جبکہ باقی 24 سال آپ کی فصل کو پانی مفت ملتا ہے۔ بشرطیکہ آپ صحیح کوالٹی اور اچھی فرم کا انتخاب کریں۔
تاریخ اشاعت 25 جنوری 2024