ایک تحقیقی اشاعتی ادارے بینتھم سائنس میں کام کرنے والے لوگوں کو 15 اپریل 2022 کو زبانی طور پر آگاہ کیا گیا کہ وہ نئی ہدایات ملنے تک اپنا کام روک دیں۔ ان میں شامل بہت سے لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ حکم ڈاکٹر عطاالرحمان کی جانب سے آیا تھا جن کا شمار پاکستان کے ممتاز ترین سائنس دانوں اور ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے۔
لیکن چند ہی روز پہلے وہ سختی سے کہہ چکے تھے کہ ان کا بینتھم سائنس سے کوئی انتظامی یا مالیاتی تعلق نہیں۔ مجھے فون پر بھیجے گئے ایک تحریری پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ادارے کے زیراہتمام شائع ہونے والے بہت سے جریدوں میں سے صرف ایک کے مدیر ہیں۔ اس پیغام میں انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ اس جریدے کے ساتھ بھی ان کا تعلق خالصتاً علمی نوعیت کا ہے اور انہیں اس ضمن میں کوئی مالیاتی یا انتظامی اختیار حاصل نہیں ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اپریل 2022 کے پہلے دو ہفتوں میں بینتھم سائنس کی ویب سائٹ پر ان کا نام اس پورے ادارے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر درج تھا جو کہ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں چیف ایڈیٹر کے بعد اہم ترین عہدہ ہے۔ گمشدہ اور تحلیل شدہ آن لائن ریکارڈ کو واپس لانے والے ڈیجیٹل ذرائع 'گوگل کیشے' اور 'وے بیک مشین' کے ذریعے اس ادارے کی ویب سائٹ کا گزری تاریخوں میں جائزہ لیا جائے تو اس امر کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔
بینتھم سائنس کو 1994 میں ڈاکٹر عطاالرحمان اور ان کے دوست میتھیو ہونین نے قائم کیا تھا جو امریکہ سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم ہیں۔ یہ ادارہ متحدہ عرب امارات کے ٹیکس فری علاقے شارجہ ایئرپورٹ انٹرنیشنل فری زون (ایس اے آئی ایف) میں ایک نجی کاروباری ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ اس کے ادارتی بورڈ میں بہت سے ممالک کے لوگ شامل ہیں جن میں یونان، جرمنی، انڈیا، چین، بیلارس، جمہوریہ چیک، سعودی عرب، پولینڈ، میکسیکو، ترکی، اسرائیل، پرتگال، سلواکیہ، جنوبی کوریا، ایران، آسٹریلیا، فرانس، سپین، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ لیکن اس ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک سو 69 افراد کے لنکڈاِن پروفائل دیکھے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے 63 کا تعلق صرف پاکستان سے ہے۔
ان ملازمین میں سے 22 نے اپنی ڈگریاں کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی ہیں جہاں ڈاکٹر عطاالرحمان اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا تدریسی کیریئر بھی اسی یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری سے شروع کیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے وفاقی حکومت کے قائم کردہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا۔ حال ہی میں وہ عمران خان کی حکومت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں قائم کی گئی وزیر اعظم کی ٹاسک فورس کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر عطاالرحمان طویل عرصہ سے کراچی یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے انٹرنیشنل سنٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے آ رہے ہیں۔ یہ ادارہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری اور ڈاکٹر پنجوانی سنٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ پر مشتمل ہے جو دونوں بڑی حد تک ایچ ای سی سے ملنے والی مالی امداد پر چلتے ہیں۔
جو لوگ بینتھم سائنس کے لیے کام کر چکے ہیں ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کام کا آغاز حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے سے کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینتھم سائنس کے وجود میں آتے ہی ریسرچ انسٹیٹوٹ کے بہت سے ملازمین نے اس کے جرائد کے لیے کام شروع کر دیا تھا۔ ان میں اس کے ڈائریکٹر عطاالرحمان کے ذاتی معاون محمود عالم اور اس کے جونیئر ٹیکنیکل آفیسر احمداللہ بھی شامل تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان لوگوں کو اس اضافی کام کا الگ معاوضہ ادا کیا جاتا تھا یا نہیں۔
اپنے قیام کے تقریباً چھ سال بعد بینتھم سائنس نے اپنا دفتر کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں کرایے کے ایک اپارٹمنٹ میں بنا لیا جبکہ 2002 میں یہ دفتر کراچی ہی کی یونیورسٹی روڈ پر گلزار ہجری کے علاقے میں واقع زورامن ریذیڈنسی کے متعدد گھروں میں منتقل ہو گیا۔ اس دور میں ادارے کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان گھروں کے باہر ایسا کوئی سائن بورڈ نہیں ہوتا تھا جس سے اندازہ ہو سکے کہ ان کے اندر کیا ہو رہا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ گھر بینتھم سائنس نے کرایے پر نہیں لیے تھے۔ بلکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ اشاعتی ادارہ پاکستان کے کسی سرکاری محکمے کے ساتھ رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ گھر انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز نامی ڈیجیٹل کمپنی کے لیے کرایے پر لیے گئے جو ڈاکٹر عطاالرحمان کے چار بیٹوں – جلیل الرحمان، سہیل الرحمان، شکیل الرحمان اور عبید الرحمان – کی مشترکہ ملکیت ہے۔
میری کمپنی، میری مرضی؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز ایک ایسے وقت قائم کی گئی جب ڈاکٹر عطاالرحمان جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر تھے۔ مارچ 2000 سے لے کر ستمبر 2003 تک جاری رہنے والے ان کے وزارتی دور میں حکومت نے ایسی کمپنیوں کو ٹیکس سے کئی طرح کا استثنیٰ دیا جو اُس وقت ملک میں تازہ تازہ شروع ہونے والے ڈیجیٹل شعبے میں کام کرنا چاہتی تھیں۔ ٹیکس میں چھوٹ کی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز بالکل درست وقت پر سامنے آئی۔ درحقیقت وہ ابھی بھی اس سے مستفید ہو رہی ہے۔
لیکن اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ یکم جولائی 2003 کو بینتھم سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز نے اکٹھے کام کرنے کا ایک معاہدہ کیا۔ اس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کا دیا گیا پتہ گلزار ہجری کے وہی گھر ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ بینتھم سائنس کا کام وہیں پر ہوتا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی جانب سے بینتھم سائنس کو مہیا کی جانے والی خدمات میں سافٹ ویئر کی ڈیزائننگ اور ڈویلپمنٹ، ای مارکیٹنگ، نئے مدیروں، لکھاریوں اور قارئین کو ای میل اور نیوز لیٹر بھیجنا، ویب ڈویلپمنٹ، طباعت، اشاعت، اشاعتی مواد کی ترسیل اور ڈیٹا کا ذخیرہ کرنے جیسے کام شامل ہیں۔ یہ معاہدہ ڈاکٹر عطاالرحمان کو پاکستان میں بینتھم سائنس کی موجودگی سے انکار کا جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر گزشتہ ہفتے مجھے فون پر بھیجے جانے والے ایک تحریری پیغام میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس اشاعتی ادارے کا پاکستان میں نہ تو کوئی دفتر ہے اور نہ ہی یہاں اس کا کوئی ملازم ہے۔
احمداللہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ دراصل بینتھم سائنس کو پاکستان سے چلانے کے لیے ایک آڑ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ احمداللہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے عملے کا حصہ ہونے کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے ملازم بھی تھے جہاں پہلے وہ کمپوزر کے طور پر اور پھر 2005 سے 2011 کے درمیان شعبہ کمپوزنگ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 2012 کے اوائل میں انہیں جھوٹے الزامات پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔
اس معاملے سے متعلقہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی اندرونی ای میلز کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا بینتھم سائنس کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عطاالرحمان نے محمود عالم کو 27 مئی 2009 کو ایک پیغام بھیجا۔ وہ اس وقت بظاہر انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن یہ پیغام انہیں mehmood@bentham.org کے پتے پر بھیجا گیا۔ اسے mathew@bentham.org پر میتھیو ہونین، jalil@bentham.org پر جلیل الرحمان اور trueobaidurrahman@yahoo.com پر عبیدالرحمان کو بھی بھیجاگیا۔ اس کا عنوان "خفیہ، احمداللہ کی کارکردگی – کیا اسے بینتھم میں رہنا چاہیے؟" تھا۔
اس ای میل سے واضح ہے کہ محمود عالم اور ڈاکٹر عطاالرحمان کے بیٹے جلیل الرحمان دونوں بینتھم سائنس کے ای میل ایڈریس استعمال کر رہے تھے حالانکہ اس کی ویب سائٹ پر ان کے نام اس کے عملے کی فہرست میں کبھی بھی شامل نہیں رہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ احمداللہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے ملازم ہوتے ہوئے اصل میں بینتھم سائنس کے لیے کام کر رہے تھے۔
ڈاکٹر عطاالرحمان نے یہ ای میل 'عطا' کے نام سے بھیجی۔ انہوں نے اس میں لکھا کہ "میں نے چند روز پہلے آپ سے شکایت کی تھی کہ ایچ ای جے (حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری) کے ایک طالب علم نے مجھے بتایا ہے کہ وہ بینتھم میں احمداللہ سے اپنا مقالہ ٹائپ اور فارمیٹ کروا رہا تھا۔ اسے اس کام کے لیے ادائیگی بھی کی گئی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ادارے میں ڈیوٹی کے دوران اکثر ایسے کام کرتا رہتا ہے اور سالہا سال سے ایسا کرتا چلا آ رہا ہے۔ براہ مہربانی مجھے اس بارے میں مکمل رپورٹ بھیجیے"۔
اس سارے معاملے کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر عطاالرحمان کے پاس اس میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کے پاس اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز میں کوئی انتظامی عہدہ نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ ان کے اپنے دعوے کے مطابق وہ بینتھم سائنس میں بھی کبھی کسی انتظامی عہدے پر فائز نہیں رہے۔
اس حوالے سے ایک اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ بینتھم سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے مابین معاہدے کی نوعیت خالصتاً مالیاتی ہے۔ یعنی بینتھم سائنس معاوضہ دے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز سے اپنی ضرورت کے کام کراتی ہے۔ اس لیے اس معاہدے کی رُو سے بینتھم سائنس اور اس کے مدیروں اور انتظامی عہدیداروں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن یہ مداخلت اس لیے ممکن ہو سکی کہ دونوں ادارے درحقیقت جڑواں ہیں اور ڈاکٹر عطاالرحمان کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
اس تعلق کا ایک ثبوت فروری 2007 میں محمود عالم کی جانب سے بھیجی جانے والی ایک ای میل کے ذریعے بھی سامنے آتا ہے جو انہوں نے mehmood@bentham.org سے بھیجی اور جس کا عنوان 'ڈاکیومنٹیشن سے متعلق اہم فیصلہ' ہے۔ اس میں وہ ڈاکٹر عطاالرحمان اور میتھیو ہونین سے درخواست کر رہے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز میں کمپوزنگ کے شعبے سے وابستہ ملازمین کے معاوضے میں اضافے کیا جائے حالانکہ نہ تو محمود عالم اور نہ ہی کمپوزنگ کا عملہ بینتھم سائنس کا ملازم تھا۔ لہٰذا ان دونوں حضرات سے ان کے معاوضے میں اضافے کی بات کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔
اس کے باوجود محمود عالم نے ڈاکٹر عطاالرحمان کو ibne_sina@hotmail.com پر بھیجی گئی ای میل میں لکھا کہ "اگر آپ براہ مہربانی معاوضوں میں اضافے کی باقاعدہ منظوری دے دیں تو میں آپ کا بے حد مشکور ہوں گا کیونکہ ہم نے اسے فنانس ڈیپارٹمنٹ کو بھیجنا ہے"۔ انہوں نے یہ ای میل attest@comsats.net.pk پر بھی بھیجی جسے ڈاکٹر عطاالرحمان ایچ ای سی کے چیئرپرسن کی حیثیت سے استعمال کر رہے تھے۔
عطا الرحمان نے ibne_sina@hotmail.com کے ایڈریس سے اس ای میل کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ معاوضوں میں اضافہ "میتھیو (ہونین) کی منظوری سے مشروط ہے" جن کا پتہ mathew@bentham.org اس ای میل کو وصول کرنے والے لوگوں میں شامل تھا۔
یہ پیغامات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگران سرکاری ادارے کا سربراہ ایک نجی کاروبار میں نچلی سطح کے انتظامی امور نمٹا رہا تھا حالانکہ اس میں اس کا کوئی قانونی کردار نہیں تھا۔ اس پر ستم یہ کہ وہ ایسا ایک غیرملکی کمپنی کے لیے کر رہا تھا۔
ورق ورق جھوٹ، حرف حرف مشکوک
امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی کے طالب علم فلپ ڈیوس کو 09-2008 میں بینتھم سائنس کی جانب سے متعدد ای میل پیغامات موصول ہوئے جن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ اس ادارے کے کسی جریدے میں اپنی تحقیق شائع کروانا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ جریدے انٹرنیٹ پر بغیر کسی قیمت کے عام مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ (حالیہ دہائیوں میں دنیا بھر میں ایسے جریدوں کی بھرمار ہو گئی ہے جو 'اشاعتی مواد تک کھلی رسائی کی تحریک' کے نتیجے میں شائع ہو رہے ہیں۔ اس تحریک کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ تمام تحقیقی مقالوں کو انٹرنیٹ پر سبھی کے لیے بلاقیمت دستیاب ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اور محققین کو ان کے مطالعہ، ان کی خریداری یا ان تک رسائی کے لیے بھاری رقم خرچ نہ کرنا پڑے)۔
فلپ ڈیوس کو بینتھم سائنس کی جانب سے موصول ہونے والے ای میل پیغامات میں کہا گیا تھا کہ ان کے تحقیقی کام کو شائع کرنے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا لیکن اشاعت کے لیے قبول کیے جانے والے ہر مقالے پر انہیں 800 ڈالر فیس ادا کرنا ہو گی۔ بعض ای میل پیغامات ایسے بھی تھے جن میں انہیں بینتھم سائنس کے بعض جرائد کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ بننے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد وہ اپنا کام بلاقیمت شائع کروا سکیں گے۔ ان کے مطابق انہیں ایسے موضوعات پر شائع ہونے والے جرائد کے لیے بھی یہ پیشکش موصول ہوئی جن کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔
بار بار ملنے والے ان پیغامات سے تنگ آ کر فلپ ڈیوس نے بینتھم سائنس کی ادارتی ساکھ جانچنےکا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک مخصوص سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے سیاق و سباق کے بغیر ایک بے معنی مقالہ تیار کیا۔ یہ سافٹ ویئر کمپیوٹر سائنس سے متعلق ایسے ہی غیرمنطقی مقالے تیار کرنے کے کام آتا ہے۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسنز میں انٹرنیشنل بزنس اینڈ پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کے شعبے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینٹ اینڈرسن نے بھی اس مقالے کی تیاری میں ڈیوس کو مدد دی۔
اس میں دیگر اوٹ پٹانگ چیزوں کے علاوہ ایسی باتیں لکھی گئی تھیں کہ "اس حصے میں ہم سرخ و سیاہ درختوں، ویکیوم کے پائپوں اور کورس ویئر پر بات کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے تاکا ہاشی کے حالیہ کام سے مضبوط جہتوں کی فراہمی سے متعلق طریقہ کار سامنے آتا ہے تاہم اس میں عملدرآمد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی''۔ اس مقالے کا عنوان ''ساختیاتی رسائی کے نکات'' رکھا گیا جو بذات خود مہمل ہے۔ اس کی غیرحقیقی نوعیت کو مزید اجاگر کرنے کے مصنفین نے فرضی نام استعمال کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ سنٹر فار ریسرچ ان اپلائیڈ فرینالوجی یعنی CRAP میں کام کرتے ہیں جس کا اردو میں مطلب 'فضول' ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'ریسرچ پیپرز' کا چور بازار
یہ مقالہ 29 جنوری 2009 کو بینتھم سائنس کے زیراہتمام شائع ہونے والے دی اوپن انفارمیشن سائنس جرنل کو بھیجا گیا۔ چار ماہ بعد فلپ ڈیوس کو بینتھم سائنس کی اسسٹنٹ مینیجر ثنا مکرم کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ "آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کی جانب سے بھیجے گئے مضمون کو تنقیدی جائزے کے بعد اشاعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔ اگر آپ اس ای میل کے ساتھ منسلک فیس کا فارم بھر کر اور کورنگ لیٹر پر دستخط کر کے بھیج دیں تو بہت نوازش ہو گی"۔ ای میل میں انہیں یہ بھی کہا گیا کہ مقالے کی اشاعت میں تاخیر سے بچنے کے لیے وہ فیس جلد از جلد بھجوا دیں۔
بینتھم سائنس کے ایسے ہی کاموں پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر جوناتھن ای آئزن نے اسے ایک ایسا تجارتی ادارہ قرار دیا جس کا کام صرف پیسہ بنانا ہے۔ 30 جون 2009 کو انہوں نے 'بینتھم کی کھلی دھوکہ دہی' کے عنوانی سے اپنے ایک بلاگ میں کہا کہ انہیں اس کی طرف سے چھاپے جانے والے عام مطالعے کے لیے دستیاب بہت سے آن لائن جریدوں کی جانب سے ایسے پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن کی انہیں ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق ایسے پیغامات بہت سے دیگر لوگوں کو بھی بھیجے جا رہے ہیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے رچرڈ پوئینڈر نامی بلاگر نے ایسے جرائد کے بارے میں بہت جامع تحقیقات کی ہیں۔ انہوں نے 23 اپریل 2008 کو اپنے بلاگ میں لکھا کہ بینتھم سائنس نے مدیروں، لکھاریوں اور جرائد خریدنے والوں تک پہنچنے کے لیے ایک نہایت جارحانہ اور گمراہ کن مہم شروع کی ہوئی ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں صحت عامہ کے شعبے میں کام کرنے والے ایک سینئر محقق گنٹر آئزن بیک کیسے اس مہم سے تنگ آئے۔ انہوں نے آئزن بیک کے بلاگ میں موجود اس تحریر کا بھی حوالہ دیا کہ ''گزشتہ کئی مہینوں سے مجھے بینتھم کی جانب سے کم از کم گیارہ ای میل پیغامات موصول ہوئے ہیں جن کے متن اور خدوخال تقریباً ایک جیسے ہیں اور ان سب پر میتھیو ہونین یا رچرڈ سکاٹ کے دستخط ہیں جنہیں بینتھم سائنس پبلشر کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر بتایا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایسے پیغامات میں مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپنے تحقیقی مضامین، تنقیدی جائزے اور مختلف جرائد کے نام خطوط (بینتھم کو) بھیجوں"۔
رچرڈ پوئینڈر اس ضمن میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں اعزازی پروفیسر کے طور پر کام کرنے والے جان فیوریڈی کے تجربے کا حوالہ بھی دیتے ہیں جنہیں بینتھم سائنس کے زیراہتمام شائع ہونے والے 'کرداری علوم' سے متعلق جریدے کا چیف ایڈیٹر بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ ابتداً انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی لیکن اس کے فوری بعد انہیں بہت سی ایسی اور پیشکشیں بھی ملنے لگیں۔ لیکن جب بینتھم سائنس کی جانب سے انہیں اپنی نئی ذمہ داریوں کی بابت تسلی بخش جواب نہ ملے تو انہوں نے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کو ترجیح دی۔
مگر انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مستعفی ہونے کے باوجود بھی ان کا نام اس جریدے کی ویب سائٹ پر مدیروں کی فہرست میں درج رہا۔ حقیقت میں اسے ہٹانے کے لیے ان کی طرف سے بھیجی گئی کئی درخواستوں کے باوجود کافی عرصے تک اسے ویب سائٹ پر رہنے دیا گیا۔
تاریخ اشاعت 22 اپریل 2022