خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد: پاکستان میں رہنے والے بہاریوں کی شناخت اور شہریت پر بنگلا دیش کا سایہ کیوں۔

postImg

کلیم اللہ

postImg

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد: پاکستان میں رہنے والے بہاریوں کی شناخت اور شہریت پر بنگلا دیش کا سایہ کیوں۔

کلیم اللہ

رضوان عالم 1971 میں پاکستانی فوج کی طرف سے بنگلہ دیشی علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑ چکے ہیں۔ گزشتہ سال 12 دسمبر کو لاہور میں فوج کی جانب سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں ان کی بہادری کو سراہا گیا اور ان کے کچھ ساتھیوں کو نقد انعام بھی دیا گیا۔

تاہم 73 برس کی عمر میں انہیں شکایت ہے کہ سرکاری سطح پر ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کے خاندان کو بنیادی شہری حقوق نہیں دیے جا رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ 2020 میں ان کے بیٹے وسیم عالم کا پاکستانی شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا جو متعدد کوششوں کے باوجود بحال نہیں ہو سکا۔

وہ اس مسئلے کی وجہ سے پریشان بھی ہیں اور افسردہ بھی اور  کہتے ہیں کہ "ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ جس ملک کے لیے اس نے جنگ لڑی ہو وہی ملک اس کے خاندان کے افراد کو اپنا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو"۔ 

رضوان عالم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ 1979 میں بنگلادیش سے پاکستان آئے تھے۔ وسیم عالم اس سے پہلے پیدا ہو چکے تھے (حالانکہ ان کے منسوخ شدہ شناختی کارڈ میں ان کا سالِ پیدائش 1980 درج ہے)۔ وہ کہتے ہیں جب وہ اپنا شناختی کارڈ بحال کرانے لاہور میں شملہ پہاڑی کے نزدیک ایجرٹن روڈ پر واقع نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دفتر میں گئے تو وہاں موجود اہل کاروں نے انہیں بتایا کہ اسے اس لیے منسوخ کیا گیا ہے کہ وہ "بنگلادیشی" ہیں۔

انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کا شناختی کارڈ نادرا کے سرگودھا میں واقع دفتر نے منسوخ کیا ہے اس لیے اگر انہوں نے اسے بحال کرانا ہے تو انہیں وہیں جا کر خود کو پاکستانی شہری ثابت کرنا ہو گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے والد کا وہ سرٹیفیکیٹ لے کر سرگودھا میں نادرا کے دفتر گئے جو حکومتِ پاکستان نے انہیں بنگلادیش سے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان لاتے وقت جاری کیا تھا تو انہیں بتایا گیا کہ پہلے اسلام آباد میں موجود کیبنٹ ڈویژن دیکھے گا کہ یہ سرٹیفیکیٹ اصلی ہے یا نقلی۔ اس جانچ کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ان کا شناختی کارڈ بحال کیا جائے گا یا نہیں۔

وسیم عالم کہتے ہیں کہ "اس بات کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک نہ تو ان کے والد کے سرٹیفیکیٹ کی جانچ مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی ان کا شناختی کارڈ بحال ہوسکا ہے"۔

نتیجتاً، ان کے مطابق، انہیں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ان کا بنک اکاؤنٹ بند ہوگیا ہے اور موٹر سائیکل پر آتے جاتے ہوئے انہیں ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں پولیس ان کا شناختی کارڈ چیک نہ کر لے اور انہیں کسی مسئلے میں نہ ڈال دے۔ انہی مسائل سے بچنے کے لیے وہ کسی دوسرے شہر بھی اس وقت تک نہیں جاتے جب تک انہیں کوئی بہت ضروری کام نہ پڑ جائے۔ 

وہ جنوبی لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں واقع درخشاں کالونی میں رہتے ہیں اور ایک قریبی کارخانے میں سلائی کڑھائی کا کام کر کے اپنا گھر چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنا شناختی کارڈ بحال کرانے کے لیے انہیں بار بار سرکاری دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں جس سے وہ کام پر نہیں جا سکتے اور یوں ان کی آمدن کم ہو جاتی ہے۔ 

ان کی تین بیٹیاں ہیں جن کی عمریں 15 سال، 13 سال اور نو سال ہیں اور وہ بالترتیب ساتویں پانچویں اور تیسری جماعت میں پڑھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ہر وقت "فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں ان کے منسوخ شدہ شناختی کارڈ کی وجہ سے ان بچوں کی پڑھائی اور زندگی متاثر نہ ہو"۔ 

مرے دل مرے مہاجر

"حضرات ایک ضروری اعلان سنیے۔ بہاری برادری کے ایسے تمام افراد جن کے شناختی کارڈ منسوخ ہیں یا ان کے نئے شناختی کارڈ نہیں بن رہے وہ کل اتوار کے دن صبح دس بجے انوارالحق کی دکان پر اکٹھے ہوجائیں"۔ 

یہ اعلان 23 اپریل 2022 کی شام کو درخشاں کالونی کی مسجد سے کیا گیا۔ اس محلے کے باشندوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو 1974 اور 1992 کے درمیان بنگلادیش سے پاکستان آئے تھے۔ اُن کا بنیادی تعلق انڈیا کے علاقے بہار سے ہے لیکن 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد وہ مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا تو وہاں کی حکومت نے انہیں پاکستان کے حمایتی ہونے کی وجہ سے اپنا شہری ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد حکومت پاکستان نے خصوصی طیارے بھیج کر ان میں سے ہزاروں لوگوں کو یہاں بلا لیا اور انہیں سرکاری خرچے پر درخشاں کالونی جیسے علاقوں میں بسا دیا۔

بین الاقوامی سطح پر اقلیتوں کی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم مائنارٹی رائٹس گروپ (ایم آر جی) کا کہنا ہے کہ 1974 سے لیکر 1989 تک ایک لاکھ 63 ہزار بہاریوں کو بنگلادیش سے پاکستان منتقل کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر خاندانی تعلقات کی وجہ سے کراچی میں رہائش پذیر ہوگئے لیکن 1993 میں ایک خصوصی پروگرام کے تحت بنگلادیش سے لائے گئے تین سو 23 خاندانوں کو پنجاب کے مختلف ضلعوں میں بھی آباد کیا گیا۔ 

چونکہ مردم شماری میں بہاری آبادی کو گننے کا کوئی طریقہ موجود نہیں اس لیے لاہور میں ان کی صحیح تعداد کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ تاہم اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ درخشاں کالونی کے مختلف حصوں میں قریباً سات سو بہاری خاندان رہتے ہیں۔ فیصل آباد اور اوکاڑہ جیسے وسطی پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی کم و بیش اتنے بہاری موجود ہیں۔ 

ان کی خستہ معاشی اور سماجی حالت درخشاں کالونی میں صاف نظر آتی ہے۔ وہاں کی گلیاں ٹوٹی پھوٹی ہیں اور ان میں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں۔ مقامی لوگ اس محلے کو کالا پانی کہتے ہیں جو بحرِہند میں ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں برطانوی دور کے ہندوستان میں ایک بدنامِ زمانہ جیل قائم کی گئی تھی۔

مقامی مسجد سے شناختی کارڈ سے متعلق ہونے والے اعلان کی اگلی صبح وسیم عالم سمیت اس بستی کے 20 کے قریب بہاری باشندے انوارالحق کی دکان پر جمع ہوئے۔ ان سب کے شناختی کارڈ یا تو منسوخ ہوچکے ہیں یا ان کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور ان کی جگہ نئے شناختی کارڈ جاری نہیں کیے جا رہے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں بنگلہ دیش کے شہری سمجھا جاتا ہے۔

ان میں دو بچوں اور ایک بچی کے باپ 47 سالہ اشرف علی بھی موجود ہیں۔ اپنی سرمگیں آنکھوں اور گھنی داڑھی کے سبب وہ ایک مذہبی مبلغ نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ مقامی بازار میں پھول بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2021 میں جب ان کے بیٹے نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے کپمیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کے لیے شناختی دستاویزات بنوانا چاہیں تو اسے پتہ چلا کہ اس کے والد کا شناختی کارڈ منسوخ ہوا پڑا ہے۔ 

اگرچہ نادرا سے مسلسل شکایات کرنے کے بعد چند روز پہلے ان کا شناختی کارڈ بحال کر دیا گیا ہے جس سے ان کے بیٹے کا مسئلہ حل ہو گیا ہے لیکن ان کے باقی گھر والوں کی شناختی دستاویزات ابھی بھی قابلِ استعمال نہیں۔

لیکن یہ مسئلہ صرف درخشاں کالونی تک محدود نہیں بلکہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے علاقے رشید پارک کے رہنے والے 34 سالہ عبدالقادر نامی بہاری بھی اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی شادی کچھ سال قبل ہوئی ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اسے رجسٹرڈ نہیں کرایا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کے منسوخ شناختی کارڈ کی وجہ سے ان کی بیوی کا شناختی کارڈ بھی غیرفعال بنا دیا جائے گا۔  

وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد 1974 میں بنگلہ دیش سے جڑانوالہ منتقل ہوئے تھے کیونکہ یہاں انہیں پٹ سن کی ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی تھی۔

عبدالقادر خود یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے اور اب ایک مقامی نجی سکول میں پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تین سال پہلے ان کے خاندان کے 20 افراد سمیت ان کا شناختی کارڈ ناقابلِ استعمال بنا دیا گیا جس کی وجہ سے انہیں متعدد مسائل درپیش ہیں۔ ان کے مطابق نہ تو وہ کسی سرکاری نوکری کی لیے درخواست دے سکتے ہیں اور نہ کسی بنک میں اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ اور ان کا خاندان مفت علاج کے سرکاری پروگرام سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے حالانکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام دوسرے اساتذہ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 

ان پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "آخر ہم سے ایسا کون سا قصور سر زد ہوگیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے"۔

ریحانہ جمعراتی کو بھی شکایت ہے کہ پاکستانی ہونے کے باوجود نادرا والے انہیں بنگلادیشی کہتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا شناختی کارڈ نہیں بناتے۔ وہ لاہور کے نواحی ضلع شیخوپورہ میں پلی بڑھی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے والدین اور سب بہن بھائیوں کے پاکستانی شناختی کارڈ بنے ہوئے ہوئے ہیں۔

وہ پچھلے 10 سال سے لاہور میں شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ اس دوران ان کے تین بچے پیدا ہوئے ہیں جو، ان کے مطابق، انہی کی طرح شناختی دستاویزات سے محروم ہیں اور اس وجہ سے تعلیم بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔ وہ کہتی ہیں کہ "زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہیں لیکن اگر خدانخواستہ کل کو میرے شوہر کا انتقال ہو جائے تو میں اور میرے بچے ان کی جائیداد کے وارث نہیں بن سکیں گے کیونکہ ہمارے پاس اپنی شناخت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں"۔ 

ہم کے ٹھہرے اجنبی

فرزانہ جہاں کے والد فدا حسین 1979 میں بنگلا دیش میں کھو گئے تھے۔ اسی سال ان کے چچا رستم علی انہیں پاکستان لے آئے۔ وہ اس وقت صرف ایک سال کی تھیں۔

وہ اب لاہور میں گرین ٹاون کے علاقے میں رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ 2021 میں ان کا شناختی کارڈ اس بنیاد پر منسوخ کر دیا گیا کہ اس میں ان کے والد کے طور پر ان کے چچا کا نام لکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق 14 دسمبر 2021 کو انہوں نے لاہور کے سینئر سول جج کی عدالت میں درخواست دائر کی کہ نادرا کو ان کے والد کا نام درست کر کے ان کا شناختی کارڈ بحال کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو: 'ذکری زائرین اب کوہِ مراد کی زیارت کرتے ہوئے بھی ڈرے رہتے ہیں'۔

فرزانہ  جہاں کی درخواست کی سماعت کے دوران نادرا نے عدالت کو بتایا کہ ان کی پیدائش بنگلادیش میں ہونے کی وجہ سے انہیں "مشتبہ اجنبی" کے زمرے میں رکھا گیا تھا لیکن جب وہ بار بار مواقع دیے جانے کے باوجود اپنی پاکستانی شہریت کا ثبوت پیش نہ کر سکیں تو ان کا شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا۔

لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں نادرا کے علاقائی دفتر میں بطور ترجمان کام کرنے والے سید بلال کہتے ہیں کہ فرزانہ جہاں کی طرح ہر "مشتبہ اجنبی" کو اپنی پاکستانی شہریت کا ثبوت پیش کرنے کا ہر ممکن موقع دیا جاتا ہے اور اس میں ناکامی پر ہی اس کا شناختی کارڈ منسوخ کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق بہاریوں کے لیے شہریت کا سب سے اہم ثبوت 1974 یا اس کے بعد جاری کیا گیا حکومتی سرٹیفیکیٹ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ انہیں سرکاری طور پر بنگلا دیش سے پاکستان لایا گیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ راشن کارڈ یا کسی حکومتی ادارے میں تعیناتی کی دستاویزات بھی شہریت کے ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ 

گو سید بلال مانتے ہیں کہ ان کے ادارے نے حالیہ سالوں میں ہزاروں شناختی کارڈ منسوخ کیے ہیں لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ایسا کسی نسلی تفریق کے باعث نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ متعلقہ لوگ اوپر دی گئی دستاویزات میں سے کوئی ایک بھی شہریت کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کر سکے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی شناختی کارڈ بھی نادرا یا اس کے عملے کی نسلی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر منسوخ نہیں کیا جاتا بلکہ، ان کے بقول، یہ عمل مکمل طور پر مختلف سرکاری محکموں اور خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر مبنی ہوتا ہے۔

تاریخ اشاعت 30 مئی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.