21 فروری 2023 کی صبح بارکھان کے علاقے میں ایک کنویں سے تین لاشیں برآمد ہوئیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایک ماں اور دو بیٹوں کی لاشیں ہیں جو مبینہ طور پر صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی حراست میں تھے۔
پولیس نے تینوں افراد کی لاشیں مقامی ہسپتال منتقل کر دیں، جہاں محمد خان مری نے لاشوں کی شناخت، صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید ان کی اہلیہ اور دو بیٹوں کے طور پر کی۔
خان محمد مری کے مطابق لاشیں ان کی اہلیہ گراں ناز، بڑے بیٹے محمد نواز اور دوسرے بیٹے عبدالقادر کی ہیں جو 2019 سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔ خان محمد مری کے مطابق ان کے گھر کے مزید پانچ افراد اب بھی سردار عبدالرحمان کھیتران کی جیل میں ہیں۔
واضح رہے کہ 9 فروری کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک عورت کو قرآن شریف ہاتھ میں اٹھائے فریاد کرتے سنا گیا کہ وہ سردار عبدالرحمان کی نجی جیل میں بند ہیں اور مسلسل زیادتی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
خان محمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران کے آدمی ان کے گھر کے آٹھ افراد ان کی بیوی گراں ناز، بیٹی فرزانہ، بیٹے عبدالستار، عبدالغفار، محمد عمران، محمد نواز، عبدالمجید اور عبدالقادر کو اغوا کرکے لے گئے اور انہیں حاجی گوٹھ بارکھان میں اپنے نجی جیل میں قید کر دیا۔ سردار کے کارندے ان کے گھر کا سارا سامان بھی ساتھ لے گئے۔
خان محمد مری نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی وزیر اور اس کے اہلکار نجی جیل میں ان کے اہلِ خانہ سے نہ صرف جبری مشقت لیتے ہیں بلکہ ان پر جنسی و جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔
سردار بمقابلہ سردارزادہ
فروری میں گراں ناز کی جو وڈیو وائرل ہوئی تھی وہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے صاحبزادے سردارزادہ انعام کھیتران کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی تھی۔
سردارزادہ کا الزام ہے کہ ان کے والد نے تین شادیاں کر رکھی ہیں اور وہ اپنی سیاست کے لیے اپنی اولاد کو باہم دست و گریبان رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا والد سے 2018 میں گاڑیوں کی ملکیت کی منتقلی پر اختلاف ہوا تھا جس کے بعد سے وہ ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ "انہوں نے مجھ پر اپنے ہی گھر میں چوری کرنے کا جھوٹا مقدمہ درج کروایا اور محمد خان مری پر جھوٹی گواہی کے لیے دباؤ ڈالا، اس نے انکار کر دیا اسی لیے میرے والد نے اس کے اہلِ خانہ کو اغوا کروایا۔"
دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو بلدیاتی انتخابات میں ضلعی چیئرمین بنانے سے انکار کیا اس لیے وہ اب ان کے خلاف ہو چکا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے خلاف یہ ساری مہم دراصل ان کے سیاسی مخالفین چلا رہے ہیں، جو بارکھان کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتے۔
کوئٹہ، ریڈ زون میں مظاہرین جنازے رکھ کر دھرنا دیئے ہوئے ہیں
بارکھان، بلوچستان کی مشرقی سرحد پر واقع آخری ضلع ہے، جہاں سے جنوبی پنجاب کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب اس کی سرحد ضلع کوہلو سے ملتی ہے، جہاں مری قبائل کی اکثریت ہے۔ مری اور کھیتران قبائل میں بارہا سرحدی تنازعات اٹھتے رہے ہیں۔
کوہلو کا علاقہ حالیہ شورش میں بھی سرگرم رہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس سردار کھیتران مشرف دور سے لے کر ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں اور ان کا علاقہ (بارکھان) ان کے بقول 'حب الوطن اور پُرامن' رہا ہے۔ سردار کھیتران اس وقت بھی نہ صرف صوبائی وزیر مواصلات ہیں بلکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی ترجمان بھی ہیں۔
کیا ان آوازوں کو اب بھی دبا دیا جائے گا؟
مذکورہ معاملہ دو برس قبل بھی میڈیا میں ابھرا تھا۔ اس وقت مقامی رپورٹر محمد انور کھیتران نے اسے مسلسل رپورٹ کیا اور سوشل میڈیا پہ اس کی بازگشت سنی گئی۔ اس دوران انور کھیتران کو شہید کر دیا گیا۔ انور کھیتران کے ورثا نے ان کے قتل کا الزام سردار کھیتران پر ہی لگایا مگر ان کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔
9 فروری کو سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والی خاتون کی وڈیو کے بعد یہ معاملہ بلوچستان کی سطح پر اٹھا مگر جلد ہی دبا دیا گیا پھر 21 فروری کو خاتون اور ان کے دو بیٹوں کی لاشیں برآمد ہو گئیں۔ جس کے بعد بلوچستان بھر میں غم و غصے کی لہر جنم لے چکی ہے۔
محمد خان مری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ بڑے عرصے تک سردار کھیتران کے ہاں بطور نجی گاڑد کام کرتے رہے ہیں۔ 2018 میں سردار عبدالرحمان قتل کے ایک مقدمے میں اسے اپنی جگہ گرفتاری دینے، اپنے خلاف گواہی سے مُکر جانے اور (سردار کے) بیٹے کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا جس پر خان محمد وہاں سے بھاگ نکلے مگر ان کے اہلِ خانہ کو دُکی قصبہ سے اٹھا لیا گیا۔ جس کے بعد خان محمد مختلف پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتے رہے۔
خان محمد نے اب بھی الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے ان کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کے بعد کوہلو کے قبائلی عمائدین اور عوام نے ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد لاشوں کو لے کر کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قاتلوں کی گرفتاری تک وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے لاشوں کے ساتھ دھرنا دے کر بیٹھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: 'اب ہمارے گھروں میں صرف عورتیں باقی رہ گئی ہیں'۔
شام گئے لواحقین کوئٹہ پہنچے تو پولیس نے انہیں شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بعدازاں احتجاج پر انہیں شہر میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ کوئٹہ میں سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں اور افراد نے اس احتجاج کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا اور لواحقین سے پہلے سینکڑوں کی تعداد میں ریڈ زون میں پہنچ گئے۔
ادھر اسمبلی کا اجلاس اس دوران جاری رہا۔ جس میں اس واقعے پر ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کی گئی، واقعے کی مذمت بھی کی گئی مگر کسی کا نام نہیں لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے واقعے کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا اور مظاہرین سے بات چیت کے لیے مشاورتی اجلاس طلب کر لیا۔
تاریخ اشاعت 22 فروری 2023