سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان کی خاتوں سولنگی کھیتوں میں سبزیوں کی پٹائی/ چنائی کا کام کرتی ہیں۔ وہ روزانہ صبح آٹھ بجے کھیت میں آ جاتی ہیں اور بارہ بجے تک تیار سبزیاں جمع کرتی رہتی ہیں۔ اس کام کی انہیں روزانہ تین سو روپے اجرت ملتی ہے۔
50 سالہ خاتوں تین بچوں کی ماں ہیں۔ ان کے شوہر چار سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے مرتضیٰ علی کی عمر تیس سال ہے جو خود بھی کھیت مزدوری کرتا ہے تاہم اسے روزانہ اتنے ہی کام کے تقریباً پانچ سو روپے ملتے ہیں۔
خاتوں کھیتوں میں بینگن، مرچ، ٹماٹر اور بھنڈی کی چنائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے کھیتوں میں گوڈی، بوائی اور گھاس کاٹنے کا کام بھی لیا جاتا ہے، تاہم انہیں شکایت ہے کہ مردوں کے برابر کام کرنے کے باوجود انہیں مردوں جتنی مزدوری نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ''ہم اتنی ہی مشقت کرتی ہیں جتنی مرد کرتے ہیں لیکن اجرت دیتے وقت مالکان ہمارے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم عورت ہیں۔''
حیدرآباد کے گاؤن وانکی وسی کے 32 سالہ گوپال داس اور ان کی بیوی جمنا گلاب کے کھیت میں پھول جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی صبح چھ سے آٹھ بجے تک پھول چنتے ہیں جس کی انہیں فی ایکڑ دو دو ہزار روپے مزدوری ملتی ہے۔ تاہم مزید آمدنی کے لیے وہ دوپہر ایک بجے تک گلاب کے پودوں کی گوڈی، ان کی جڑوں کی صفائی اور دیگر متعلقہ کام کرتے ہیں۔ جمنا بتاتی ہیں کہ اس کام کی انہیں ڈھائی سو روپے دیہاڑی ملتی ہے جبکہ ان کے شوہر اتنا ہی کام کر کے چار سو روپے کماتے ہیں۔
جمنا کے چار بچے ہیں۔ مزدوری کے بعد وہ رات تک گھریلو کام کاج میں مصروف رہنے کے بعد تھک جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پھولوں کی چنائی ایسا کام ہے جس میں چھٹی کا تصور نہیں ہوتا۔ اگر پھولوں کو روزانہ چنا نہ جائے تو وہ مرجھا کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ کام مردوخواتین مل کر کرتے ہیں لیکن اجرتوں میں صنفی بنیاد پر واضح تفاوت خواتین میں ناانصافی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
سندھ ویمن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ 2019 پر تاحال عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا
معروف لکھاری، ماہر تعلیم اور سندھ میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم امر سندھو بتاتی ہیں کہ حیدرآباد میں ڈیتھا ریلوے اسٹیشن اور میانی والے علاقے، وانکی وسی اور گردونواح میں گلاب کے پھول چننے/توڑنے کا زیادہ تر کام خواتین کرتی ہیں جنہیں حقوق کی فراہمی تو دور کی بات، ابھی تک ان کی گنتی اور رجسٹریشن بھی نہیں ہو سکی۔
سندھ میں کسانوں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے کے لیے ٹیننسی ایکٹ موجود ہے اور اس میں اصطلاحات بھی لائی گئی ہیں تاہم اس میں بھی نہ تو واضح طور پر خواتین مزدوروں کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی بات ملتی ہے۔ ایک طرح سے یہ ایکٹ مردوں کے لیے بنایا جانے والا قانون دکھائی دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیننسی ایکٹ کے تحت کسانوں کے لیے مخصوص عدالتوں کے قیام پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ صوبے میں برسراقتدار پیپلز پارٹی نے عورتوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی تو بہت کر لی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کی صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔
'کچھ نہ دوا نہ کام کیا'
سندھ میں محکمہ محنت و افرادی قوت کے لا آفیسر اور یو این ویمن پروگرام کے فوکل پرسن ریجھو مل کہتے ہیں کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے سندھ اسمبلی نے تقریباً تین سال پہلے 'سندھ ویمن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ 2019' منظور کیا تھا۔ تاہم اس قانون پر تاحال عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا۔
اس قانون کے تحت کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین صنعتی مزدور خواتین جتنے حقوق رکھتی ہیں۔ یہ قانون اجرت سے لے کر سماجی تحفظ اور چھٹیوں تک تمام معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنانے کا بھی تذکرہ ہے جن میں کونسل کی خاتون رکن، کسان خواتین کی نمائندہ اور زمیندار کا نمائندہ شامل ہو گا اور یہ کونسل کسان عورتوں کے مسائل حل کرے گی۔
اس قانون میں بینظیر ویمن ایگریکلچر سپورٹ پروگرام قائم کرنے کا بھی تذکرہ ہے جس کے تحت یونین کونسل کی سطح پر کھیت مزدور خواتین کی رجسٹریشن کے بعد انہیں کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ یہ سوشل سکیورٹی جیسے کارڈ جیسے ہوں گے جن کی بدولت ناصرف ان خواتین کو سماجی تحفظ مل جائے گا بلکہ وہ صوبائی حکومت کی جانب سے طے شدہ کم از کم اجرت کے حصول کی حق دار بھی ٹھہریں گی۔
تاہم ریجھو مل کہتے ہیں کہ اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت سی چیزیں غیرواضح ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے لاگو کیسے کیا جائے گا؟ آیا اسے پٹواری، مختیارکار، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لاگو کروائیں گے یا اس مقصد کے لیے کوئی اور طریقہ وضع کیا جائے گا۔
ان کے خیال میں اس قانون کا صرف خواتین کے لیے مخصوص ہونا اس کے غیرموثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی اکثریت ہے جو شاید کسانوں کو حقوق دینا ہی نہیں چاہتے اس لیے انہوں نے مردوں کو جان بوجھ کر اس قانون سے باہر رکھا ہے تاکہ اس پر عملدرآمد کے لیے موثر آواز بلند نہ ہو سکے۔
شماریاتی بیورو کے مطابق 21-2020 میں پاکستان میں برسر روزگار لوگوں کا 27.5 فیصد رسمی اور 72.5 فیصد غیررسمی شعبے میں کام کرتا ہے۔ زراعت، جنگلات اور ماہی گیری سے وابستہ مردوں کی ماہانہ اجرت 14 ہزار 774 روپے ہے جبکہ انہی شعبوں میں خواتین مزدوروں کو ماہانہ نو ہزار 419 روپے ملتے ہیں
یہ بھی پڑھیں
'مشکلیں اتنی پڑیں': سکیورٹی گارڈ خواتین کو درپیش نامناسب حالاتِ کار کا حل کیسے ممکن ہے۔
اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے 'یو این ویمن' کے مطابق پاکستان کی افرادی قوت میں خواتین کا حصہ 22.63 فیصد ہے جن میں 81 فیصد غیررسمی شعبے میں کام کرتی ہیں جہاں انہیں اوسطاً تین سے چار ہزار روپے ماہانہ اجرت ملتی ہے جبکہ مجموعی آمدنی میں خواتین کا حصہ 16.3 فیصد ہے۔
امر سندھو کا کہنا ہے کہ خواتین مزدوروں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے سیاسی و سماجی سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے اب سیاسی جماعتیں بھی اس پر بات نہیں کرتیں۔ 1950 کی دہائی میں بختاور ہاریانی کی تحریک کے نتیجے میں سندھ ٹینینسی ایکٹ وجود میں آیا تھا اور اب اس پر موثر عملدرآمد کے لیے بھی ایسی ہی تحریک کی ضرورت ہے۔
تاریخ اشاعت 8 مارچ 2023