'اگر آٹا نہیں ہو گا تو کیا کریں گے': اس بار کھیت مزدوروں کو گندم کٹائی کی اجرت آدھی کیوں ملی؟

postImg

آصف ریاض

postImg

'اگر آٹا نہیں ہو گا تو کیا کریں گے': اس بار کھیت مزدوروں کو گندم کٹائی کی اجرت آدھی کیوں ملی؟

آصف ریاض

زندگی میں پہلی بار کوثر بی بی کو گندم بازار سے خریدنا پڑے گی۔ ان کا بے زمین خاندان ہر سال مئی کا مہینہ دوسرے کسانوں کی گندم کی کٹائی میں صرف کرتا تھا جس کے عوض وہ اپنی سال بھر کی ضرورت کی گندم اکٹھی کر لیتے تھے۔
اس برس انہیں محض تین ایکڑ کی کٹائی کا کام ملا۔

"پچھلے سال ایک ایکڑ کٹائی کے عوض ہمیں ساڑھے چھ من گندم ملی تھی جبکہ اس بار معاوضہ ساڑھے تین من فی ایکٹر کر دیا گیا"۔

اس بار وہ جتنی گندم جمع کر پائے ہیں وہ ان کی سالانہ ضرورت سے نو من کم ہے۔

پچپن سالہ کوثر بی بی ضلع ساہیوال کے گاؤں بارہ گیارہ ایل میں رہتی ہیں۔ ان کے خیال میں غریبوں کی سب سے پہلی ضرورت گندم ہے اگر یہ پوری ہو جائے تو وہ بہت ساری فکروں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

"سبزی، گوشت کے پیسے نہ بھی ہوں تو پیاز، مرچ یا دودھ، دہی سے گزارہ ہو سکتا ہے لیکن اگر آٹا نہیں ہو گا تو کیا کریں گے"۔

منڈی میں نو من گندم کی قیمت 36 سے 40 ہزار روپے ہے۔

کوثر بی بی کے خیال میں اتنے پیسے ان کا خاندان پورا سال کھیتوں میں مزدوری کر کے بھی نہیں بچا پائے گا۔ کوثر کی کوشش ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی بقایا گندم کسی سے ادھار لے لیں۔

کوثر کے گاؤں میں ہی رہنے والے محمد عمران رضوی بتاتے ہیں کہ گزشتہ برس انھوں نے سات ایکڑ پر فصل کی کٹائی کی جس سے انہیں 40 من گندم حاصل ہوئی جو ان کی ضرورت سے سات من زیادہ تھی۔ یہ گندم انھوں نے سال کے آخر میں ایسے خاندانوں کو ادھار دے دی جن کے پاس گندم ختم ہو گئی تھی۔

لیکن عمران کو خدشہ ہے کہ اس سال دیہات میں رہنے والے بے زمین خاندان اپنی ضرورت پوری نہیں کر پائیں گے۔

اس بار گندم کی کٹائی کا ریٹ اتنا کم کیوں ہو گیا؟

اتنے مزدور کہاں سے آ گئے؟

پنجاب میں پچھلے سال گندم کی سرکاری قیمت 22 سو روپے من تھی جسے اس سال بحران سے بچنے کے لیے حکومت نے بڑھا کر 39 سو روپے کر دیا۔

زمیندار کہتے ہیں کہ اس برس کٹائی کے عوض ملنے والی گندم کی مقدار تو کم ہوئی ہے لیکن اگر گندم کی حالیہ قیمت کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ اجرت اب بھی پچھلے برس سے زیادہ ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کے دیہات میں 60 فیصد خاندان بے زمین ہیں اور ان کی اکثریت کھیت مزدور ہے۔

مختلف قومی اور بین الاقومی اداروں کی رپوٹوں کے مطابق بے زمین خاندانوں کا 55 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

محنت کشوں کے خیال میں رواں برس کٹائی کے معاوضے میں کمی کی اور بھی وجوہات ہیں۔

محمد عمران بتاتے ہیں کہ 2022ء میں زمیندار ان کے پیچھے پھرتے تھے کہ فی ایکٹر کٹائی کے چاہے آٹھ من لے لو، بس فصل کاٹ دو۔

"لیکن اس بار مزدوروں کو ان کی منتیں کرنا پڑ رہی تھیں"۔

وہ کہتے ہیں کہ رواں سال شہر میں مزدوری کرنے والے بھی کٹائی کے لیے گھروں کو لوٹ آئے تھے۔

عمران کے پڑوسی تنویر مسیح اور ان کے بھائی منیر مسیح لاہور میں مزدوری کرتے ہیں۔ اس بار وہ کٹائی کا کام کرنے کے لیے گاؤں آ گئے۔

ان کے ایک پڑوسی شاہد حسین کہتے ہیں کہ پہلے کبھی گندم اتنی مہنگی نہیں تھی کہ کوئی فیکٹری سے اپنی پانچ سو، ہزار روپے کی دیہاڑی چھوڑ کر یہاں تپتی دھوپ میں اتنی سخت مزدوری کرنے آتا۔

"آج کل کسی کو 10، 12 من گندم خریدنی ہو تو اسے 50 ہزار روپے چاہیے ہوں گے جو دو، ڈھائی ماہ کی مزدوری کے برابر ہے۔ اسی لیے دونوں نے 10، 20 دن شہر میں مزدوری کرنے پر کٹائی کو ترجیح دی"۔

شاہد حسین حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بار تو انھوں نے اپنے گاؤں میں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مزدوروں کو بھی دیکھا ہے۔ایسا ہی ایک مزدور خاندان ان کے گاؤں کے باہر خالی پڑے ایک مرغی خانے میں ٹھہرا ہوا ہے۔

اس خاندان کے سربراہ اللہ دتہ کے بقول ان کے گاؤں میں زیادہ تر لوگوں نے ہارویسٹر سے کٹائی کروا لی تھی اس لیے انہیں مزدوری کا موقع ہی میسر نہیں آیا۔

مشینوں کی فوج کا سامنا کون کرے؟

محمد الیاس نے اس بار اپنے 20 میں سے چار ایکڑ پر گندم کاشت کی اور ساری کٹائی کمبائنڈ ہارویسٹر سے کرائی۔

"مزدوروں سے کٹائی کراتے تو دانے گھر پہنچنے میں 10 سے 15 دن لگ جاتے اور خرچ بھی 28 ہزار روپے آتا، مشین نے سارے کام چار گھنٹے میں کر دیے اور لاگت 21 ہزار روپے آئی"۔

وہ کہتے ہیں کہ موسم کے غیر متوقع طور پر خراب ہو جانے کے ڈر سے وہ اپنی فصل جلد از جلد سمیٹنا چاہتے تھے اور ایسا مشین سے ہی ممکن تھا۔

چند برس قبل قائم ہونے والی آل پاکستان ہارویسٹر یونین کے صدر اعجاز علی تارڑ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس بار پنجاب میں گندم کی 60 فیصد تک کٹائی مشینوں کے ذریعے ہوئی ہے۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رواں برس کمبائنڈ ہارویسٹر کی طلب بہت زیادہ تھی۔

کمبائنڈ ہارویسٹر فصل کاٹنے اور بالیوں سے گندم کے دانے علیحدہ کرنے سے لے کر توڑی ( بھوسے) کو سنبھالنے تک کا تمام کام چند گھنٹوں میں مکمل کر دیتا ہے۔

ان کے مطابق ان کی تنظیم میں 13 ہزار مشین مالکان نے رجسٹریشن کرا رکھی ہے اور ہر مشین نے اس سیزن میں اوسطاً چار سو ایکڑ کٹائی کی ہے۔

پنجاب میں اس بار ایک کروڑ 60 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی تھی۔

اگر اعجاز علی تارڑ کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو اس بار ان کی یونین میں رجسٹرڈ مشینوں نے ہی 52 لاکھ ایکڑ کی کٹائی کی جو پنجاب میں کل زیر کاشت رقبے کا 32 فیصد بنتی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ 15 برسوں میں 23 ہزار چار سو کمبائنڈ ہارویسٹر درآمد کیے گئے۔

کیا زرعی مزدور کو گاؤں چھوڑنا پڑے گا؟

پاکستان کسان مزدور تحریک کے سیکرٹری ولی حیدر کے خیال میں زراعت میں مشینوں کا استعمال بے زمین خاندانوں کے لیے مزید معاشی تنگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس نے ان سے خوراک کی خود انحصاری چھین لی ہے۔

ان کے مطابق ان مشینوں کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی بے قدری اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ گنے اور مکئی جیسی فصلوں کی کٹائی اجرت کے بغیر صرف چارے کے حصول کے لیے کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

زمینداروں کے قرضے تلے دبے نسل در نسل غلام زرعی مزدور: 'یہ زنجیریں کبھی نہیں ٹوٹیں گی'۔

"اب وہ روزگار کے مواقع ڈھونڈتے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں تاکہ وہاں مزدوری کر سکیں۔"

لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں پچھلے 10 برس میں زرعی مزدوروں کے تناسب میں نو فیصد تک کمی ہوئی۔

تازہ ترین اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ ایسا زرعی شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے سے ہوا ہے۔

ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین اپنے ایک تحقیقی مقالے میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ زرعی شعبے میں مشینوں کے استعمال، شرح نمو میں کمی سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر قابل ذکر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔اس کا براہ راست اثر زرعی لیبر فورس پر بھی پڑ رہا ہے۔

ان کے اندازے کے مطابق 2030ء تک زرعی شعبے سے منسلک مزدور30 فیصد تک رہ جائیں گے۔ ان مزدوروں کا بہت سارا حصہ دوسرے شعبوں کی جانب رخ کرے گا۔

تاریخ اشاعت 9 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.