طالبان حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان آنے والی افغان مہاجر خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

طالبان حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان آنے والی افغان مہاجر خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟

اسلام گل آفریدی

جلوہ اخوندزادہ، صوبہ کنڑ کی رہائشی ہیں جو اپنے بھائی آصف کے ساتھ افغان عدلیہ میں بطور پراسیکیوٹر فرائض انجام دے رہی تھیں کہ اگست 2021ء میں منظر نامہ بدل گیا اور انہیں نہ صرف اپنا گھر بلکہ ملک بھی چھوڑنا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اگست ہی کی ایک رات کچھ مسلح افراد ان کے گھر آئے اور اُن کے بھائی آصف کا نام لے کر پکارا۔ ان کے دوسرے بھائی نے ان لوگوں کو گھر کی چھت سے دیکھ لیا اور دروازہ کھولنے کے بجائے جلوہ اخوندزادہ اور آصف کو پچھلے دروازے سے نکال دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ بن بلائے گھر آنے والے مہمان طالبان تھے جن کے متعلق انہیں پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ لوگ انہیں اور ان کے بھائی کو نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم وہ بھائی کے ساتھ کچھ دیر ہمسایوں کے گھر چھپی رہیں اور پھر رات کے تاریکی میں اپنے خاندان سمیت گھر بار چھوڑ دیا۔

"ہم اگلی صبح طورخم کے راستے پاکستان پہنچے۔ یہ سب آسان نہیں تھا لیکن ہم اس امید پر آئے تھے کہ یہاں سے کسی دوسرے ملک منتقل ہو جائیں گے۔ جس کے لیے ہم نے عالمی ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) میں اپنی رجسٹریشن کرا دی۔"

"ڈیڑھ سال بعد افغان مہاجرین کے زبردستی انخلاء کے لیے پاکستان میں پولیس کا کریک ڈاؤن شروع ہو گیا جس سے ہم دہری پریشانی میں مبتلا ہیں ایک طرف گرفتاری کا خوف ہے تو دوسری طرف ڈی پورٹیشن کی صورت میں زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔"

اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار میں آنے پر افغانستان سے تیسری بار لوگوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کی تھی۔ اس سے قبل 1979ء میں روس کے خلاف "جہاد" کے نام پر جنگ اور پھر نائن الیون کے بعد طالبان حکومت کے خلاف امریکی و اتحادی افواج کی کارروائی کے وقت افغان باشندے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

 حکومتی اندازوں کے مطابق طالبان کے موجودہ قبضے کے بعد افغانستان سے چھ لاکھ افراد پاکستان آئے جبکہ امدادی اداروں کے مطابق اب کی بار دس لاکھ کے قریب مہاجرین آ چکے جن میں اکثریت کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

پاکستان نے یہاں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو رضاکارانہ واپسی کے لیے گذشتہ سال 31 اکتوبر  کی ڈیڈ لائن دی تھی  جس کے بعد 'دی نیوز ہیومینیٹیرین ' کے مطابق پانچ لاکھ 15 ہزار افغان مہاجرین واپس چلے گئے تھے۔

تاہم غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فارہومین رائٹس اینڈ پرزنرز(شارپ) جو پچھلے کئی سال سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے کام کر رہی ہے، کے چیف ایگزیکٹو محمد مدثر کا کہنا ہےکہ اب تک تقریباً چھ لاکھ افغان واپس جا چکے ہیں۔

سعیدہ بی بی (فرضی نام) بھی افغان صوبہ ننگرہار میں پراسیکیوٹر تھیں جو اب اپنے خاندان کی تین خواتین اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ چندہفتے قبل ان کے بھائی مارکیٹ میں سواد سلف لینے گئے تھے جن کو گرفتار کر کے افغانستان ڈی پورٹ کر دیا گیا کیونکہ اُن کے ویزے کے مدت ختم ہو چکی تھی۔

"اس ڈی پورٹیشن سے ہمیں شدید مسائل درپیش ہیں لیکن زیادہ تشویش یہ ہے کہ افغانستان میں میرے بھائی کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے جو افغان پولیس میں اعلیٰ عہدے پر کام کر چکے ہیں۔"

پاکستان کی حکومت 27 اپریل کو افغان  مہاجرین کے رجسٹریشن کارڈز کی میعاد میں 30 جون 2024ء تک توسیع کر چکی ہے جن کو تیسرے مرحلے میں وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم ان سے پہلے غیر قانونی مقیم افغانوں کو بے دخل کیا جائے گا۔

پاکستان میں غیر قانونی مقیم ملکیوں کے انخلا کے حکومتی اقدام سے سب سے زیادہ وہی افغان متاثر ہو رہے ہیں جو تین سال قبل طالبان کے خوف سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔ ان مہاجرین میں اکثر تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو دیگر ممالک میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔

این ایچ سی آر کے مطابق پچھلے دو سال کے دوران پاکستان میں قیام پذیر ساڑھے چار لاکھ افغان باشندے دیگر ممالک میں منتقلی کے لیے اپنا اندراج کرا چکے ہیں۔

شارپ کے چیف ایگزیکٹو محمد مدثر بتاتے ہیں کہ پچھلے دوسال میں جتنے بھی افغان مہاجرین پاکستان آئے انہیں عالمی امدادی اداروں کی بالکل توجہ نہیں ملی اور نہ ہی ان کی باقاعدہ رجسٹریشن نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ان کے اصل تعداد بھی معلوم نہیں ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ شارپ کے پاس چار لاکھ افغان مہاجرین کا اندراج ہوا تھا جن کا ڈیٹا یو این ایچ سی آر کو بھیج دیا گیا ہے تاہم حال ہی میں پاکستان آنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً سات سے گیارہ لاکھ کے درمیان ہے۔

اُن کے بقول پاکستان میں نئے افغان مہاجرین میں سابق ججز، وکلاء، فنکاروں، خواتین کھلاڑیوں، پبلک پراسیکوٹرز، صحافیوں، شوبز کے لوگوں، سفارت خانوں اور غیر سرکاری امدادی اداروں کے ملازمین کی بڑی تعداد شامل ہے جو دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔

افغان پراسیکیوٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس و قت پاکستان میں 50 خواتین سمیت تین سو سے زائد سابق افغان پراسیکیوٹرز مقیم ہیں جو طالبان حکومت سے پہلے عدالیہ میں فرائض انجام دے رہے تھے۔

"یہ لوگ اپنی جان بچا کر پاکستان آئے اور یہاں سے دیگر ممالک میں جانے کے لیے یو این ایچ سی آر میں اپنی رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔ تاہم ایک طرف وہ اپنی ویزا درخواستوں پر کارروائی میں تاخیر کی شکایت کرتے ہیں تو دوسری جانب پاکستانی حکام کی کاروائیوں سے ان کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔"

یواین ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی بتاتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے 7-2006ء میں ساڑھے 14 لاکھ مہاجرین کی رجسٹریشن کر کے انہیں پی او آر کارڈ جاری کیے تھے لیکن بڑی تعداد اندارج سے رہ گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام افغانوں کے اندراج کا فیصلہ ہوا اور 2017ء میں مزید ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری ہوئے۔ حکومت کے مطابق ساڑھے چار لاکھ افغان پھر بھی رجسٹریشن سے رہ گئے تھے جبکہ دو سال پہلے نئے لاکھوں مہاجرین آ گئے۔

اکتوبر 2023ء میں یو این ایچ سی آر  نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں 37 لاکھ افغان مہاجر رہائش پذیر ہیں جن میں سے سات لاکھ افراد طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اپنا ملک  چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

سابقہ پراسیکیوٹر سعیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو سال پہلے یو این ایچ سی آر میں اپنی رجسٹریشن کرائی تھی جہاں انہیں بتایا گیا کہ تین مہینے میں ان سے دوبارہ رابطہ کیا جائے گا لیکن اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

"میں اپنی موبائل سم بند ہونے کی وجہ سے ہر ہفتے خود یو این ایچ سی آر کے دفتر جا کر اپنے کیس کے بارے میں پوچھتی ہوں لیکن وہاں کوئی رہنمائی کے لیے نہیں ہوتا نہ ہی اندار جانے کی اجازت ملتی ہے۔"

چیف ایگزیکٹو شارپ کے مطابق فروری 2022ء میں حکومت پاکستان نے یو این ایچ سی آر کو باضابطہ آگاہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی افغان کو بیرون ملک پناہ کے لیے دستاویز فراہم نہ کرے کیونکہ حکومت اس حوالے سے اپنی پالیسی بنا رہی ہےلیکن اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان پہنچنے والے 25 ہزار افغانیوں کی مختلف ملکوں میں پناہ کی درخواستیں آخری مرحلے میں ہیں جو غیر ملکی سفارت خانوں اور اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کی رہائش و خوراک کے اخراجات بھی متعلقہ سفارتخانے اور امدادی ادارے برداشت کر رہے ہیں۔

قیصر آفریدی کا ماننا ہے کہ یواین ایچ سی آر میں رجسٹرڈ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو اپنے ملک میں جان کا خطرہ ہے اور وہ سب دیگر ممالک جانا چاہتے ہیں۔

"یواین ایچ سی آر کا ایک طریقہ کار ہے یعنی جو زیادہ خطرے سے دوچار ہیں انہیں پہلے محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا۔ تاہم اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جلد منتقلی آسان نہیں کیونکہ ہر ملک لوگوں کی ایک مخصوص تعداد قبول کرتا ہے۔"

 پاکستان میں افغان پراسیکیوٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ افغان جمہوری دور کے تمام سرکاری ملازمین کی جان کو خطرہ ہے لیکن عدلیہ اور سیکورٹی اداروں کے سابق عہداروں کو کئی گنا ہ زیادہ خطرات ہیں جو تشدد میں ملوث طالبان کو عدالتوں سے سزائیں دلا چکے تھے۔

"اب وہی طالبان جنگجو نہ صرف غیر مشروط رہا ہو چکے ہیں بلکہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ افغانستان میں موجود سابق پراسیکیوٹرز ایک ایک کر کے مارے جا رہے ہیں۔"

افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاسی مخالفین اور سرکاری ملازمین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف تھا کہ طالبان سابق دور کے عہدیداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے رہے۔

وزات داخلہ کے مطابق برطانوی حکام اُن تین ہزار 250 افغان مہاجرین کی پاکستان سے منتقلی کا عمل تیز کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جن کو پہلے سے دستاویزات جاری ہو چکی ہیں تاہم بعض مسائل کے بناء پر ان میں سے بھی کچھ لوگوں کی روانگی تاخیر کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"جہاں چار دہائیاں مہمان نوازی کی، تھوڑا وقت اور دے دیں سردیاں ختم ہونے پر ہم خود اپنے وطن چلے جائیں گے"

پچھلے سال نومبر میں پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹس میں افغان فنکاروں نے زبردستی بے دخلی کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ افغانستان میں نہ صرف موسیقی پر پابندی ہے بلکہ فنکاروں کے جان کو بھی خطرہ ہے۔ اس لیے ان کو زبردستی بے دخل نہ کیا جائے۔

پشاور ہائی کورٹ نے دوسری سماعت پر ایک ہزار افغان فنکاروں کی رجسٹریشن اور ان کے اعداد و شمار جمع کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر بعد ازاں یہ کیس سپریم کورٹ منتقل کر دیا گیا تھا۔

فروری میں پشاور ہائی کورٹ نے 16 ٹرانس جینڈرز  کی ملک بدری بھی روک دی تھی جبکہ اپریل میں افغان ٹرانس جینڈر خورایہ احمد انوری نے مزید افغان خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ تاہم یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں پہلے سے زیر سماعت افغان فنکاروں کے کیس کے ساتھ لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین مقیم ہیں  جن میں سے جنوری 2024ءکے آخر تک 10 لاکھ کو واپس بھیجنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اب تک تقریباً چھ لاکھ کے قریب افغان باشندے واپس بھیجےجا چکے ہیں۔

پشاور میں مقیم افغان بیوہ بشریٰ بی بی (فرضی نام) خاندان کی واحد کفیل ہیں جو اپنے تین بیٹوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات سلائی کڑھائی سے پورے کرتی ہیں۔ وہ اس لیے ہجرت کر کے یہاں آ گئی تھیں کہ طالبان نے محرم کے بغیر عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی کا عندیہ دیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ گھر میں مرد ہی نہیں تو وہ اپنی مزدوری اور بچوں کی تعلیم کیسے جاری رکھ پائیں گی اس لیے وہ افغانستان واپس نہیں جانا چاہتیں ۔ لیکن مہاجرین کے خلاف اقدمات سے اُن کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

"میرے ویزے کی مدت ختم ہو گئی ہے جس پر مالک مکان مجھے روز کہتا ہے کہ پولیس غیرقانونی مہاجروں کو گھر کرائے پر دینے سے منع کر رہی ہے آپ اپنا انتظام کر لیں۔"

تاریخ اشاعت 24 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.