پشاور کے بورڈ بازار میں کھانے پینے کے سامان سے لے کر ملبوسات اور روزمرہ استعمال کی چیزوں تک ایسی بہت سی اشیا مل جاتی ہیں جو کبھی صرف افغان دارالحکومت کابل میں دستیاب تھیں۔ اسی لیے اسے 'چھوٹا کابل' بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کام کرنے والے بیشتر دکان دار بھی افغان مہاجرین ہیں جو اپنے ملک میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان آئے اور پھر یہیں بس گئے۔
سات سالہ افغان مہاجر سبحان اللہ اس بازار میں درسی کتابوں کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ قریب ہی واقع ایک سکول میں پڑھتا تھا اور اپنی نصابی کتابیں اسی دکان سے خریدتا تھا۔ لیکن اب اپنے گھر کے نامساعد مالی حالات کے باعث وہ اپنی تعلیم چھوڑ کر کام کرنے پر مجبور ہے جس کا روزانہ معاوضہ محض 50 روپے سے لے کر 100 روپے تک بنتا ہے۔
اس کے والد حبیب اللہ پشاور کے شمالی مغربی کونے میں واقع اور ضلع خیبر کی تحصیل جمرود سے متصل کارخانو بازار میں ریڑھی پر موبائل فون سے متعلقہ پرزہ جات فروخت کرتے ہیں۔ پچھلے دو سال میں کورونا وبا کی وجہ سے ان کا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے جس کے باعث انہوں نے سبحان اللہ سمیت اپنے تین بچوں کو سکول سے اٹھا لیا ہے۔
آمنہ نامی افغان بچی کے والدین نے بھی کورونا کی پیدا کردہ مالی مشکلات کی وجہ سے اس کی تعلیم منقطع کر دی ہے۔ سکول چھوڑنے سے پہلے وہ بورڈ بازار کے علاقے میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ تاہم اس کے بڑے بھائی سید آغا کی تعلیم ابھی جاری ہے۔ وہ نویں جماعت میں پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ کورونا کے پھیلنے سے پہلے اس کے 25 ہم جماعت تھے "لیکن اب ان کی تعداد صرف پانچ رہ گئی ہے"۔
بورڈ بازار ہی کے علاقے میں پڑھنے والے دسویں جماعت کے طالب علم سدیس کا بھی کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے اس کے بہت سے ساتھی تعلیم چھوڑ گئے ہیں۔ اس کا خاندان افغان صوبے ننگرہار سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا اور اس کے والد بھی ریڑھی پر خشک میوہ جات فروخت کرتے ہیں۔ لیکن حبیب اللہ کے برعکس وہ جیسے تیسے ابھی بھی اپنے بیٹے کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے ہیں۔
افغان سکولوں پر بڑھتا ہوا مالی دباؤ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان بھی یہاں قیام پذیر ہیں۔ گزشتہ برس 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد مزید تین لاکھ افغان شہریوں کو پاکستان کے ویزے جاری کیے جا چکے ہیں جن میں کئی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
ان افغانوں کی بڑی تعداد خیبرپختونخوا میں مقیم ہے جہاں ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ وہ ایسے چھوٹے موٹے کاروبار اور محنت مزدوری کرتے ہیں جن سے وہ بمشکل اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ اگر کبھی کسی وجہ سے ان کا روزگار محض چند روز کے لیے ہی متاثر ہو جائے تو ان کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ممکن نہیں رہتا۔
ان بچوں کو تعلیم دینے کے لیے پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے تعاون سے ملک بھر کی افغان بستیوں میں ایک سو 53 سکول قائم کر رکھے ہیں۔ان میں سے ایک سو پانچ سکول خیبرپختونخوا میں واقع ہیں جن میں مجموعی طور پر تقریباً 53 ہزار طلبہ پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان میں سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد تین ہزار ہے۔ یہ سکول پرائمری شعبے کے ہر طالب علم سے ہر ماہ کم از کم 50 روپے فیس لیتے ہیں۔
دو سال پہلے جب پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو ابتدائی طور پر یہ سکول چھ ماہ کے لیے بند کر دیے گئے تھے۔ جب انہیں دوبارہ کھولا گیا تو ان کی انتظامیہ نے طالب علموں سے بندش میں گزرے مہینوں کی فیسوں کا تقاضا شروع کر دیا۔ لیکن وبا کی وجہ سے ان میں سے بہت سے طلبا کے والدین کے کام کاج یا تو ٹھپ ہو گئے تھے اور یا پھر ان کی آمدن پہلے کی نسبت بہت کم رہ گئی تھی۔ اس لیے ان کے لیے غیر ادا شدہ فیسیں بھرنا ممکن نہیں تھا۔ نتیجتاً انہوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا ہی بند کر دیا۔
سبحان اللہ کے سکول کے پرنسپل سفیر اللہ رحمتی اس تبدیلی کی توثیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "وبا سے پہلے ہمارے سکول میں چھ سو بچے زیر تعلیم تھے لیکن اب اس کے طلبا کی تعداد صرف ایک سو 40 رہ گئی ہے"۔
فیسوں کی عدام ادائیگی کے علاوہ افغان سکولوں کے نصاب میں کی گئی ایک حالیہ تبدیلی بھی مہاجر بچوں کی تعلیم پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ یہ تبدیلی 2019 میں آئی جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں طویل قیام کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ان کے سکولوں میں اب افغان نصاب کے بجائے پاکستانی نصاب پڑھایا جائے۔ چنانچہ جو طلبا پہلے پشتو، دری یا فارسی جیسی افغان زبانوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے انہیں اب سارا نصاب اردو زبان میں پرھنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے بچوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی: 'ہمارا عقیدہ اور ہماری نسلی شناخت ہمارے پیدائشی جرائم بن گئے ہیں'۔
ان دونوں وجوہات کی بنا پر طالب علموں کی تعداد میں ہونے والی کمی کے باعث افغان سکولوں کے مالی وسائل پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سفیر اللہ رحمتی کہتے ہیں کہ ان کے سکول کی عمارت کا کرایہ 50 ہزار روپے ماہانہ ہے اور اس میں 12 اساتذہ تعینات ہیں۔ لیکن طلبا کی کم ہوتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ان کا کہنا ہے کہ "کرایہ اور بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بعد ہمارے لیے اساتذہ کو تنخواہ دینا بھی مشکل ہو جاتا ہے"۔
پشاور میں واقع افغان سکولوں کے پرنسپلوں کی ایسوسی ایشن کے صدر امن اللہ نصرت بھی ان عوامل کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی مالی مشکلات کی وجہ سے بہت سے افغان سکول بند ہو رہے ہیں۔ پشاور ہی کے علاقے کبابیان کے ایک سکول کے پرنسپل محمد ضمیر خان خیبر پختونخوا میں رہنے والے افغان بچوں کی تعلیمی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب اس کا ایک ہی حل باقی رہ گیا ہے جو، ان کے مطابق، یہ ہے کہ "اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین افغان بچوں کے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرے"۔ ان کے خیال میں اس سے ایک طرف کورونا کی وجہ سے پریشان حال والدین کا معاشی بوجھ ہلکا ہو گا اور دوسری طرف سکولوں کی مالی مشکلات کا بھی ازالہ ہو سکے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی افغان سکولوں نے مل کر اقوام متحدہ کے ادارے کو اس حوالے سے ایک درخواست بھی بھیجی ہے مگر "تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی"۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی اس درخواست سے لا علم ہیں۔
درحقیقت انہیں اس بات کی خبر بھی نہیں کہ خیبر پختونخوا میں مقیم افغان مہاجر بچے بڑی تعداد میں سکول چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے "ادارے کے پاس ان بچوں کے سکول چھوڑنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے"۔
تاریخ اشاعت 1 مارچ 2022