جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا: لاہور کے گندے کوڑے میں اچھی زندگی ڈھونڈتے افغان مہاجر

postImg

کلیم اللہ

postImg

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا: لاہور کے گندے کوڑے میں اچھی زندگی ڈھونڈتے افغان مہاجر

کلیم اللہ

قہرمان لاہور کے کوڑا دان میں رہتے ہیں۔

ان کا گھر سگیاں پل کے قریب راوی کنارے ایک کچی بستی میں ہے جس کے چاروں اطراف لاہور شہر سے لائے گئے کوڑے کے انبار ہیں۔ ان کے خاندان کے مرد اور بچے سارا دن گلی گلی پھر کر یہ کوڑا اکٹھا کرتے ہیں تاکہ اس میں سے قابل استعمال چیزیں فروخت کر کے اپنے گھر کا کرایہ ادا کر سکیں۔

ان کا خاندان افغانستان کے صوبہ مزارشریف سے 2002 میں ہجرت کر کے یہاں آیا تھا۔ قہرمان اس وقت آٹھ برس کے تھے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی کوڑے دان میں گزاری ہے۔اس بستی میں باقی گھر بھی مہاجرین کے ہی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندوز، تخار اور مزارشریف سے ہے۔

قہرمان کی ذمہ داری ہوٹلوں کی بچی ہوئی روٹیاں، سبزیوں کے چھلکے اور گلے سڑے پھل اکٹھے کرنا ہے۔ یہ ان کی گائیوں کے چارے کے طور پر کام آتے ہیں۔ وہ ان پڑھ ہیں اور ان کی بستی میں کوئی سکول نہیں۔ انہوں نے ایک بار ایک جز وقتی نوکری کی لیکن اس میں گزارہ مشکل تھا۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چند مویشی پال لیے جنہیں وہ بقرعید پر فروخت کرتے ہیں۔

کوڑا ڈھونے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہی ایک لوڈر رکشا بھی خرید لیا لیکن یہ ان کے نام پر رجسٹر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں۔ ان کے پاس افغان مہاجر کارڈ یا پروف آف رجسٹریشن کارڈ تو ہے لیکن اس پر وہ یہاں زمین اور گاڑی وغیرہ نہیں خرید سکتے۔ ان کے ایک پاکستانی دوست نے انہیں اپنے نام پر رکشا خرید دیا تا کہ ان کا روزگار چلے۔

قہرمان اپنے مویشیوں کا چارہ اکٹھا کرنے کے لئے روزانہ رات کو 12 بجے گھر سے نکلتے ہیں۔

 "رات کے اندھیرے میں اس لیے کہ پولیس کی ہراسانی سے کچھ بچا جا سکے۔ مہاجر کارڈ ہونے کے باوجود وہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہم سے پیسے طلب کرتے ہیں وگرنہ چوری، ڈکیتی وغیرہ کی جھوٹی ایف آئی آر کاٹ کر تھانے میں بند کر دیتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہمیں چھڑانے کوئی نہیں آئے گا۔"

مہاجر کارڈ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی) جاری کرتا ہے اور نادرا اس کی تصدیق کرتا ہے۔ کارڈ کے حامل افراد قانونی طور پر ملک میں رہ سکتے ہیں اور ان کو محدود شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

راوی کنارے افغان مہاجرین  کی کچی بستی کے قریب اپنے مویشیوں کے لیے بنائے گئے باڑے <br>راوی کنارے افغان مہاجرین  کی کچی بستی کے قریب اپنے مویشیوں کے لیے بنائے گئے باڑے

 یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر افریدی کہتے ہیں کہ کارڈ رکھنے والے مہاجرین کو اگر حکام حراست میں لیں تو یو این ایچ سی آر کی قانونی ٹیم کے وکلاء ہر طرح کی قانونی مدد مفت فراہم کرتی ہے۔ لیکن قہرمان کا تجربہ اس سے مختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہے کہ ہمیں چھڑانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور موقع پر پیسے دے کر ہی جان چھڑانا پڑتی ہے۔

پولیس کے علاوہ عام لوگ بھی ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں "جیسے ہم چور ہوں۔یہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں یہی کوڑے کا کام ہی کرنا پڑے گا۔ بس یہی ہماری زندگی ہے۔"

2007 میں قہرمان اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان گئے تو وہاں لوگ انہیں طنزاً پاکستانی مہاجر کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری نہ وہاں پر شناخت ہے اور نہ یہاں۔ ہمارے بچے بھی اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں لیکن پاکستان ہمیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا ہے۔

قہرمان اپنے مویشیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ ہم نے چھ لاکھ روپے جوڑ کر یہیں سے خریدے تھے، یہیں بیچیں گے۔ ہمارا سب کچھ یہیں ہے لیکن ہم بیگانے ہیں اور بیگانے ہی رہیں گے"۔

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل 30 لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں جن میں سے 14 لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 52.2 فیصد خیبر پختونخوا، 24.5 فیصد بلوچستان، 5.6 فیصد سندھ جبکہ 14.4 فیصد صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں۔

'ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کب ہمیں واپس بھیج دیا جائے'

اسی بستی میں بغلان سے تعلق رکھنے والا پینتیس سالہ ودان بھی رہتے ہیں۔ وہ کباڑ خریدنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ قہرمان کے خاندان کی طرح تنگ دست نہیں ہیں۔ لیکن بہتر مالی صورت حال کے باوجود وہ بھی بے دل رہتے ہیں۔ "ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کب ہمیں افغانستان بھیج دیا جائے"۔

وہ وسائل اور خواہش ہونے کے باوجود کباڑ کے علاوہ کسی دوسرے زیادہ منافع بخش کاروبار میں اپنا سرمایہ نہیں لگاتے کہ ان کی شہری حیثیت اور محدود حقوق اس میں آڑے آ جاتے ہیں۔ وہ پانچ مرلہ کے اپنے جس گھر میں رہتے ہیں اس کی رجسٹری بھی ان کے ایک پاکستانی دوست کے نام پر ہے۔

گزشتہ ماہ جب سندھ حکومت کے مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کے اقدام کی خبریں آئیں تو ودان کا عدم تحفظ کا احساس خوف میں بدل گیا۔

"میری پیدائش یہاں ہوئی اور میرے دوست، رشتہ داریاں، کاروبار سب کچھ یہاں پاکستان میں ہی ہے۔ اگر مجھے یہاں سے بھیج دیا گیا تو میں وہاں کیا کروں گا۔ وہاں تو پہلے ہی روزگار نہیں ہے اور لوگ وہاں سے روزگار اور دیگر وجوہات کے بنیاد پر نکلنے کی تگ و دو میں ہیں"۔

مہاجرین سے متعلق 1951 کے عالمی جنیوا کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مہاجرین کو زبردستی ان کے وطن نہ بھیجا جائے جہاں ان کی آزادی اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔ پاکستان ان عالمی معاہدوں کا فریق نہیں لیکن پاکستان نے پناہ گزینوں کے تحفظ اور حقوق سے متعلق نہ کوئی اپنی کوئی قومی پالیسی بنائی ہے اور نہ کوئی قانون سازی کی ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر افریدی کا کہنا ہے پاکستان ان افغانوں کو ڈیپورٹ نہیں کر رہا جن کے پاس نادرہ کا تصدیق شدہ مہاجر کارڈ ہے کیونکہ وہ پاکستان میں رہنے کے قانونی طور پر مجاز ہیں۔ ان کے مطابق سندھ حکومت نے ان افراد کو حراست میں لیا تھا جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں تھے۔

منیزہ کاکڑ اسے درست نہیں مانتیں۔ وہ قانون دان اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سندھ میں گذشتہ دو ماہ میں جن 14 سو افغان مہاجرین کو گرفتار کیا گیا ان میں سے چار سو کے پاس مہاجر کارڈ یا ویزہ وغیرہ موجود ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر اکاوئنٹ پر ان دستاویزات کی تصاویر بھی شیئر کیں۔

انسانی حقوق کے وکیل طارق افغان کہتے ہیں کہ افغان مہاجروں کو ڈیپورٹ کرنا انسانی حقوق کی اس شق کی صریح خلاف ورزی ہو گی جو پناہ گزینوں یا پناہ کے متلاشیوں کو تحفظ دیتا ہے کہ انہیں زبردستی وہاں واپس نہ بھیجا جائے جہاں ان پر ظلم کیا جا سکتا ہے۔

طارق افغان حال ہی میں پاکستاں میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افغان موسیقاروں کی گرفتاری کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں ان کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں "گو پاکستان جنیوا کنونشن کا فریق نہیں لیکن انسانی حقوق کا (ڈیپورٹ نہ کرنے کا) یہ اصول اقوام متحدہ کے تمام رکن ملکوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے"۔

اقوام متحدہ کا یہ ادارہ مہاجر بستیوں میں بچوں کی تعلیم کا ذمہ بھی اٹھاتا ہے لیکن سگیاں پل کے پاس لاہور کے کوڑا دان میں آباد یہ بستی یو این ایچ سی آر کے رجسٹرڈ مہاجر کیمپ کا درجہ نہیں رکھتی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور میں مقیم افغان:' ہم ہر وقت غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں واپس نہ بھیج دیا جائے'۔

بستی کے ایک چوک میں ایک ریہڑی بان مکئی کے سٹے بیچتا ہے۔ اس نے لاؤڈ سپیکر پر تیز آواز میں پشتو کا ایک ترانہ لگایا ہوا ہے جس میں افغانستان کے وحدت کی تمنا اور وطن سے محبت کا اظہار ہے۔
ریہڑی بان افغان نہیں اور نہ ہی پشتو سمجھ سکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس ترانے میں کیا ہے۔

"مجھے بس یہ معلوم ہے کہ جب یہ بجتا ہے تو افغان بچے خوشی خوشی سٹے خریدنے گھروں سے نکل آتے ہیں"۔

ریہڑی بان کا خیال ہے کہ اس کا کاروبار اچھا چل رہا ہے۔

(اس فیچر کے لئے جن افراد سے بات کی گئی ہے ان کی پہچان چھپانے کے لیے ان کے نام اصل استعمال نہیں کئے گئے)

تاریخ اشاعت 3 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.