'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔

postImg

کلیم اللہ

postImg

'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔

کلیم اللہ

حفیظ اللہ 16 ستمبر 2021 کو پیش آنے والے واقعات پر ابھی تک غم و غصے میں ہیں۔ 

اس دن شام سات بجے پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہل کاروں نے بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں واقع کچلاک کے علاقے میں ایک افغان خیمہ بستی کا محاصرہ کر کے اس کے مکینوں کو حکم دیا کہ وہ جلد از جلد اپنا سامان سمیٹ لیں کیونکہ انہیں افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔

حفیظ اللہ کے مطابق اسی رات ڈیڑھ بجے کے قریب 100 سے زائد افغان خاندانوں کو 18 بسوں میں بٹھا کر بستی سے 100 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع سرحدی شہر چمن لے جایا گیا جہاں سے انہیں پاک-افغان سرحد کے دوسری طرف بھیج دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کام اتنی جلدی میں کیا گیا کہ بہت سے مہاجرین کا سامان یہیں رہ گیا۔ 

خیمہ بستی میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر معمور 27 سالہ سرکاری اہلکار محمد صدام بھی اس کے اچانک خالی ہونے سے آگاہ ہیں۔ 13 ستمبر کو کیے گئے ایک سروے میں انہوں نے یہاں 110 خاندانوں کے قیام کی نشان دہی کی تھی لیکن ایک ہفتے بعد جب وہ دوبارہ یہاں آئے تو بستی کے مقیم جا چکے تھے اور اس میں جگہ جگہ خیمے اکھاڑے جانے کے تازہ نشان موجود تھے۔

حفیظ اللہ کسی نہ کسی طرح اس تمام کارروائی سے محفوظ رہے اگرچہ اس رات ان کے کئی رشتہ داروں کو ان کے آبائی شہر مزار شریف واپس بھیج دیا گیا۔

کچلاک کی مرکزی شاہراہ کے ساتھ واقع اجڑی ہوئی خیمہ بستی میں اکتوبر 2021 کے اوائل میں وہ لکڑی اور پرانے کپڑوں سے بنے ایک ایسے خیمے کے اندر بیٹھے ہیں جس کی چھت سے مختلف پرندوں کے پنجرے لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں رہنے والے افغان خاندانوں کا تعلق افغانستان کے علاقوں ہلمند، مزار شریف، جلال آباد، کابل، تخار اور بدخشان سے تھا اور ان میں سے زیادہ تر 15 اگست 2021 کو افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ 

حفیظ اللہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کئی مشکلات عبور کرنے کے بعد اس خیمہ بستی تک پہنچے تھے۔ ان کے مطابق "ان میں سے ہر ایک نے پاک-افغان سرحد عبور کرنے کے لیے پاکستانی سرحدی حکام کو پانچ ہزار روپے فی کس کے حساب سے رشوت بھی دی تھی" (تاہم آزادانہ ذرائع سے ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی)۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں سے کئی مہاجرین کی زندگیوں کو افغانستان میں خطرہ تھا جبکہ ان میں سے اکثر جنگ وجدل کے خوف اور خراب معیشت کی وجہ سے پاکستان آئے تھے۔

حفیظ اللہ کا اپنا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں پچھلے 40 سال میں تین بار افغانستان سے پاکستان آچکا ہے۔ وہ خود 35 سال پہلے پاکستان میں ہی ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ اور اب بھی پچھلے چار سال سے اپنے سات بچوں اور بیوی سمیت کچلاک کی خیمہ بستی میں مقیم ہیں۔ 

ان کے بقول "پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ مجھے اپنا ملک لگتا ہے"۔ اس کے باوجود انہیں ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں انہیں پکڑ کر افغانستان نہ بھیج دیا جائے۔ (ان کے اس خوف کے پیشِ نظر ان کا اصلی نام پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔)

افغان مہاجرین کی جبری واپسی 

کوئٹہ کے کمشنر کے دفتر میں کام کرنے والے ایک اہل کار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نوٹی فیکیشن تو جاری نہیں کیا لیکن بلوچستان کی صوبائی انتظامیہ کو زبانی ہدایات دی گئی ہیں کہ پاک-افغان سرحد پار کر کے اِس طرف آنے والے افغان شہریوں کو فی الفور واپس بھیجا جائے۔ ان کے مطابق اکتوبر 2021 کے پہلے ہفتے تک کراچی، قلات، لسبیلہ اور کوئٹہ سمیت ملک کے کئی حصوں سے 14 سو سے زیادہ افغانوں کو پکڑ کر افغانستان بھیجا جا چکا تھا۔ 

ان میں سے زیادہ تر کو کوئٹہ کے حاجی کیمپ میں اکٹھا کیا گیا تھا جہاں ایک دن گزارنے کے بعد انہیں یا تو چمن کے راستے ان کے ملک میں بھیجا گیا یا انہیں کوئٹہ سے تین سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع قلعہ سیف اللہ کے علاقے بادینی سے سرحد کے اس پار روانہ کیا گیا۔ 

بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی،انجینئرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں مہاجرین اور ہجرت پر تحقیق کرنے والے ادارے، انٹرنیشنل سنٹر فار ریفیوجی اینڈ مائیگریشن سٹڈیز، کے ڈائریکٹر حمال اسلم بلوچ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان افغان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے کیونکہ اس نے 1951 میں بنائے گئے اقوامِ متحدہ کے جنیوا کنونشن پر دستخط نہیں کیے جس کی توثیق کرنے والے ممالک مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے پابند ہیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار شروع ہونے کے بعد پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت پر کوئی بڑا بوجھ نہیں ڈال رہے اس لیے محض مالی وجوہات کی بنیاد پر انہیں واپس بھیجنا مناسب نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 15 اگست کے بعد پاکستان آنے والے افغانوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ طالبان انہیں ان کے مسلک یا قومیت کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو "افغانستان بھیجنا باعثِ تشویش ہے"۔ 

پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی بھی کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے 17 اگست 2021 کو حکومتِ پاکستان کو ایک اعلامیہ بھیجا تھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ "ان تمام افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو ان کے اپنے ملک میں ان کی نسل، مذہب، قومیت، سیاسی نظریات یا عمومی تشدد کی وجہ سے خطرہ ہے"۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف ائی اے) کے کوئٹہ میں مقیم ڈپٹی ڈائریکٹر سلطان آفریدی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اس اعلامیے پر مکمل طور پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "کسی ایسے افغان مہاجر کو افغانستان واپس نہیں بھیجا جا رہا ہے جس نے امریکہ یا سابق افغان حکومت کے ساتھ کام کیا ہو کیونکہ ایسے لوگوں کی زندگیوں کو سنجیدہ خطرات لاحق ہیں" بلکہ، ان کے مطابق، "پاکستان ایسے مہاجرین کو کسی تیسرے ملک میں جانے کیلئے راستہ بھی فراہم کر رہا ہے"۔ 

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے چند ماہ میں سرحد پار کر کے اِس طرف آنے والے افغان مہاجرین میں بعض ایسے لوگ بھی موجود تھے جو پاکستان کی سالمیت اور امن امان کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ ان کے بقول ایسے لوگوں کو فوراً افغانستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔

سلطان آفریدی مزید کہتے ہیں کہ کچھ افغان مہاجرین پاکستان آ کر چوری چھپے یورپ اور امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کو ایسے تمام افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا اختیار حاصل ہے جن کے پاس یورپ یا امریکہ جانے کے لیے درکار سفری دستاویزات تو نہیں ہوتیں لیکن وہ پھر بھی پاکستان کے راستے ان علاقوں میں پہنچنا چاہتے ہیں۔  
حفیظ اللہ ان سرکاری وضاحتوں  سے متفق نہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک میں معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہاں ایک پرسکون زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے پاکستان کو ایسے لوگوں کو واپس نہیں بھیجنا چاہیے جو وہاں سے بھاگ کر یہاں آ رہے ہیں۔ ان کے بقول "افغانستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر افغان اپنا وطن چھوڑ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امن اور جنگ سے نجات چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو ان حالات سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے جن سے وہ خود گزرے ہیں"۔ 

تاریخ اشاعت 24 نومبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.