احسان الدین کی عمر محض 21 سال ہے لیکن چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کا خرچہ چلانے کی ساری ذمہ داری انہی کے سر ہے۔ اس لیے پچھلے چھ ماہ سے وہ وسطی پنجاب کے شہر ساہیوال کے مضافات میں واقع پنیر بنانے کی فیکٹری ایڈم مِلک فوڈز میں کام کر رہے ہیں۔
لیکن انہیں شکایت ہے کہ اس "فیکٹری میں کام کرنے والوں کو کبھی ان کی قانونی اجرت نہیں دی جاتی حالانکہ یہاں روزانہ تقریباً ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے کا پنیر تیار کیا جاتا ہے"۔ ان کے مطابق فیکٹری میں کام کرنے والے پانچ سو کے قریب مزدوروں میں سے اکثر اپنی تنخواہوں سے ناخوش ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اس کے بارے میں خاموش رہتے ہیں کیونکہ "کچھ عرصہ پہلے جب کچھ لوگوں نے یک زبان ہو کر انتظامیہ سے قانونی معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا"۔
ایڈم مِلک فوڈز میں کام کرنے والے ایک 24 سالہ مزدور بھی اسی طرح کے مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن وہ اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتے تاکہ کہیں انہیں نوکری سے نہ نکال دیا جائے۔
ان کا تعلق ساہیوال کے ایک قریبی گاؤں سے ہے اور وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کے والد اپنی تین ایکڑ زرعی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہیں لیکن اس زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ان کے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لیے انہیں ایڈم مِلک فوڈز میں کام کر کے مزید رقم کمانا پڑتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سات سال پہلے جب انہوں نے اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کی تو ان کی تنخواہ 14 ہزار روپے مقرر کی گئی۔ تین سال پہلے ان کی تنخواہ بڑھا کر 16 ہزار روپے کر دی گئی اگرچہ اُس وقت کم از کم ماہانہ سرکاری اجرت 17 ہزار پانچ سو روپے تھی۔ اسی طرح پچھلے دو سال میں ان کی تنخواہ میں دو ہزار روپے کا مزید اضافہ کیا گیا ہے حالانکہ اس دوران کم از کم ماہانہ سرکاری اجرت بڑھ کر 25 ہزار روپے ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ انہیں باقاعدگی سے بھی نہیں ملتی بلکہ کئی دفعہ اسے قسطوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ وہ اس سال چھوٹی عید سے پہلے واجب الادا تنخواہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی صرف نصف ادائیگی ہی وقت پر کی گئی جبکہ اس کا باقی نصف عید کے بعد دیا گیا۔ ان کے مطابق "کئی مزدوروں نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کو ںہ صرف سرکاری تعطیلات پر بلکہ ہر اتوار کو بھی کام کرنا پڑتا ہے لیکن "اس کام کے اضافی پیسے ملنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ اس کا دارومدار فیکٹری مالکان کی صوابدید پر ہوتا ہے"۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہر ماہ چاند کی 11 تاریخ کو فیکٹری بند رہتی ہے کیونکہ اس روز مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد دودھ بیچنے کے بجائے گیارہویں کا ختم دلاتی ہے جس میں دودھ یا اس کی کھیر تقسیم کی جاتی ہے۔ چاند کی ہر 21 تاریخ کو بھی فیکٹری میں کام نہیں ہوتا کیونکہ اس روز بھی بوجوہ اسے کم دودھ ملتا ہے۔
لیکن، ان کے مطابق، اگر کوئی ملازم چاند کی 12 یا 22 تاریخ کو چھٹی کر لے تو اس کی تنخواہ سے پچھلے دن کے پیسے بھی کاٹ لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح "اگر کوئی مزدور کبھی آدھے دن کی چھٹی کرے تو اس کی پورے دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ہر مزدور کی تنخواہ سے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) کی قسط کی مد میں 23 روپے ماہانہ منہا کیے جاتے ہیں لیکن اس کی کوئی رسید نہیں دی جاتی"۔ (اس سرکاری ادارے کا کام بوڑھے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے لیکن اس کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور اس کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں اور اپنے ماہانہ واجبات باقاعدگی سے ادا کریں۔ ایڈم مِلک فوڈز میں کام کرنے والے مزدوروں کے بارے میں واضح نہیں کہ آیا وہ اس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔)
اس مزدور کو یہ شکوہ بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی تقرر نامہ یا کوئی اور دستاویزی ثبوت نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ وہ ایڈم مِلک فوڈز کے ملازم ہیں۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ "فیکٹری مالکان جب چاہیں مجھے نوکری سے نکال سکتے ہیں اور میں اس کے خلاف کسی سرکاری محکمے یا کسی عدالت میں شکایت بھی نہیں کر سکتا"۔ (ایڈم مِلک فوڈز لمیٹڈ کے ایک انتظامی اہل کار علی رضا اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مزدوروں کو تقرر نامے اس لیے نہیں دیے جاتے کہ انہیں درحقیقت مستقل نوکری دی ہی نہیں جاتی بلکہ روزانہ کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے۔)
فیکٹری میں کام کرنے والے کئی لوگ مسلسل مطالبہ کرتے چلے آ ئے ہیں کہ یہ تمام مسائل حل کر کے انہیں قانون کے مطابق حالات کار فراہم کیے جائیں۔ لیکن، مذکورہ بالا مزدور کے بقول، "ان کی کبھی ایک بھی نہیں سنی گئی"۔
قانون بڑا یا حکومتی اہل کار؟
مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ملک گیر تنظیم پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سعد چوہدری کا کہنا ہے فیکٹری ایکٹ 1934 اور دوسرے لیبر قوانین کی رو سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگوں سے ایک دن میں آٹھ گھنٹے اور ایک ہفتے میں 48 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا۔ ان کے مطابق "اگر کوئی مزدور اس سے زیادہ وقت کام کرے گا تو قانون کہتا ہے کہ اضافی وقت کے لیے اسے اس کی فی گھنٹہ اجرت سے دگنا معاوضہ دیا جائے گا"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہفتہ وار اور سرکاری تعطیلات کے علاوہ قانوناً "ہر مزدور کو سالانہ 24 چھٹیاں ملنی چاہئیں جن میں بیماری کی صورت میں دی جانے والی بارہ چھٹیاں بھی شامل ہیں"۔
انہی قوانین پر عمل درآمد کا مطالبہ لے کر ایڈم مِلک فوڈز کے کچھ مزدور تین جولائی 2022 کو فیکٹری کے منیجر کے پاس میں گئے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس نے انہیں دھکے دے کر اپنے دفتر سے باہر نکال دیا۔ اس سلوک سے تنگ آ کر انہوں نے پیکنگ کے شعبے میں کام کرنے والے دو سو سے زیادہ مزدوروں کو ساتھ لیا اور فیکٹری کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر آکر ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں
میری ذات ذرہِ بے نشان: 'زرعی مزدور خواتین کی مشقت کو کام تسلیم ہی نہیں کیا جاتا'۔
اس احتجاج کو ختم کرانے لیے فیکٹری انتظامیہ نے انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ کام پر واپس آ جائیں تو ان کی تنخواہ 19 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 21 ہزار روپے ماہانہ کر دی جائے گی۔ لیکن مزدوروں نے یہ پیش کش رد کر دی اور اپنے مطالبات ایک درخواست کی شکل میں ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے پاس لے گئے۔
اس درخواست میں انہوں نے اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ انہیں کم از کم سرکاری اجرت کے برابر ماہانہ تنخواہ دی جائے، تمام سرکاری تعطیلات پر چھٹی کرنے کی اجازت دی جائے، اضافی کام کا اضافی معاوضہ دیا جائے، پنجاب کے محکمہ سوشل سکیورٹی کے ساتھ ان کی رجسٹریشن کرائی جائے تاکہ انہیں مفت علاج معالجے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم اور شادیوں کے لیے سرکاری امداد مل سکے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے مزدوروں کو نوکری سے نہ نکالا جائے۔
ڈپٹی کمشنر نے ان کی درخواست مقامی لیبر آفیسر کو بھیج دی جن کے بارے میں مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیکٹری مالکان کی طرف داری کرتے ہوئے ان کے مطالبات مانے بغیر ہی انہیں کام پر واپس جانے کا کہا۔ احتجاج کرنے والے مزدوروں کے ایک نوجوان قائد اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس وقت عیدالاضحیٰ قریب آ رہی تھی جو ایسا موقع ہوتا ہے جب پنیر بہت زیادہ فروخت ہوتا ہے اس لیے علاقے کے بااثر لوگوں کے ذریعے ہم پر احتجاج ختم کرنے کے لیے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ ہم اگلے دن کام پر واپس آ گئے"۔
دوسری طرف ساہیوال کے لیبر ڈیپارٹمںٹ میں متعین اسسٹنٹ ڈائریکٹر کلیم یوسف کا کہنا ہے کہ احتجاج کے خاتمے کی وجہ ان کی طرف سے مزدوروں کو کرائی گئی یقین دہانی ہے کہ "یکم اگست 2022 سے انہیں 25 ہزار روپے ماہانہ اجرت ہی ملے گی"۔
اگرچہ اس یقین دہانی پر عمل درآمد کرتے ہوئے فیکٹری انتظامیہ نے اِس ماہ اپنے ملازموں کو 25 ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ہی اجرت دی ہے لیکن اس میں کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ایک کر کے ان تمام 20 لوگوں کو بھی نوکری سے نکال دیا ہے جو احتجاج میں پیش پیش تھے۔
تاریخ اشاعت 7 اگست 2022