گرمیوں کے اواخر کی ایک حبس زدہ رات کو خالد شاہ نے رِمشا جاوید کو جھنجھوڑ کر جگایا اور اسے پینے کا پانی لانے کو کہا۔ جب وہ پانی لانے کے لئے کچن میں گئی تو اس نے دیکھا کہ وہ اس کے پیچھے آ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے رمشا سے جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی مگر شور شرابہ سن کر اس کی بیوی نورین، جو کہ رمشا کی بڑی بہن ہے، بیدار ہو گئی اور خالد شاہ سے جھگڑنے لگی جس کی وجہ سے وہ موقع سے فرار ہو گیا۔
نورین مسیحی تھی جسے چند سال پہلے خالد شاہ نے اسلام قبول کروایا اور اس سے شادی کر لی۔ دونوں کے دو بچے ہیں جبکہ خالد کی یہ دوسری شادی تھی۔ پندرہ سالہ رِمشا اس کی جنسی ہوس کا نشانہ کیسے بنی، یہ دھوکے اور جبر کی ایک طویل داستان ہے۔
17 مارچ 2019 کو خالد شاہ، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے والے ایک ادارے میں کام کرتا ہے، لاہور میں غریب مزدوروں کے رہائشی علاقے چونگی امرسدھو میں رِمشا کے گھر گیا۔ اس وقت رِمشا کے والدین کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے۔ خالد کی بیوی نورین اور ایک دوسرا شخص بھی اس کے ساتھ تھے۔ اس نے رِمشا اور اس کی تیرہ سالہ بہن نیہا کو بتایا کہ ان کے والدین کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ ان دونوں کو جائے حادثہ پر لے جانے کے لیے آیا ہے۔ جب وہ اس کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں تو وہ انہیں اپنے گھر لے گیا اور ایک کمرے میں بند کر دیا۔
یہ تفصیلات 27 ستمبر 2019 کو تھانہ چونگی امرسدھو میں خالد شاہ کے خلاف درج کرائی گئی ایک فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں درج ہیں۔
رِمشا کا کہنا ہے کہ 'جب مجھے اور نیہا کو گھر میں بند رکھا گیا تو خالد باقاعدگی سے ہمارے پاس آتا تھا۔ وہ مسلح ہوتا اور دو دیگر آدمی بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس سے شادی کر کے اس کی تیسری بیوی بن جاؤں۔ وہ ہم دونوں کو دھمکیاں دیتا تھا کہ اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تو وہ ہمیں قتل کر دے گا'۔
رمشا بتاتی ہیں: 'چند روز بعد وہ مجھے اپنے دفتر لے گیا جہاں اس نے مجھے اپنے کپڑے اتارنے کا کہا۔ مجھے جوس جیسی کوئی چیز پلائی گئی جس سے میں نیم بیہوش ہو گئی اس کے باوجود میں نے ہر ممکن مزاحمت کی اور اپنی پوری طاقت سے اس کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ جس کے بعد اس نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا'۔
رمشا کے والد اڑتالیس سالہ جاوید مسیح پیشے کے اعتبار سے مزدور ہیں۔ جب انہیں اپنی بیٹیوں کے اغوا کی خبر ہوئی تو انہوں نے ان کی بازیابی کے لیے پولیس سے رابطہ کیا مگر انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے خالد کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
جاوید مسیح کا کہنا ہے: 'میں درجنوں بار تھانے گیا۔ میں نے پولیس کو بتایا کہ میری بیٹیاں اتنی چھوٹی ہیں کہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ مگر کسی نے میری بات نہ سنی۔ وہ میری شکایت ہی درج نہیں کرتے تھے'۔ یہ کہتے ہوئے جاوید مسیح کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
لڑکیوں کے اغوا سے ڈیڑھ ماہ بعد بالآخر ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی کوششوں سے پولیس نے جاوید مسیح کی شکایت درج کر لی۔ دوسری طرف خالد شاہ نے پولیس کی کارروائی سے بچنے کے لیے رِمشا اور نیہا کو ایک عدالت میں پیش کیا جہاں انہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے کسی جبر یا دھونس کے بغیر اسلام قبول کیا ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں۔ عدالت نے انہیں خالد شاہ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ اگلے چھ ماہ وہ اسی کے گھر میں رہیں۔
رِمشا کا الزام ہے کہ اس عرصہ میں خالد شاہ نے تواتر سے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'وہ میری بڑی بہن اور نیہا کو سودا سلف لانے کے لیے بازار بھیج دیتا اور مجھے گھسیٹ کر اپنے کمرے میں لے جاتا'۔ یہ کہتے ہوئے رِمشا بے حد پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
اسی دوران رمشا کے والد جاوید مسیح فالج کے حملے میں اپاہج ہو گئے اور ان کی زیادہ تر یادداشت جاتی رہی۔ تاہم خالد شاہ کا نام سنتے ہی انہیں اب بھی غصہ آ جاتا ہے اس لیے گھر والوں نے انہیں یہ بتا رکھا ہے کہ اس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ رِمشا کی والدہ رانی کہتی ہیں کہ اگر جاوید مسیح کو 'علم ہو جائے کہ خالد شاہ آزاد پھر رہا ہے جبکہ اس کی بیٹیوں کی زندگی مصیبت بن گئی ہے تو اسے بہت برا لگے گا'۔
جب خالد شاہ کی بیوی نورین نے رِمشا کے ساتھ زیادتی کرنے کی اس کی کوشش ناکام بنائی تو وہ گھر سے بھاگ نکلا تھا جس کے بعد رِمشا اور نیہا بھی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ اپنے گھر واپس آنے کے بعد انہوں نے پولیس کا تحفظ حاصل کرنے کی کئی کوششیں کیں مگر پولیس نے ان کی درخواست قبول نہ کی کیونکہ وہ پہلے ہی عدالت میں خالد شاہ کے حق میں بیان دے چکی تھیں۔
اس موقع پر چند مقامی سماجی کارکنوں نے رِمشا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی پاداش میں خالد شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔ پولیس کی جانب سے کچھ لیت و لعل کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر یہ مقدمہ اس کے خلاف درج ہو گیا اور اس نے رِمشا اور اس کے خاندان کو ہراساں کرنا بند کر دیا۔
رِمشا کی بڑی بہن نورین نے بھی اب اپنے بچوں سمیت خالد شاہ کا گھر چھوڑ دیا ہے اور لاہور سے باہر ایک قصبے میں اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتی ہے۔
رِمشا کو اپنے گھر واپس آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ ابھی تک صدمے کی حالت میں ہیں۔ پہلے وہ ذرا سے کھٹکے پر جاگ جاتی تھیں مگر اب وہ دن کا بیشتر حصہ بستر پر سوتے ہوئے گزارتی ہیں جہاں اس کے ساتھ اس شخص کے بچے بھی سوئے ہوتے ہیں جو اس کی حالتِ زار کا ذمہ دار ہے۔
نوعمر مسیحی لڑکیاں جبری تبدیلی مذہب کا ہدف
گزشتہ چند سال میں پاکستان کے مختلف حصوں میں ایسے ہی بہت سے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ان تمام واقعات میں مسیحی لڑکیوں کو اغوا کرنے، ان کا مذہب تبدیل کرنے اور ان سے شادی کرنے میں ملوث مرد یا تو پہلے سے شادی شدہ تھے یا ان لڑکیوں سے کہیں بڑی عمر کے تھے۔ انہوں نے ان لڑکیوں کو ان کے مفلس اور کمزور مسیحی خاندانوں سے نکال کر بدحالی اور محکومی کی ایک نئی زندگی کے سپرد کر دیا۔ ایسی چند مثالیں ذیل میں دی گئی ہیں:
فروری 2019 میں 13 سالہ صدف مسیح کو مسلمان کر کے اس کی شادی ایک چالیس سالہ شخص سے کر دی گئی۔ یہ واقعہ ضلع بہاولپور کے قصبے یزمان میں پیش آیا۔
اپریل 2019 میں 14 سالہ عریشہ کو اغوا کر کے فروخت کر دیا گیا جس کے بعد شاہدرہ میں اسے مسیحی سے مسلمان بنایا گیا اور اس کی شادی ایک مسلمان شخص سے کر دی گئی۔
جولائی 2020 میں دسویں جماعت کی طالبہ سنیہا کنزا اقبال فیصل آباد کے جھنگ بازار میں چرچ کی جانب جا رہی تھی جب اسے اغوا کر لیا گیا۔ اس کا اغوا کار 30 سالہ مسلمان سعید امانت تھا جو پہلے سے شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہے۔ بعد میں اس نے سنیہا کا مذہب تبدیل کرایا اور اس سے شادی کر لی۔
24 اکتوبر 2020 کو کراچی میں ایک 38 سالہ شخص نے 13 سالہ نیہا پرویز کو اغوا کرنے کے بعد اسے جبراً مسیحی سے مسلمان بنایا اور اس سے شادی کر لی۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے موومنٹ فار سالیڈیرٹی اینڈ پیس کی 2014 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں ہر سال قریباً 1000 خواتین کو جبری مسلمان بنایا جاتا ہے۔ سنٹر فار سوشل جسٹس نے بھی 2013 اور 2020 کے درمیان پیش آنے والے 162 ایسے مصدقہ واقعات کی فہرست شائع کی ہے جن میں غیر مسلم خواتین کو جبراً مسلمان کیا گیا تھا۔
میں نہ مانوں
پاکستان کی اکثریتی مسلم آبادی کا جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے عام خیال یہ ہے کہ ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ہر واقعے کا الگ الگ سیاق و سباق پیش نہیں کیا جاتا۔ اسلام آباد میں سرکاری وسائل سے چلنے والے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز نے حال میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں جبری تبدیلی مذہب کے بیشتر واقعات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں آنے والی ایسی خبریں درست نہیں ہیں اور یہ غیر سرکاری تنظیموں کا پروپیگنڈہ ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
ریاست کے اپنے ادارے بھی ایسی ہی 'میں نہ مانوں' کی ذہنیت میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور پر جبری تبدیلی مذہب کے مسئلے پر بنائی گئی ایک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ سال ایک بیان میں کہا کہ ان کی کمیٹی نے ایسے جتنے بھی واقعات پر تحقیق کی ہے ان میں کسی نہ کسی حد تک لڑکی کی رضامندی کا عنصر ضرور شامل تھا۔
نومبر 2020 میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ تعین کرنے کا ہدف دیا گیا ہے کہ آخر جبری تبدیلی مذہب سے کیا مراد ہے۔ کونسل میں غیر مسلم نمائندگی کی عدم موجودگی میں جبری تبدیلی مذہب کی ایسی یک طرفہ تعریف طے ہونے سے غیر مسلم پاکستانیوں میں یہ تاثر اور بھی تقویت پکڑے گا کہ جب ان کے بارے میں کوئی بھی پالیسی بنائی جاتی ہے تو خود ان کا موقف نہیں سنا جاتا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے مسیحی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان پر جبری تبدیلی مذہب کے واقعات منظرِ عام پر نہ لانے کے لیے دباؤ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس دباؤ کو نہ مانیں تو ان کی حب الوطنی پر شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے۔
جبر اور خوف نے ان لوگوں کو اس قدر احتیاط پر مجبور کر دیا ہے کہ نومبر 2020 میں کراچی میں مسیحی برادری کے ایک جلوس میں لوگوں نے ایسے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر فرانس کے مسلمان شہریوں پر وہاں کی حکومت کی جانب سے سیکیولر پالیسیاں نافذ کرنے کے فیصلے کی مذمت کی گئی تھی۔ ان پر کچھ ایسے نعرے درج تھے کہ 'ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں'۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس احتجاج کا بنیادی مقصد ایک مسیحی بچی آرزو راجہ کے مذہب کی جبری تبدیلی کا معاملہ سامنے لانا تھا جسے ایک مسلمان شخص نے اغوا کرنے کے بعد اس سے شادی کر لی تھی۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 11 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 20 جنوری 2022