سیندک میں سونے اور تانبے کے ذخائر میں بدعنوانی کے حوالہ سے چند سال قبل دسمبر میں احتساب کے قومی ادارے نیشنل اکاؤنٹیبلِٹی بیورو (نیب) کے ایک اہلکار سے اس نمائندہ کی کراچی کے ایک ہوٹل میں بیٹھک ہوئی۔
نیلے رنگ کی شلوار قمیص اور سیاہ واسکٹ میں ملبوس اس داڑھی مونچھ مُنڈھے شخص کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھا جس کا انہوں نے تعارف نہیں کرایا۔ گفتگو کے دوران یہ اہلکار غصے کے عالم میں قدرے بلند آواز میں کہتے ہیں "کیا اس ملک میں رازق سنجرانی کا احتساب نہیں ہو سکتا؟" کچھ تؤقف کے بعد وہ اپنے سوال کا خود ہی جواب دے دیتے ہیں "احتساب تو کُجا، اس کے بھائی (صادق سنجرانی) کو تو سینیٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔"
اس اہلکار نے کچھ عرصہ پہلے بلوچستان کے علاقے سیندک میں سونا اور تانبا نکالنے کے ایک بڑے منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس تفتیش کے دوران انہوں نے کئی متعلقہ مسائل کی چھان بین کی جن میں سیندک سے کراچی کی بندرگاہ اور پھر وہاں سے چین بھیجی جانے والی قیمتی دھاتوں کی انڈر انوائسنگ (رسیدوں میں درج مقدار سے زیادہ مال کی ترسیل) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
چند سال پہلے انہوں نے نیب کے چند افسروں کے ہمراہ حَب میں تانبے سے لدے 28 ٹرکوں کو روکا جن پر انوائسز (رسیدوں) میں درج مقدار سے کہیں زیادہ سامان پایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ "میں نے بلوچستان میں سدرن کمانڈ کے کمانڈر اور سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی اس کارروائی سے آگاہ رکھا لیکن اس پر کوئی قانونی کارروائی نہ ہوئی۔"
وہ کہتے ہیں کہ تفتیش سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ رازق سنجرانی اور چین کے بعض لوگ کئی سال سے اس لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ "چونکہ سنجرانی ناقابلِ یقین حد تک با اثر ہیں اس لئے کوئی ان کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔"
سنجرانی خاندان کا تعلق نوکنڈی سے ہے جو سیندک سے تقریبا 150 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔ رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے ضلع چاغی میں نوکنڈی اور سیندک (اس میں ریکوڈک بھی شامل ہے تاہم یہاں ابھی تک کان کَنی شروع نہیں ہوئی) میں سونے اور تانبے کی بہت بڑی کانیں ہیں۔
یہاں کے مقامی لوگ تو ہیومن ٹریفکِنگ اور ایرانی پٹرول کی سمگلنگ سے ہی روزی روٹی کما رہے ہیں لیکن سنجرانیوں نے ان معدنی ذخائر سے خوب مال بنایا۔
سیندک میں دھاتوں کے تین ذخائر ہیں جنہیں ساؤتھ اور باڈی (south ore body)، نارتھ اور باڈی (north ore body) اور ایسٹ اور باڈی (east ore body) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ذخائر پانچ بینچوں کی صورت میں منقسم ہیں۔ بینچ سے مراد زمین کی ایک تنگ پٹی ہے جسے سیڑھیوں کی صورت میں کاٹا جاتا ہے۔ یہ زون ایک کھلے گڑھے والی کان کی دیواروں کے ساتھ بنائے جاتے ہیں جس سے کان کَنوں اور ٹرکوں کو بینچ تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ تقریباً ختم ہو چکی 'ساؤتھ اور باڈی' اور 'نارتھ اور باڈی' پر اب بھی کام جاری ہے جبکہ ’ایسٹ اور باڈی‘ پر حال ہی میں کام شروع ہوا ہے۔
بلوچستان حکومت کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کے زیرِ انتظام سیندک میٹلز لمیٹڈ نے 1995 کے آخر میں 13.5 ارب روپے کی لاگت سے 'سیندک گولڈ اینڈ کاپر پراجیکٹ' شروع کیا تھا۔ اس منصوبہ سے سالانہ اوسطاً 15ہزار آٹھ سو دس 15,810 ٹن تانبا، 1.47 ٹن سونا اور 2.76 ٹن چاندی حاصل ہوتی ہے۔
دو اکتوبر 2002 کو منافع کے ایک حصے کے عوض اس پراجیکٹ کے اثاثے ایک چینی کمپنی ایم سی سی ریسورسز ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (ایم سی سی/ایم آر ڈی ایل) کو 10 سال کے لئے سونپ دیئے گئے۔ اس مدت کے اختتام پر حکومت نے اس کے ساتھ مزید پانچ سال کا معاہدہ کر لیا۔ چند سال قبل جب یہ مدت بھی ختم ہو گئی تو اسی کمپنی کے ساتھ معاہدے میں ایک بار پھر پانچ سال کی توسیع کر دی گئی۔
چند ہفتے پہلے ایم آر ڈی ایل نے 'سیندک گولڈ اینڈ کاپر پراجیکٹ میں اپنے 20 سال مکمل ہونے پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں کمپنی کی انتظامیہ نے انکشاف کیا کہ اس منصوبے سے اب تک 290,000 ٹن سے زیادہ آبلئی تانبا (دھاتی تانبے کی ایک قسم جس پر عمل انجماد کے دوران گیسوں سے آبلے پڑ جاتے ہیں) پیدا ہوا ہے جس سے 2.6 ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ کمایا گیا جبکہ زمین کے مالک کو 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ ادائیگی کی گئی ہے۔ منصوبے سے 1,900 سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوئیں اور مقامی طور پر خریداری کی مد میں 1.2 ارب ڈالر ادا کیے گئے۔
اسلام آباد اور کوئٹہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ صادق سنجرانی کے میل جول کی وجہ سے سیندک منصوبے نے سنجرانی خاندان کو حیران کُن بلکہ قابلِ اعتراض حد تک مالی فائدہ پہنچایا۔ درحقیقت سنجرانی خاندان بلوچستان کے ان چند خاندانوں میں سے ہے جو وہاں اربوں ڈالر مالیت کی تانبے اور سونے کی کانوں سے مستفید ہوئے لیکن صوبے کو اس سے شاید ہی کوئی فائدہ ہوا ہو۔
سنہ 2008 میں وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو رازق سنجرانی (سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کے بھائی) کو سیندک میٹلز لمیٹڈ کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
آئین میں اٹھارویں ترمیم سے پہلے 2010 میں اس منصوبے میں صوبائی حکومت کا ایک بہت ہی معمولی سا حصہ تھا جس کے تحت اسے صرف زمین کا کرایہ اور پانچ فیصد رائلٹی ادا کی جاتی تھی۔ تاہم اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت قانونی طور پر بلوچستان حکومت کو اس منصوبے کے منافع سے 37 فیصد حصہ ادا کرنے کی پابند ہے۔
بلوچستان کے ضلع خاران سے تعلق رکھنے والے ایک قوم پرست رہنما ثناء اللہ بلوچ — جو ثناء بلوچ کے نام سے جانے جاتے ہیں — اور ان کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) بلوچستان اسمبلی عدالتوں اور میڈیا سمیت مختلف فورمز پر سیندک منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش رہی۔
17 اکتوبر 2017 کو جب وفاقی حکومت کی جانب سے ایک چینی کمپنی کو پانچ سال کی مدت کے لئے اس قدر بڑا پراجیکٹ لیز پر دیا گیا تو ثناء بلوچ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں ان کا استدلال تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد قیمتی معدنیات کی تلاش کا اختیار صرف صوبوں کے پاس ہے۔
اس کیس کا فیصلہ 2019 میں محفوظ کر کے سرد خانے میں ڈال دیا گیا جس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مبینہ طور پر ثناء بلوچ نے اس کیس کی پیروی چھوڑ دی ہے۔ ایم آر ڈی ایل کے معتبر ذرائع نے سُجاگ کو بتایا کہ ان کے بھائی سمیع اللہ بلوچ کو چاغی میں جوزک ہوائی اڈے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا جس کے بعد ثناء بلوچ نے خود کو اس کیس سے الگ کر لیا۔
تاہم ثناء بلوچ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "میرا بھائی سمیع بلوچ کئی دہائیوں سے تعمیراتی ٹھیکوں کے روزگار سے وابستہ ہے۔" ان کا دعویٰ ہے کہ جوزک ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کی بولی ان کے بھائی نہیں بلکہ بھتیجے نے قواعد و ضوابط کے تحت ایک سخت مقابلہ کے بعد 13 کروڑ روپے میں جیتی تھی۔
دوسری طرف کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں نیب کے متعدد حکام نے اس نمائندے کے ساتھ الگ الگ بات چیت میں سیندک پراجیکٹ کے حوالے سے تشویش ناک الزامات عائد کیے ہیں۔ ان میں کراچی بندرگاہ اور اس کے بعد چین لے جائے جانے والے تانبے کی انڈر انوائسنگ کے علاوہ ممکنہ طور پر بین الاقوامی مارکیٹ میں تانبے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مقررہ حد سے زیادہ کان کَنی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
کوئٹہ میں نیب کے ایک افسر ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "ماضی میں ہم نے ان ٹرکوں کو روکا تھا جن میں بتائے گئے اعداد و شمار سے زیادہ تانبا موجود تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد ہم پر پہلے چینی سفیر اور پھر چین کی حکومت کی جانب سے دباؤ آنے لگا۔ ہمیں متنبہ کیا گیا کہ اگر ہم نے ان ٹرکوں کو روکے رکھا تو اس منصوبے کو چلانے والی ان کی کمپنی کو میڈیا میں بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے میں فرنٹیئر کور (نیم فوجی فورس جس کی کمانڈ فوج کے افسران کرتے ہیں) بھی ہم پر دباؤ ڈال رہی تھی۔ چنانچہ ہمیں ان ٹرکوں کو چھوڑنا پڑا۔"
اس نمائندے نے ان ٹرکوں میں سے ایک کے ڈرائیور کا سراغ لگایا جس نے نیب کے افسر کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ "ہمیں حَب میں روکا گیا اور اونچی دیواروں والے ایک احاطے میں لے جا کر چند روز کے لئے نامعلوم وجوہات کی بنا پر نظربند کر دیا گیا۔"
محکمہ کسٹمز اور سیندک میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ٹرک پر آبلئی تانبہ کے 80 سے زیادہ بلاک (97 سے 99 فیصد تک خالص) لدے ہوتے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ہر ٹرک پر لدے تانبے کا وزن تقریباً 54 میٹرک ٹن ہوتا ہے۔ تاہم سیندک میٹلز لمیٹڈ کے ایک اندرونی ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ سالوں میں انہوں نے ہر ٹرک پر 65 میٹرک ٹن تک تانبا لوڈ کیا جبکہ ریکارڈ میں اسے صرف 53 یا 54 ٹن ہی لکھا گیا۔
ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے ایک ذریعے نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرکوں پر 65 میٹرک ٹن تانبا لادا گیا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات ٹرکوں کے ٹائر بھی پھٹ جاتے تھے۔
کراچی میں محکمہ کسٹمز کے ایک سینئر افسر نے اس نمائندے کو بتایا کہ ان معاملات سے نمٹنا کراچی کے ایکسپورٹ کلیکٹوریٹس اور پورٹ قاسم کی ذمہ داری ہے جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں انڈر انوائسنگ کا ثبوت نہیں ملا۔ ان کے بقول "سیندک کی برآمدات حساس برآمدات کے زمرے میں آتی ہیں جن پر ریاستی ادارے کڑی نظر رکھتے ہیں۔ سیندک کے ٹرک فرنٹیئر کور کی نگرانی میں کراچی پہنچتے ہیں۔" تاہم ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ کسٹمز اہلکار خود اس بد عنوانی میں ملوث ہیں۔
رازق سنجرانی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیب کے تفتیش کاروں کو مکمل تحقیقات کرنے کے باوجود ان کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ان کے مطابق کسٹمز اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی نگرانی میں سیندک کے مقام پر ٹرکوں اور ٹریلروں کا وزن کیا جاتا ہے۔ یہ ٹرک کسٹمز اہلکاروں کے ساتھ چھوٹے قافلوں کی صورت میں لے جائے جاتے ہیں جبکہ اس سامان کو کسٹمز کی جانب سے کراچی پورٹ پر دوبارہ تولا جاتا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں تسلیم شدہ ایس جی ایس کمپنی کی طرف سے اسے سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔
اوّل خویش۔۔۔
ایم آر ڈی ایل کے موجودہ وائس پریذیڈنٹ خالد گل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے بہنوئی بتائے جاتے ہیں۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سیندک منصوبے کے مقام کے عقب میں طویل عرصہ سے 'ساؤتھ اور باڈی' کا کچرا جمع ہو رہا ہے جس نے اب ایک بلند ٹیلے کی سی شکل اختیار کر لی ہے جس کی کھدائی خالد گل نے سیندک کے ایک مقامی شخص کے ساتھ مل کر کی تھی۔ "اس کھدائی کے لئے خالد گل نے سیندک پروجیکٹ سے ڈیزل، پیٹرول، ڈرم اور یہاں تک کہ مشینیں بھی بلا جھجھک استعمال کیں۔"
ان کا دعویٰ ہے کہ رازق سنجرانی نے مقامی لوگوں کی مدد سے 'غیر قانونی طور پر' علاقے کے ایک اور پہاڑ سے بھی لوہا نکالا تھا۔ ان دونوں جگہوں سے حاصل ہونے والا خام لوہا کراچی میں پاکستان سٹیل ملز کو فروخت کیا گیا۔
ایک ذریعے کے مطابق "جب یہ معاملہ سامنے آیا تو لوہا نکالنے کا کام روک دیا گیا۔ لیکن یہ ایک بات طے ہے کہ سیندک میں سنجرانیوں کا راج ہے۔"
یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا سرکاری ریکارڈ میں سیندک کے آس پاس نجی کمپنیوں کے ساتھ بھی کان کَنی کے معاہدے ہوئے ہیں، یہ نمائندہ کوئٹہ میں سریاب لنک روڈ پر واقع ڈائریکٹوریٹ آف مائنز اینڈ منرلز ڈیولپمنٹ کے دفتر بھی گیا۔
اس دفتر کی بالائی منزل پر معدنیات سے متعلق شعبے میں میزوں، کرسیوں اور الماریوں میں فائلوں کے ڈھیر لگے تھے۔ دفتر میں چار اہلکار موجود تھے جن میں سے دو افراد کی مدد سے دو گھنٹے کی طویل تلاش کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ آیا۔ نچلی منزل پر سروے اور ڈیزائننگ سیکشن میں منیر نامی ایک افسر نے اپنے لیپ ٹاپ پر سیندک کے نقشے پر زرد رنگ میں دکھائے گئے ایک علاقے کی نشان دہی کی جس پر سنجرانی ایم ایل آئرن/گرانٹ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ یہ دکھاتے ہوئے منیر کا کہنا تھا کہ "اس منصوبے کے آس پاس کے علاقے سنجرانیوں کو ممکنہ کان کَنی کے لئے دیئے گئے ہیں۔"
اس برانچ میں سرکاری ریکارڈ کی ایک اور طویل تلاش سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ یہ سنجرانی گروپ کے نجی حیثیت میں حاصل کردہ ٹھیکے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق ٹھیکے پر دی گئی جگہ 654.39 ایکڑ پر محیط ہے جس میں پی ایل آئرن نمبر (314) اور ایم ایل آئرن (26) شامل ہیں۔
ریکارڈ سے مزید پتہ چلتا ہے کہ سنجرانی گروپ نے اسی علاقے میں مزید 40 ایکڑ جگہ لیز پر لینے کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔ یہ پورا علاقہ میر محمد ابراہیم خان سنجرانی کے بیٹے محمد اسماعیل سنجرانی کی ملکیت ہے جو، مقامی ذرائع کے مطابق، صادق سنجرانی کے چچا زاد بھائی ہیں۔
اگرچہ یہ اقدام غیر قانونی نہیں ہے لیکن اس طرح کی لیز سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعہ ہی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس معاملے میں مفادات کا ٹکراؤ واضح ہے۔
رازق سنجرانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اور خالد گل نے کبھی بھی سیندک میں نجی طور پر کان کَنی نہیں کی لیکن وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نجی لیز ان کے رشتہ دار اسماعیل کی ہے جو تحصیل دار ہیں۔
اس طرح سنجرانی خاندان نے اپنے قبائلی اثر و رسوخ اور سیاسی روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کان کَنی کے اس اہم بین الاقوامی منصوبے میں متعدد طریقوں سے بڑے پیمانے پر حصہ داری حاصل کی۔
سنجرانیوں کی سیندک سونے اور تانبے کی کان سے سامان کی نقل و حمل پر بھی اجارہ داری ہے۔ تفتان اور سیندک کے درمیان ریلوے ٹریک کی "پر اسرار" خستہ حالی بھی اس معاملے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔
گم گشتہ سیندک-تفتان ریلوے ٹریک
اس سال تفتان میں جنوری کی ایک یخ بستہ صبح کو ریلوے کے ایک افسر افتخار حسین اپنے دفتر کے باہر کرسی پر بیٹھے دھوپ سینک رہے ہیں۔
وہ صرف دو ہفتے قبل ہی یہاں تعینات ہوئے ہیں۔ اس قصبے اور سیندک کے درمیان ریلوے ٹریک تو دور کی بات ان کو تفتان کے ریلوے سے متعلق معاملات سے بھی کم ہی آگاہی ہے۔
جب اس ٹریک کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو وہ اپنی لاعلمی پر مسکراتے اور معذرت کرتے ہوئے اپنے گَینگ مَین (گَینگ مَین وہ مزدور ہیں جو ریلوے کی پٹریوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں) فیض محمد زئی کو فون کر کے طلب کرتے ہیں تاکہ وہ اس کا جواب دے سکیں۔ فیض نے سُجاگ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی زمانہ میں تفتان اور سیندک کے درمیان ایک ریل پٹری ہوا کرتی تھی۔ وہ کان کَنی میں استعمال ہونے والے فرنس آئل کو سیندک پہنچانے کے لئے اکثر ٹرین کے ذریعے ان دونوں قصبوں کے درمیان سفر کیا کرتے تھے۔
چالیس کلومیٹر پر مشتمل یہ طویل ریلوے ٹریک 1990 کی دہائی میں وزارت ریلوے کے ذیلی ادارے 'ریلوے کنسٹرکشنز پاکستان لمیٹڈ' (ریلکوپ) نے تعمیر کیا تھا جسے 1988 میں پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر محکمے میں شامل کیا گیا تھا تاکہ سیندک منصوبے سے تانبے اور سونے کے بلاکس کو کراچی پہنچایا جا سکے۔ (ریلکوپ کو "ایک طرح کا مافیا" قرار دینے والے ایک ذریعے کے مطابق یہ کمپنی ریلوے کے 10 ریٹائرڈ سینئر افسروں کے ایک گروہ کے لئے آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جو پٹریوں کی تعمیر سمیت ریلوے ڈیپارٹمنٹ کے لئے ٹھیکے جاری کرتے ہیں)۔
اس طرح یہ ٹریک سیندک کو تقریباً 40 کلومیٹر دور تفتان کے مقام پر بین الاقوامی تجارتی راستے سے جوڑتا ہے۔ فیض کو اچھی طرح یاد ہے کہ "ٹرینیں مہینے میں چار مرتبہ اس ٹریک پر سفر کرتی تھیں۔"
تفتان کے شمال میں ایک بنجر اور پہاڑی علاقے سے گزرتے ہوئے بَل کھاتے ٹریک کی خستہ حالت سٹیشن آنے سے چند منٹ پہلے ہی واضح ہو جاتی ہے۔ اب اس ٹریک کا صرف ایک حصہ باقی ہے اور یہ بھی کچھ آگے جا کر غائب ہو جاتا ہے۔ ٹریک کچھ حصوں کو مکمل طور پر اُکھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا گیا ہے جبکہ باقی ماندہ حصہ طویل عرصہ سے چوری چکاری کی نذر ہو رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ ٹریک سیندک کی مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ سڑک پر قائم ایک چیک پوسٹ پر متعین لیویز اہلکار کہتے ہیں کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ معمول کے برعکس ان پٹریوں کی حفاظت کے لئے کوئی گَینگ مَین یا چپراسی تک بھرتی نہیں کیا گیا۔ اس صورتِ حال سے واقف ریلوے کے ایک سینئر افسر نے سُجاگ کو بتایا کہ یہ ٹریک سیندک پراجیکٹ مالکان کے مطالبے پر قائم کیا گیا تھا اور اسے محکمہ ریلوے کے حوالے نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی نگران نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ "اگر اس کام کے لئے صرف ایک چپراسی ہی مقرر کر دیا جاتا تواس کی یہ حالت نہ ہوتی۔"
چاغی میں اپنے دفتر میں موجود اس عہدیدار نے کہا کہ "سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے نے 2016 میں سابق سینیٹر سردار فتح محمد حسنی کی درخواست پر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ سیندک-تفتان ٹریک خستہ حالی کا شکار کیوں ہوا۔ انہوں نے ہمارے ایک سنیئر افسر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ حنیف صاحب سے کہا کہ وہ اس پر رپورٹ تیار کر کے انہیں پیش کریں۔"
اس عہدیدار نے جب اپنے سنیئر افسر کی ہدایت پر "سیندک کے مینجنگ ڈائریکٹر رازق سنجرانی کو اس سلسلہ میں فون کیا تو انہوں نے غصہ میں جواب دیا کہ کہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور ڈی ایس پاگل تو نہیں ہو گئے؟ سنجرانی کا کہنا تھا کہ یہ ریلوے ٹریک سیندک میٹلز لمیٹڈ کی ملکیت ہے اور اگر کسی نے ٹریک چوری کا مسئلہ کا نوٹس لینا کمپنی کی صوابدید ہے نہ کہ ڈی ایس یا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کا۔"
اس کے باوجود سینیٹر فتح نے نیب سے رابطہ کر کے ریلوے ٹریک کی چوری کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق اس پیش رفت کے بعد کسی موقع پر رازق اپنے پانچ بھائیوں بشمول صادق سنجرانی اور اپنے والد کے ہمراہ مدینہ منوّرہ میں سردار فتح سے ملے۔ سابق سینیٹر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر وہ اس معاملے پر خاموش نہ رہے تو وہ نیب میں ان کے خلاف مقدمات درج کروا سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے رازق سنجرانی اور سردار فتح محمد حسنی میں اختلافات تو ختم ہو گئے ہیں لیکن یہ معاملہ جوں کا توں رہا۔
ان کے موقِف کے حصول کے لئے ان سے ملنے کی متعدد کوششیں کی گئیں جن کے جواب میں بتایا گیا کہ وہ مصروفیت کی بنا پر ملاقات سے قاصر ہیں۔
ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ 2015 تک اس پٹری کا دو کلومیٹر طویل ٹریک غائب تھا۔ اُس وقت تفتان میں تعینات ریلوے کے ایک افسر کا اندازہ ہے کہ 15 کلومیٹر طویل ٹریک خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی جانچ پڑتال کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
رازق سنجرانی نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹریک 2006 میں تباہ ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ سیندک میٹلز لمیٹڈ کی ملکیت ہے اور باقی ٹریک محفوظ ہے۔ ہمارے سیکورٹی اہلکار اس کی نگرانی کے لئے وہاں موجود ہیں۔" ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹریک چوری ہونے کے بعد اس کی ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی اور تفتان میں لیویز نے ملزمان کو گرفتار بھی کیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "چوری شدہ ٹریک تفتان میں لیویز تھانے میں پڑا ہوا ہے۔"
لیکن فون پر رابطہ کرنے پر تفتان میں لیویز تھانہ کے ایک اہلکار نے اس قسم کی کسی ایف آئی آر کے اندراج سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
سیندک کے علاقے کے مشہور ایدو پلوان خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالغفور محمد حسنی کو وہ وقت یاد ہے جب یہ ٹریک مکمل کیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "ناجائز فائدے کے حصول کے لئے اسے جان بوجھ کر تباہ کیا گیا۔" تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 2002 سے دانستہ طور پر ٹریک کو برباد ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا تاکہ سیندک سے حاصل ہونے والی آمدنی سے جیبیں بھری جا سکیں۔
سنہ 2008 میں ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی اس تمام کہانی میں ایک مرکزی کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔
طلوعِ صبحِ 'صادق' کی 'چمک' کچھ اور ہوتی ہے
سنجرانیوں کے آبائی شہر نوکنڈی میں قائم ہونے والی الصادق گڈز ٹرانسپورٹ نامی غیر معروف کمپنی سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی ملکیت ہے جسے روزِ اول سے ان کے والد آصف خان سنجرانی چلا رہے ہیں۔
نوکنڈی کے کسٹم کلی علاقے میں واقع قصبے کی یونین کونسل کے سابق چیئرمین حاجی عرض محمد بڑیچ کہتے ہیں کہ 2008 میں رازق سنجرانی کی سیندک میٹلز لمیٹڈ میں بطورِ مینیجنگ ڈائریکٹر تعیناتی کے فوراً بعد الصادق گڈز ٹرانسپورٹ تفتان منتقل کر دیا گیا۔ ان کے بقول "رازق سنجرانی نے اپنی تعیناتی کے بعد سب سے پہلے الصادق گڈز ٹرانسپورٹ کو سیندک سے سونے اور تانبے کے بلاکس کی نقل و حمل کا ٹھیکہ دیا۔" اس موقع پر دو دیگر کمپنیوں، روڈ ویز انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ اور ایشیا بزنس انٹرپرائزز سے مشکوک انداز میں یہ ٹھیکہ واپس لے لیا گیا جو 2002 سے یہ کام کر رہی تھیں۔
جب رازق سنجرانی سے اس ملمع کاری کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں ںے چِڑ کر جواب دیا کہ "اس میں حرج ہی کیا ہے؟"
عرض بڑیچ کے مطابق "کم از کم 2008 سے اس ٹھیکہ کی ایک مرتبہ بھی نیلامی نہیں کی گئی۔"
نوکنڈی سے پاک-ایران سرحد پر تقریبا 120 کلومیٹر دور تفتان میں زیادہ تر لوگوں کو علم ہی نہیں کہ اس ٹرانسپورٹ کمپنی کا دفتر کہاں واقع ہے۔ تقریباً دو گھنٹے کی طویل تلاش کے بعد یہ نمائندہ ٹائروں کی ایک چھوٹی سی دکان پر پہنچا جہاں ایک دیوار پر اختر مینگل کی تصویر کے ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ اس دکان کے مالک نے بتایا کہ الصادق گڈز ٹرانسپورٹ کا دفتر اس کی دکان کی بالائی منزل پر ہے۔
Also Read
Reko Diq: The gold that did not glitter
لوہے کی چند سیڑھیاں کھلے آسمان تلے تقریباً 80 فٹ کی ایک چھوٹی سی چھت تک جاتی ہیں۔ یہی الصادق گڈز ٹرانسپورٹ — جس کے پاس اربوں ڈالر کے سیندک منصوبے کے لئے ٹرکوں کا ٹھیکہ ہے — کا دفتر ہے ۔ کمپنی نے یہ جگہ ٹائر شاپ کے مالک سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر لے رکھی ہے۔ ماضی میں آصف سنجرانی اس کمپنی کے روزِمرہ کے امور سنبھالتے تھے۔ اب امیر جان نامی شخص کمپنی کے نمائندے کے طور پر کام کرتے ہیں۔
تفتان، سیندک اور نوکنڈی کے رہائشیوں کا خیال ہے کہ سیندک ٹریک کو جان بوجھ کر تباہ ہونے دیا گیا اور اس میں ممکنہ طور پر کچھ مقامی با اثر افراد کی پشت پناہی بھی شامل تھی جو الصادق گڈز ٹرانسپورٹ کے لئے راہ ہموار کرنے میں مصروف تھے۔ تفتان میں عرض بڑیچ نے اسے ایک "کھلا راز" قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایک بار جب انہوں نے اس صورتِ حال پر ناراضگی ظاہر کی تو رازق سنجرانی کا کہنا تھا کہ انہیں ترقیاتی کاموں کے نام پر دو کروڑ روپے دیئے جا سکتے ہیں۔ تاہم بڑیچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بِکنے سے انکار کیا کیونکہ بلوچ روایات کا یہی تقاضا ہے۔ ان کے نزدیک "سیندک قومی اثاثہ ہے۔ یہ کسی ایک خاندان کے ذاتی مفادات کے لئے نہیں ہے۔"
سیندک میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے ریکارڈ کے مطابق صرف جولائی 2018 میں 45 ٹرک سیندک سے پورٹ قاسم کے لئے روانہ ہوئے جن پر 2,396.58 میٹرک ٹن آبلئی تانبے کے بلاک لدے ہوئے تھے اور ان کی برآمدی مالیت ایک ارب 33 کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔
اس بارے میں رازق سنجرانی کا موقِف ہے کہ "الصادق گڈز ٹرانسپورٹ کا چینیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے بلکہ ان چینیوں کی کراچی میں اپنی ٹرانسپورٹ کمپنیاں ہیں۔ اور یہی کمپنیاں 2002 سے الصادق گڈز ٹرانسپورٹ سے ٹرک کرایہ پر لے رہی ہیں۔" ریلوے ٹریک کے غیر فعال ہونے کے بارے میں ان کا موقِف ہے کہ حفاظتی وجوہات کی بنا پر چینیوں کے لئے آبلئی تانبے کے بلاکس کو سڑک کے ذریعے پہنچانا کم خرچ کام تھا۔
مالِ مفت، دلِ بے رحم
نیب کے بعض حکام کے مطابق اس علاقے میں تانبے کے ذخائر جس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں یہ مقررہ حد سے زیادہ کان کَنی کا واضح ثبوت ہے اور اس سے انڈر انوائسنگ کے الزامات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔
زاہد احمد، جنہوں نے 1970 کی دہائی کے آخر میں سیندک میں کام کرنا شروع کیا اور ایم آر ڈی ایل کے وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی ماؤنٹین سٹیٹس منرل انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) کی جانب سے سیلٹرسٹ ایسوسی ایٹس لمیٹڈ (کان کَنی کی صنعت کے لئے برطانیہ میں قائم مینجمنٹ کنسلٹنسی) کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر تیار کردہ مستند دستاویزات کے مطابق اگر ’ساؤتھ اور باڈی‘ سے روزانہ 12,500 میٹرک ٹن خام مال نکالا جائے تو اس کی زندگی 19 سال بنتی ہے "لیکن متعین مقدار سے زیادہ کان کَنی کی وجہ سے ’جنوبی اور باڈی 15 سال میں ہی ختم ہو گئی۔"
ایک ذریعے کے مطابق سیندک میں کان کنی کے لئے اکنامک پروسیسنگ زون نان آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) جاری کرتا ہے جو ہر سال 12 سے 13 ہزار میٹرک ٹن آبلئی تانبے کے بلاکس (یہ 96 سے 99 فیصد خالص تانبہ ہوتا ہے) کی پیداوار کی اجازت دیتا ہے۔
اکنامک ڈیولپمنٹ آف بلوچستان نامی رپورٹ کے مصنف سید فضلِ حیدر کہتے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود حکام نے سیندک میں متعین حد سے زیادہ کان کَنی کی روک تھام کے لئے کسی قسم کا طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ "یہاں تک کہ اگر اب وہ کوئی طریقہ کار نافذ کر بھی دیں تو 19 سال تک بے رحمی سے نوچے جانے والی کان کے لئے وہ سودمند ثابت نہیں ہو گا۔"
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ارضیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سُجاگ کو بتایا کہ ایم آر ڈی ایل اور سیندک میٹلز لمیٹڈ نے کبھی بھی اس علاقے میں موجود rare-earth elements (نایاب زمینی عناصر) کا ذکر تک نہیں کیا۔ جدید الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والے یہ 17 نایاب اور بیش قیمت ریئر ارتھ ایلیمنٹس اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن پاکستان کو ان کے عوض پھوڑی کوڑی بھی نہیں مل رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ "چین میں ریئر ارتھ ایلیمنٹس کے لئے ایک بڑی منڈی موجود ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے مطلوبہ تکنیکی وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان حکومت اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ بھی یہی ریئر ارتھ ایلیمنٹس تھے۔"
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی، جنہوں نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "سونے اور تانبے کے علاوہ نو دیگر عناصر ٹیتھیان کاپر کمپنی نے اپنی رپورٹ میں ظاہر ہی نہیں کیے۔"
ان تمام معاملات کے علاوہ 2008 میں سیندک میٹلز لمیٹڈ میں رازق سنجرانی کی بطور مینجنگ ڈائریکٹر کنٹریکٹ پر تقرری بھی متنازع ہے۔ 27 اکتوبر 2008 کو جاری کردہ نیب کی ایک دستاویز کے مطابق رازق سنجرانی — جنہیں کانوں اور معدنیات سے متعلق امور کا کوئی تجربہ نہیں ہے — کی یہ تعیناتی غیر قانونی ہے۔ جب ان کی تعیناتی عمل میں آئی تو ان کی عمر 24 سال تھی اور انہوں نے کچھ ہی عرصہ پہلے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
پونے تین سال بعد 23 جولائی 2011 کو انہیں مستقل طور پر اس عہدے پر دوبارہ تعینات کر دیا گیا۔ اسی دستاویز کے مطابق، مینجنگ ڈائریکٹر تو چھوڑیئے اس کے ماتحت جنرل مینیجر کی اسامی کے لئے بھی مطلوبہ اہلیت میں کان کَنی، میٹالرجیکل، الیکٹریکل، مکینیکل یا کیمیکل کے شعبوں میں انجینئرنگ کی ڈگری کا حامل ہونا، اس کا نام پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ ہونا اور اس کا کان کَنی کے کسی بڑے صنعتی یونٹ میں 10 سال کا تجربہ لازمی ہے۔
دستاویز میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ان کی تقرری، جس میں سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی شریک تھے، نواب اسلم رئیسانی کی سفارش پر کی گئی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ 2008 سے 2013 تک رازق سنجرانی کے بڑے بھائی صادق سنجرانی وزیرِ اعظم کے شکایت سیل کے سربراہ تھے۔
نواب رئیسانی کے قریب سمجھے جانے والے ایک شخص نے ہنستے ہوئے سُجاگ کو بتایا کہ "جب سردار فتح نے حکام کو 24 سالہ نوجوان کی غیر قانونی تقرری کے بارے میں لکھا جس کے لئے 25 سال کا تجربہ درکار ہے تو انہیں بتایا گیا کہ انہیں آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکج کے تحت تعینات کیا گیا ہے۔"
رازق سنجرانی 2008 سے ماہانہ 20 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں جبکہ انہیں ملنے والی دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ راولپنڈی میں نیب کے ایک اہلکار نے انکشاف کیا کہ رازق سنجرانی کی تقرری سے متعلق کیس تحقیقات کے آخری مرحلے میں ہے۔
کیا سے کیا ہو گئے، دیکھتے دیکھتے
چیئرمین سینیٹ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل صادق سنجرانی حبکو میں ڈائریکٹر تھے۔ حبکو میں ڈائریکٹر کی اسامی خالی ہوئی تو 10 دن کے اندر صادق سنجرانی کی جگہ ان کے بھائی اعجاز سنجرانی کو ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ سنجرانی خاندان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ صادق سنجرانی اب اپنے بھائی رازق سنجرانی کو کسی عرب ریاست میں سفیر تعینات کرنے اور ان کی جگہ خالد گل کو سیندک میٹلز لمیٹڈ کا مینجنگ ڈائریکٹر تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
کوئٹہ سے تقریباً 160 کلومیٹر کی مسافت پر واقع سبّی شہر سے تعلق رکھنے والے ایم آر ڈی ایل کے سابق وائس پریذیڈنٹ زاہد احمد بتاتے ہیں کہ وہ 70 کی دہائی کے اوائل میں آصف خان سنجرانی کے ہم جماعت تھے۔ جب انہوں نے سیندک پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تو آصف خان اسکول ٹیچر بن گئے۔ بعد میں انہوں نے تدریس چھوڑ دی اور پی ٹی سی ایل میں شمولیت اختیار کی اور نوکنڈی میں ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
لیکن آج اس خاندان کے سیاسی اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ، کوئٹہ اور اسلام آباد میں ذرائع کے مطابق، بلوچستان کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ عبدالقدّوس بزنجو کو بھی سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جگہ صادق سنجرانی نے ہی تعینات کیا ہے۔
تاریخ اشاعت 3 دسمبر 2022