جنگلات کے رقبے میں کمی کا وسطی کرم میں زیرزمین پانی کی کمی سے کیا تعلق ہے؟

postImg

ریحان محمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

جنگلات کے رقبے میں کمی کا وسطی کرم میں زیرزمین پانی کی کمی سے کیا تعلق ہے؟

ریحان محمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

قدرتی چشموں اور باغات کیلئے مشہور وسطی کرّم کے گاؤں جیلامئے کے کاشتکار اپنی گھٹتی ہوئی زرعی آمدنی کو لے کر تشویش کا شکار ہیں۔ یہاں انگور کے باغ کے مالک سخی محمد کہتے ہیں کہ انہیں کاشتکاری سے سالانہ پانچ لاکھ روپے آمدنی ہوتی تھی اور پورے سال کیلئے گھر کے اناج کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی تھی، لیکن اب اس باغ کے علاوہ اُس کے پاس کچھ نہیں بچا۔

سخی محمد ڈھائی ایکڑ زمین پر گندم، مکئی اور دوسری اجناس اُگاتے تھے۔ انگور کے باغات ان کے علاوہ تھے جن سے سالانہ پانچ ٹن تک انگور دوسرے شہروں کی منڈیوں میں بھیج کر وہ اچھا خاصا منافع کماتے۔

"جب جیلامئے میں پانی وافر تھا تو یہاں کے ہر زمیندار کے کھیت اور باغات خوب آباد تھے، لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے کاشتکاری بہت کم ہوگئی ہے، قدرتی چشمے خشک ہوگئے ہیں اور ندی نالوں اور چشموں کے صرف نشانات ہی باقی رہ گئے ہیں، یہاں بہنے والے قدرتی چشموں میں اب دو ہی باقی بچے ہیں جس سے گھریلو ضروریات ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں۔"

ضلع کرّم کے کئی مقامات پر میٹھے پانی کے چشموں کے خشک ہوجانے اور زیر زمین پانی کی سطح گھٹنے کی وجہ سے زرعی و غذائی پیداوار  کی کمی اور کاروباری مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ میں پستونے گاؤں کے کاشتکار گل رحمٰن  کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سال سے زیر زمین پانی کی کمی کی وجہ سے نہ صرف ان کے علاقے میں کھیتی باڑی کیلئے پانی کم پڑگیا ہے بلکہ بہت سی جگہوں پر پینے کے پانی کیلئے بھی لوگ ترس رہے ہیں۔کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں کم یا بے وقت ہورہی ہیں اور چشمے سوکھ رہے ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز سے معلومات تک رسائی قانون کے ذریعے حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق قبائلی اضلاع میں پچھلے 20 سال میں زیر زمین پانی کی سطح سب سے زیادہ ضلع کرّم میں نیچے گئی ہے۔ ان کے مطابق ضلع کرم میں زیر زمین پانی 15 فٹ سے 255 فٹ تک نیچے چلا گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کا نہ ہونا اور جنگلات کی بے تحاشا کٹائی ہے۔

قبائلی اضلاع میں کرّم، مہمند، جنوبی وزیرستان (اپر اور لوئر)، شمالی وزیرستان اور ضلع خیبر ہائی رسک ایریا ہیں جہاں پر تیزی سے پانی کی سطح نیچے جارہی ہے۔

محکمہ زراعت، ضلع کرّم کے مطابق ضلع میں زمین کا کل رقبہ 8 لاکھ 34 ہزار 988 ایکڑ ہے جس میں ایک لاکھ 44 ہزار سے کچھ زیادہ ایکڑ زرعی زمین ہے۔ اس میں دریائے کرّم، چشموں اور ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب ہونے والی زمین (ایگریگیٹیڈ لینڈ) 12 ہزار 300 ایکڑ اور بارانی زمین ایک ہزار 384 ایکڑ پر مشتمل ہے۔

ضلع کرّم کے ایگریکلچر آفیسر منہاج علی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال میں کرّم کی زیر کاشت زمین میں کافی کمی آئی ہے، سنٹرل کرّم جہاں لوگ زیادہ تر گندم، مکئی اور سبزیاں اگاتے ہیں وہاں اب 70 فیصد زیر کاشت زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے ویران پڑی ہوئی ہے۔

محکمۂ زراعت، ضلع کرّم کے فیلڈ آفیسر عابد حسین کا کہنا ہے کہ پانی کی سطح گرنے کی ایک بڑی وجہ چیک ڈیمز اور ذخائر کا نہ ہونا ہے۔ یہاں صرف ایک بارانی ڈیم (منڈہ ڈیم لوئر کرم) ہے جس کی چوڑائی ایک ہزار 62 فٹ اور لمبائی 86 فٹ ہے لیکن مکمل ہونے کے چند سال بعد اس میں شگاف پڑگیا اور اس میں بمشکل 50 فٹ لیول تک پانی جمع ہوتا ہے جو اب نہ زراعت کیلئے استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے ملحقہ علاقوں کو پانی ترسیل ہوتی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) میں موسمیاتی تبدیلی کے یونٹ کے مطابق 2014 میں صوبائی حکومت نے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت اور ٹانک سمیت دیر لوئر، خیبر اور مہمند کو ان علاقوں میں شامل کیا جہاں پر زیر زمین پانی تیزی سے کم ہورہا ہے جس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کا کم ہونا اور بورنگ کے ذریعے ٹیوب ویل لگانا ہے۔

پاڑہ چنار کے رہائشی امداد حسین کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے سترخیل کا چشمہ پورے علاقے میں مشہور تھا، جس کا پانی پوری لکمن خیل قوم کے لوگ استعمال کرتے لیکن اب یہ چشمہ خشک ہوچکا ہے، اس لئے لوگ پانچ کلومیٹر دور پہاڑوں میں موجود چشمے کا پانی استعمال کرتے ہیں، جو پائپ لائن کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہے۔

"پہلے یہاں سردیوں میں بہت زیادہ برف پڑتی تھی، جس کی وجہ سے چشموں میں پانی کی مقدار بہت زیادہ تھی لیکن اب پورے سال میں دو تین بار برف پڑتی ہے، وہ بھی ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے چشموں کا پانی خشک ہوگیا ہے۔"

ضلع کرم میں کبھی جنگلات بہت زیادہ تھے، لیکن اب یہ جنگلات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ جنگلات کی وجہ سے ہر جگہ میٹھے پانی کے چشمے موجود تھے لیکن بڑھتی ہوئی آبادی نے ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کیلئے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی، جو سینٹرل کرم میں پانی کی کمی اورچشمے خشک ہونے کاسبب بن گئی۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسیز سے حاصل ہونے والے معلومات کے مطابق ضلع کرم میں سال 2014 سے اب تک جنگلات میں 30 فیصد کمی آئی ہیں۔

ماہر ارضیات واجد الرحمٰن پاکستان آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (او جی ڈی سی) کے ساتھ وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ضلع کرّم کوہ سفید کے دامن میں آباد ہے یہاں پڑنے والی برف اس کا واٹر لیول برقرار رکھتی تھی، لیکن ماحولیاتی تبدیلی اور گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث کوہ سفید پر موجود گلیشیئر پگھل گئے ہیں۔

"دس سال پہلے تک یہاں پورا سال برف موجود رہتی، اس وجہ سے زیر زمین پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہوتا اور لوگ چشموں کے پانی کا استعمال کرتے تھے، آبادی بڑھنے کے ساتھ گھروں میں بورنگ (ڈرلنگ) کرکے سولر ٹیوب لگنا شروع ہوئے، جو سارا دن چلتے ہیں، جس سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔"

تین لاکھ آبادی پر مشتمل تحصیل سنٹرل کرم کے علاقوں علیشرزئی اور مسوزئی کے علاقوں میں لوگوں نے ٹیوب ویل لگا لیے ہیں۔ سنٹرل کرم مسوزئی تری تانگ کے رہائشی محمد ساجد کا کہنا ہے کہ گاؤں کا چشمہ سوکھ جانے کے بعد چھ کلومیٹر دور ساڑے خوا سے پائپ لائن میں پانی لایا جاتا ہے جو تین گاؤں کی مشترکہ  طور پر بنی ایک ٹینکی میں جمع ہوتا ہے اور نمبرداری کے حساب سے ایک دن ایک گاؤں کیلئے میسر ہوتا ہے۔

انٹرنیشنل سنٹر فار بائیوسیلین ایگریکلچر کیلئے 2020 میں اسد سرور قریشی کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا میں تیسرا بڑا ملک ہے جو زراعت کیلئے زیر زمین پانی استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کی زراعت میں 70 فیصد پانی ٹیوب ویلوں سے لیا جاتا ہے اور ملک میں ایسے  بارہ لاکھ پرائیوٹ ٹیوب ویل موجود ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کیلئے پانچ ہزار چھ سو کیوبک میٹر پانی موجود تھا یہ اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے جوکہ 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

زیر زمین پانی کی کمی کو دور کرنے کیلئے اقدامات

پاکستان کی پہلی قومی آبی پالیسی 2018 میں منظور ہوئی تھی جس میں زیر زمین پانی سمیت دریاؤں کے پانی کی کمی کو قدرتی آفت قراردیا گیا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو اپنے وسائل کو مناسب انتظام کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے 2020 میں واٹرایکٹ پاس کیا اور موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے حوالے سے پالیسیاں متعارف کروائیں۔ واٹر ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت نے آبی وسائل کمیشن قائم کیا، اس ایکٹ کے مطابق چھ ماہ کے اندر واٹر ریسورسز ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل دی جانا تھی لیکن اتھارٹی ابھی تک نہیں بنائی جاسکی۔ اس ایکٹ کے مطابق شہروں میں نجی کنوؤں پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کے باوجود صوبے میں سینکڑوں کنوئیں موجود ہیں۔

ڈائریکٹوریٹ آف سوئیل اینڈ واٹر کنزرویشن نے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے ساتھ جولائی 2022 میں زیر زمین پانی کے بحران پر قابو لانے کیلئے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس کے تحت صوبے میں زیر زمین پانی کی کمی کی نشاندہی کی جائی گی اور وہاں پر زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کیلئے بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے تالاب بنائے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اجڑے دیہات، بنجر زمینیں، کھاری پانی: لاکھڑا میں کوئلے کی کانوں نے ماحول اور زندگیاں برباد کر دیں

محکمہ سمال ڈیمز کے مطابق لوئر کرم باز علی سمال ڈیم سال 2025 میں مکمل ہوگا۔ جس میں پانچ ہزار 62 ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش ہو گی۔ اس ڈیم کے اردگرد تین ہزار فٹ تک زیرزمین پانی کی مقدار 15 سے 60 فٹ تک اوپر آسکتی ہے۔

واٹراینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور کے انجینئر اور ہائیڈرالوجسٹ عامرگل خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بڑے پیمانے پر پانی ضائع ہوتا ہے، پاکستان میں سالانہ 30 ارب ڈالر مالیت کے برابر بارش کا پانی ضائع ہوتا ہے جسے ڈیمز میں سٹور کرنے سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے۔

انہوں  نے بتایا کہ اس طرح زراعت کیلئے زیر زمین پانی نکالنے کی بجائے بارانی اور دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کے منصوبوں سے پانی کی سطح کو بلند رکھا جا سکتا ہے جبکہ جنگلات لگانے اور ہر شہری کو پانی کا بے جا استعمال نہ کرنے کے بارے میں آگاہی دینے اور پانی کی بچت کیلئے قومی پالیسی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ریحان محمد کا تعلق قبائلی ضلع کرم سے ہے۔ وہ پچھلے دس سالوں سے خیبرپختونخوا سے مختلف میڈیا اداروں کے لئے ماحولیات، انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر ڈیجیٹل اور ٹیکسٹ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.