گندم کی خریداری میں سرگرم ذخیرہ اندوز: ملک کے اندر آٹے کی قیمتوں میں آضافے کا خدشہ۔

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گندم کی خریداری میں سرگرم ذخیرہ اندوز: ملک کے اندر آٹے کی قیمتوں میں آضافے کا خدشہ۔

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

محسن جٹ اپنی گندم کی فصل بیچنا چاہتے تھے لیکن انہیں اس کی سرکاری قیمت کم لگ رہی تھی جبکہ غیر سرکاری خریدار بھی اِس سے زیادہ قیمت دینے پر تیار نہیں تھے۔ لہٰذا 18 اپریل 2021 کو انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ انہیں 80 من (3200 کلو گرام) گندم کے لئے خریدار چاہئے۔ جلد ہی کئی خریداروں نے ان سے رابطہ کیا اور تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد وہ اپنی گندم 1900 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں گھر بیٹھے انہوں نے سرکاری قیمت سے ایک سو روپے فی 40 کلو گرام زیادہ کما لئے۔ 

ضلع وہاڑی کی تحصیل حاصل پور کے نواحی گاؤں 161 ایم کے رہنے والے محسن جٹ کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے کچھ کاشت کاروں نے دو ہزار روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے گندم بیچی تھی اس لئے وہ بھی کسی ایسے خریدار کی تلاش میں تھے جو انہیں ایسی قیمت دے سکے لیکن جب انہیں اس میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ دن مزید انتظار کرنے کے بعد وہ اور زیادہ قیمت وصول کر سکتے تھے لیکن ان کے پاس گندم ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا اور "خراب موسم کی وجہ سے اسے زیادہ دیر تک کھلے آسمان تلے رکھنا نا ممکن تھا"۔ 

 محسن جٹ جیسے چھوٹے کاشت کار  کچھ اور وجوہات کے باعث بھی گندم ذخیرہ نہیں سکتے۔ ان کے بقول "ایک تو انہوں نے اپنی فصل فروخت کر کے اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں اور دوسرا انہیں آئندہ فصل کے لئے بیج اور کھاد وغیرہ کا بھی بندوبست کرنا ہوتا ہے"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ سرکاری اور غیر سرکاری خریدار دونوں ہی اس مجبوری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ 2017 کی مثال دیتے ہیں جب گندم کی بھر پور فصل ہونے کے بعد حکومت نے کسانوں کو مکمل طور پر نِجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ ان کے مطابق "اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں کو اپنی گندم 13 سو روپے فی 40 کلو گرام کی سرکاری قیمت سے کہیں کم پر نِجی شعبے کو فروخت کرنا پڑی"۔ 

لیکن رواں سال کسانوں کے پاس ایک سے زیادہ خریدار موجود ہیں جن میں سے کچھ ضلع مظفر گڑھ کے رہنے والے پرویز علی کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کسانوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ پرویز علی نے 17 اپریل کو فیس بک پر لکھا کہ انہیں پانچ سو من (20000 کلو گرام) گندم چاہئے۔ اگلے ہی روز انہیں مطلوبہ مقدار میں جِنس مِل گئی۔ 

یہ گندم انہوں نے ذاتی استعمال کے لئے نہیں بلکہ شہری علاقے کے کچھ گھرانوں کے لیے خریدی ہے جو انہیں ایک ماہ پہلے ہی اس کی قیمت ادا کر چکے تھے۔ ان کے مطابق پچھلے سال آٹے کی قیمتوں میں ہونے والے شدید اضافے کی وجہ سے اس سال بہت سے شہری گھرانے ابھی سے گندم خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔

کئی درمیانے اور بڑے کاشتکار بھی اس اضافے کی توقع پر اپنی فصل ابھی فروخت کرنے کے بجائے اسے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ انجمن کاشت کاران کے ضلع رحیم یار خان کے جنرل سیکرٹری عامر غنی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال کسانوں کو تو 14 سو روپے فی 40 کلو گرام کی سرکاری قیمت کے حساب سے گندم فروخت کرنا پڑی لیکن نِجی شعبے کے کئی تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں نے بعد ازاں اسے 25 سو روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے فروخت کیا۔ لیکن ان کے مطابق اس سال ان کی تنظیم 'ہماری جنس ہمارا ریٹ' کے نعرے کے تحت کسانوں کو بتا رہی ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی گندم نہ بیچیں جب تک انہیں اس کی بہترین قیمت نہ مِل جائے۔

گندم کے نِجی خریدار

پنجاب کے جنوب مغربی ضلعے راجن پور کے علاقے مٹھن کوٹ سے تعلق رکھنے والے کاشت کار عمران فرید کو اس سال گندم کی کٹائی شروع ہونے سے پہلے ہی کئی خریداروں کی طرف سے پیش کشیں موصول ہو چکی تھیں۔ ان کے مطابق "شروع میں ان خریداروں کی طرف سے لگائی گئی قیمت سرکاری قیمت کے برابر تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تو قیمت بڑھتی گئی"۔ انہوں نے بالآخر 112000 کلو گرام گندم ایک بیوپاری کو سرکاری قیمت سے 50 روپے فی 40 کلو گرام زیادہ پر فروخت کی ۔

انہیں شک ہے کہ یہ بیوپاری یا تو کسی بیج بنانے والی کمپنی کا نمائندہ تھا یا پھر کوئی بڑا ذخیرہ اندوز۔ عامر غنی بھی رحیم یار خان میں متحرک ایسے کئی خریداروں کو جانتے ہیں جو بیج بنانے والی کمپنیوں اور آٹے کی مِلوں کے نام پر کاشت کاروں سے سرکاری قیمت سے زیادہ پر گندم خرید رہے ہیں۔ 

ضلع ڈیرہ غازی خان میں متعین صوبائی محکمہ خوراک کے ایک عہدے دار کے مطابق ان کے زیرِ نگرانی علاقے میں نا صرف خیبر پختونخوا میں قائم آٹے کی مِلیں سرکاری اجازت نامے حاصل کر کے مقامی کاشت کاروں سے گندم خرید رہی ہیں بلکہ کئی تاجر گندم خرید کر اسے خیبر پختونخوا سمگل بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ بیج بنانے والی کچھ کمپنیاں حکومتی اجازت سے گندم خرید رہی ہیں "لیکن ایسے ذخیرہ اندوزوں کی ایک بڑی تعداد بھی خریداری میں لگی ہوئی ہے جو محض ان کمپنیوں کا نام استعمال کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کا کام گندم سمگل کرنا ہے"۔ 

رحیم یارخان کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر عبدالماجد خان بھی مانتے ہیں کہ بہت سے ذخیرہ اندوز اس سال مختلف حیلوں بہانوں سے گندم خرید رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے لوگوں کے خلاف بھی مقدمات درج کیے ہیں جو گندم صوبہ سندھ لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

پنجاب کے صوبائی محکمہِ خوراک کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر دراز  تسلیم کرتے ہیں کہ کئی ایسے لوگ پنجاب کے مختلف علاقوں سے گندم خرید رہے ہیں جو بیج بنانے والی کمپنیوں اور آٹے کی ملوں کے نمائندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن "ان کے بارے میں وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ آیا وہ واقعی ان کاروباری اداروں کے نمائندے ہیں یا وہ صرف ان کا نام استعمال کر رہے ہیں"۔ 

تاہم حکومتِ پنجاب گندم کی غیر قانونی خریداری کو روکنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا رہی۔ دوسری طرف آٹا مِلوں کے مالکان اور بیج بنانے والی کمپنیوں کو شکایت ہے کہ انہیں آزادانہ طور پر گندم خریدنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ سِیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین چوہدری آصف علی کہتے ہیں کہ گندم کا بیج بنانے والی قریباً تین سو کمپنیوں نے پانچ سے چھ لاکھ ٹن گندم خریدنا ہے لیکن محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ نے انہیں خریداری سے روک رکھا ہے جس کے باعث "اپریل کے تیسرے ہفتے تک ان کمپنیوں کو ایک لاکھ ٹن گندم بھی نہیں مِلی"۔ 

چند روز پہلے وزیر اعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں ایسوسی ایشن کا کہنا تھا  کہ خریداری میں رکاوٹوں کی وجہ سے "خدشہ ہے کہ آئندہ سال ملک میں گندم کا تصدیق شدہ بیج تیار نہ ہو پائے گا"۔ 

اسی طرح فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا کا کہنا ہے کہ اس سال پنجاب حکومت نے صوبے میں قائم آٹا مِلوں کو مجموعی طور پر 20 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی اجازت دی ہے لیکن ان کے بقول یہ ہدف حاصل کرنا تو دور کی بات "ابھی تو ہمیں روزانہ کی ضرورت پوری کرنے میں بھی مسائل درپیش ہیں"۔ 

ان کے مطابق پنجاب حکومت نے آٹے کی مِلوں کو گندم کی خریداری کے لئے ایسے اجازت نامے دیے ہیں جو صرف 72 گھنٹے کے لیے قابلِ عمل ہوتے ہیں۔ اگر مِل مالکان ان 72 گھنٹوں میں گندم خرید کر اسے اپنی مِلوں کے اندر نہیں لے آتے تو ان کی " گاڑیوں سے گندم اتار کر سرکاری گوداموں میں منتقل کر دی جاتی ہے"۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 28 اپریل کو بہاولپور میں آٹا مِلوں کی کچھ ایسی گاڑیوں سے بھی گندم اتار لی گئی جن کے پاس موجود خریداری کا اجازت نامہ ابھی قابلِ عمل تھا۔ 

گندم کی سرکاری خریداری

اس سال پنجاب میں ایک کروڑ 66 لاکھ 70 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی جس سے ایک کروڑ 96 لاکھ ٹن پیداوار متوقع ہے۔ شہری آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس دفعہ 35 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے صوبے بھر میں 384 خریداری مراکز بنائے گئے ہیں۔

پچھلے سال حکومتِ پنجاب نے 45 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن وہ 43 لاکھ ٹن گندم ہی خرید پائی۔ رواں سال کے شروع میں بھی پنجاب کے محکمہِ خوراک نے پچھلے سال جتنا ہدف مقرر کیا تھا لیکن بعد میں اسے کم  کردیا گیا۔

عمر دراز بتاتے ہیں کہ پچھلے سال دیہی علاقوں میں گندم اور آٹے کی قلت پیدا ہو گئی تھی لیکن حکومت اس کے بارے میں کچھ نہ کر سکی کیونکہ اس کی خریدی ہوئی گندم صرف شہری علاقوں میں فراہم کی جاتی ہے۔ کاشت کاروں کے مطابق اس قلت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خریداری کا سرکاری ہدف پورا کرنے کے لئے پنجاب حکومت نے ان سے زبردستی وہ گندم بھی لے لی تھی جو انہوں نے اپنی گھریلو ضروریات کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ اس اقدام کے نتیجے میں دیہات میں موجود گندم کی مقدار دیہی آبادی کی ضرورت سے کہیں کم رہ گئی۔ 

عمر دراز کے مطابق اس سال حکومت نے گندم کی خریداری کا ہدف پچھلے سال کی نسبت پانچ لاکھ ٹن اسی لئے کم رکھا ہے تا کہ دیہی علاقوں میں اس کی قلت نہ ہو۔ چونکہ پچھلے سال کے برعکس اس سال آٹے کی مِلیں براہِ راست گندم خرید رہی ہیں اس لئے ان کے مطابق حکومت کو شہری علاقوں کے لئے بھی پہلے کی نسبت کم گندم خریدنا ہے۔ 

لیکن ان دونوں عوامل کے باوجود صوبائی حکومت کو اپنا خریداری کا ہدف حاصل کرنے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت جنوبی پنجاب میں دیکھنے میں آیا جہاں کے بہاولپور ڈویژن میں 28 اپریل تک لگ بھگ 95 فیصد گندم کاٹی جا چکی تھی لیکن اس کے باوجود گندم کی سرکاری خریداری اپنے ہدف کے 59 فیصد تک ہی پہنچ پائی تھی۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں محکمہِ خوراک 28 اپریل تک محض 52 فیصد ہدف ہی حاصل کر پایا تھا جبکہ ملتان ڈویژن میں اس تاریخ تک گندم کی خریداری ہدف سے 46 فیصد کم تھی۔ 

اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے عمر دراز  کہتے ہیں کہ پنجاب میں 70 فیصد سے 80 فیصد کاشت کاروں کے پاس گندم کو سرکاری خریداری مراکز تک پہنچانے کے لیے ٹریکٹر ٹرالی نہیں ہوتے "لہٰذا وہ بیوپاریوں کو گندم فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کے کھیت سے ان کی فصل اٹھا لیتے ہیں"۔  

لیکن عامر غنی سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کو گندم کی خریداری میں پیش آنے والی مشکلات کا تعلق کسانوں کے پاس ذرائعِ نقل و حمل کی غیر موجودگی سے نہیں بلکہ مارکیٹ میں ایسے خریداروں کی موجودگی ہے جو کسانوں کو ان کی فصل کی اچھی قیمت دے رہے ہیں۔ ان کے بقول "جب نِجی شعبے کے خریدار کسانوں کو سرکاری ریٹ سے زیادہ قیمت دے رہے ہیں تو پھر وہ حکومت کو گندم کیوں دیں گے؟"

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان میں سِم والے میٹروں کی تنصیب: 'کاشتکار اب اپنی مرضی سے اپنے ٹیوب ویل چلا اور بند نہیں کر سکتے'۔

پنجاب کے محکمہ خوراک کے علاوہ وفاقی حکومت کا ادارہ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) بھی پنجاب کے کسانوں سے ساڑھے 12 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا خواہاں ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے پنجاب کی 16 تحصیلوں میں 239 خریداری مرکز قائم کر رکھے ہیں۔(اس گندم کا ایک حصہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں، خاص طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، کو فراہم کیا جاتا ہے جبکہ باقی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے تاکہ اسے کسی ناگہانی صورتِ حال میں ملک کی خوراک کی ضروریات پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے)۔ لیکن پاسکو کو بھی مطلوبہ مقدار میں گندم نہیں مِل رہی۔ 

ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں، جہاں پاسکو گندم خرید رہا ہے، سے تعلق رکھنے والے کاشت کار اور پاکستان کسان اتحاد کے جنرل سیکرٹری عمیر مسعود کا کہنا ہے کہ پاسکو کے لئے اپنا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ بیشتر کاشت کار سرکاری نرخوں پر اپنی فصل بیچنے کو تیار نہیں۔ 

پاسکو کے سوشل میڈیا پیج پر 24 اپریل کو لگائی گئی ایک پوسٹ کے مطابق اس صورتِ حال کا سدِباب کرنے کے لئے غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں کو ان علاقوں میں گندم خریدنے سے روک دیا گیا ہے جہاں پاسکو کے خریداری مراکز قائم ہیں۔ صوبائی محکمہِ خوراک کے ساہیوال ریجن کے ایک اہلکار کے مطابق ان کے زیرِ نگرانی علاقے میں آڑھتیوں کو گندم کی خریداری کے لیے جاری کردہ لائسنس اسی وجہ سے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ 

اسی طرح فلور ملز ایسوسی ایشن کے عاصم رضا کا دعویٰ ہے کہ جن تحصیلوں میں پاسکو گندم کی خریداری کر رہا ہے وہاں خریداری کا اجازت نامہ ہونے کے باوجود آٹے کی مِلوں کو گندم حاصل کرنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خدشات اور خطرات 

پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہ کسان اپنی ضرورت کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ دوسرا حصہ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے ان لوگوں کو چلا جاتا ہے جو خود گندم اگانے کے بجائے اسے خریدتے ہیں۔ تیسرا حصہ شہری آبادی کو آٹا فراہم کرنے اور ان علاقوں کو گندم پہنچانے کے لئے استعمال ہوتا ہے جہاں اس کی کاشت نہیں ہوتی۔ تمام حکومتی اور نِجی خریدار ہر سال اسی حصے کی خرید و فروخت میں لگے ہوتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 22 مارچ 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.