چائلڈپروٹیکشن بیورو لاہور کی نرسری میں ایک 'ننھی پری' کا نام رکھا جا رہا تھا جس کی وجہ سے یہاں خاصی رونق تھی۔ بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے سٹاف کی مشاورت سے بچی کا نام رابعہ تجویز کیا اور اب بیورو ہی رابعہ کا گھر ہو گا۔
اس بچی کو دو ہفتے قبل میانوالی کے ایک سرکاری ہسپتال سے یہاں لایا گیا تھا جس کو جنم دینے والی ماں اسے ہسپتال میں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ ہسپتال انتظامیہ نے پولیس کو آگاہ کیا اور پولیس نےاس بچی کے والدین کی تلاش میں ناکامی پر اسے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا۔
چائلڈپروٹیکشن بیورو کے ترجمان وسیم عباس بتاتے ہیں کہ اس ادارےکا قیام 2005ء میں عمل میں آیا تھا لیکن کئی برسوں تک یہاں نوزائیدہ بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم 2012ءکے بعد لاوارث نوزائیدہ بچوں کو تحویل میں لینے پر زیادہ توجہ دی گئی۔
ترجمان کے مطابق 31 دسمبر 2023ء تک نرسری میں مجموعی طور پر 371 نوزائیدہ بچے لائے گئے جن میں 154 بچے(میل بے بی) جبکہ 217 بچیاں تھیں۔ یعنی لاوارث چھوڑے جانے والے بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی تھی۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ نوزائیدہ بچوں کو لاوارث چھوڑنے کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے ایک جسمانی نقص ہے یعنی جسمانی نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے اکثر لاوارث چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
" بعض اوقات بیٹے کے خواہش مند لوگ بھی بیٹی پیدا ہو نے پر اسے ہسپتال میں چھوڑ کر کسی کو بتائے بغیر چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر نکاح ماں بننے والی عورتیں بھی بدنامی کے خوف سے بچے کو ہسپتال، پارک یا کسی ویرانے میں چھوڑ دیتی ہیں۔"
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے مطابق 2022ء میں 24 لاوارث بچے نرسری میں لائے گئے تھے۔ ان دو برسوں کے دوران نرسری لائے جانے والے بچوں میں سے کئی اب بھی بیورو میں ہی پرورش پارہے ہیں جن میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم سرچ فار جسٹس کی پروگرام مینجر راشدہ قریشی بھی سارہ احمد کی بتائی گئی باتوں سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بغیر نکاح کے تعلقات کے نتیجے میں بچے کی پیدائش بھی ناخواندگی یا پسماندگی کی علامات میں سے ایک ہے کیونکہ فیملی پلاننگ سے متعلق آگاہی ہو تو ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دقیانوسی خیالات کے حامل لوگ آج بھی بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں بیٹیوں سے امیتیازی سلوک لاوارث چھوڑے جانے والے بچوں تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں یہ صنفی امتیاز واضح نظر آتا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم ہر سال گلوبل جینڈر گیپ (صنفی امتیاز) انڈیکس جاری کرتا ہے جس کی بنیاد کا پیمانہ صرف چار عوامل یعنی خواتین کی اقتصادی معاملات میں شراکت اور مواقع، ان کی تعلیم ، صحت و بقاء اور سیاسی اداروں میں کردار کو بنابا جاتا ہے۔
اسی تناظر میں ہر ملک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
2023ء کے صنفی مساوات انڈیکس میں پاکستان 146 ممالک کی فہرست میں 142ویں نمبر پر آیا ہے جبکہ پاکستان کے بعد ایران، الجیریا، چاڈ اور افغانستان ہیں۔
ملک خداداد میں بچیوں سے امتیازی سلوک کی کئی شکلیں ہیں جن میں پہلی لڑکوں کے مقابلے میں بچیوں کو تعلیم کے کم مواقع فراہم کرنا ہے۔
اقوام متحداہ کے ادارے یو این وومن کی 2020ء کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33.6 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر (پرائمری اور لوئر سیکنڈری تعلیم) ہیں جبکہ لڑکوں میں یہ تناسب21.7 فیصد تھا۔
ادارہ تعلیم و آگاہی کی صوبائی کوآرڈینیٹر فاطمہ جعفر بتاتی ہیں کہ پاکستان میں غربت اور سکولوں تک مشکل رسائی بچوں کے سکول سے باہر رہنے کی بڑی وجوہات ہیں۔تاہم بہت سے والدین بیٹوں کو سکول بھیجتے ہیں مگر لڑکیوں کو نہیں جانے دیتے۔
وہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم کے برابر مواقع نہ ملنے کی بڑی وجہ سماجی پسماندگی ہے جس کے لیے لڑکی کو کبھی خاندانی روایت اور کبھی 'پرایا دھن' کے نام پر گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیہات میں ہائی سکول اور کالج دور ہونے کا بہانہ مل جاتا ہے جبکہ اکثر اوقات صرف 'بیٹی' ہونے کے باعث بےجا پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
"ہمارے معاشرے میں بیٹیوں سے صرف تعلیم اور جائیداد ہی نہیں بلکہ کھانے پینے،کپڑے جوتے، پاکٹ منی، آؤٹنگ سمیت ہر معاملے میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں گھروں میں لڑکیوں سے کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے۔"
یو این وومن رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ لڑکیاں اپنا 18.8 فیصد وقت بلا معاوضہ گھریلو کاموں اور گھر کی دیکھ بھال پر صرف کرتی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں لڑکے گھر کو اپنا 1.8 فیصد وقت دیتے ہیں۔
فاطمہ جعفر کا کہنا تھا کہ بعض والدین لڑکیوں کو سکول،کالج اور گھر سے باہر کام پر بھیجنے سے ڈرتے ہیں جس کی بڑی وجہ جنسی زیادتی اور ہراسانی کے واقعات ہیں۔ جبکہ ایسا صرف باہر ہی نہیں ہوتا گھروں میں بھی ہوتا ہے۔
یو این رپورٹ بتاتی ہے کہ 2018 ء میں 15 سے 49 سال عمر کی 16.2 فیصد پاکستانی خواتین نے شکایت کی کہ وہ پچھلے 12 ماہ کے دوران اپنے موجودہ یا سابق قریبی ساتھی کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی ( یا دونوں طرح کے) تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے تحفظ اورحقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2023ء کے دوران بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد، اغوا اور قتل کے چار ہزار 213 کیس سامنے آئے جن میں دو ہزار251 بچیوں جبکہ ایک ہزار 962 لڑکوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسی رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے 75 فیصد واقعات پنجاب، 13 فیصد سندھ، سات فیصد اسلام آباد تین فیصد خیبرپختونخوا اور دو فیصد ملک کے دیگر علاقوں سے رپورٹ ہوئے تھے۔
پاکستان خواتین کے خلاف جرائم کے لحاظ سے پہلے پانچ ممالک میں آتا ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ادارہ برائے خواتین، امن اور سلامتی نے 2021ء کے ڈبلیو پی ایس انڈیکس میں دنیا کے 170 ممالک میں سے پاکستان کو خواتین کے لیے چوتھا خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان سے پہلے صرف افغانستان، شام اور یمن کے نام آتے ہیں۔
لڑکیوں کے لیے پاکستانی سماج میں مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے۔
یو این وومن کے مطابق 20 سے 24 سال کے درمیان عمر کی خواتین کے سروے میں پتا چلا کہ ان میں سے 3.6 فیصد کی شادی پندرہ سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی جبکہ 18.3 فیصد اٹھارہ سال کی حد تک پہنچنے سے پہلے ہی بیاہ دی گئیں۔
ساحل کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2023ء میں 27 لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے واقعات پیش آئے۔
یہ بھی پڑھیں
نوزائیدہ بچیوں کو ہسپتال میں چھوڑ جانے والے والدین: 'ایسے فیصلے زیادہ تر باپ کرتے ہیں'۔
ادارہ تعلیم و آگاہی کی صوبائی کوآرڈینیٹر سمجھتی ہیں کہ بیٹیوں کی کم عمری میں شادیوں کا رحجان لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم، اقتصادی و سیاسی عمل شرکت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس سے ملک میں نہ صرف سماجی بلکہ معاشی ترقی بھی متاثر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سٹڈی رپورٹ کم عمری کی شادی کے گیارہ منفی اثرات کی نشاندہی کرتی ہے جن میں لڑکی کی تعلیم، صحت، کام کرنے کی صلاحیت، بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت، آبادی ، بچوں کی اموات، خواتین کی فیصلہ سازی میں شمولیت اور گھریلو تشدد جیسے عوامل نمایاں ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے جی ڈی پی، انسانی ترقی اور اقتصادی ترقی پر ضرب پڑتی ہے جس کے نتائچ غربت اور عدم مساوات کی شکل میں کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
چائلڈپروٹیکشن بیورو نرسری کی نگران نازیہ زیب کہتی ہیں کہ ان کی نرسری میں اب بھی بچیوں کی تعداد بچوں سے لگ بھگ دو گنا ہے۔ بچیاں ان سے کافی مانوس ہو جاتی ہیں لیکن جب کوئی جوڑا ان میں سے کسی کو گودلیتا ہے تو انہیں خوشی ہوتی ہے کہ اسے خاندان اور شناخت مل جائے گی۔
تاریخ اشاعت 19 مارچ 2024