ملک میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی تیاریاں اور سیاسی صف بندیاں جاری ہیں۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ خواتین ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک آنے پر آمادہ کرنا ہے۔
2018ء کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کے کم ٹرن آؤٹ کے باعث الیکشن کمیشن نے شانگلہ کے صوبائی حلقہ (پی کے 23) کا انتخابی نتیجہ کالعدم قرار دے دیا تھا اور یہاں دوبارہ پولنگ کرائی گئی تھی کیونکہ یہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ صرف پانچ فیصد تھا۔
انتخابی قوانین کے تحت حلقے میں کم سے کم دس فیصد خواتین کا ووٹ ڈالنا ضروری ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں مجموعی طور پر 56.07 فیصد مردوں اور 46.89 فیصد خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ لگ بھگ 35 فیصد رہا۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق سوات کے 34، بنیر کے 25 اور بٹگرام کے 23 پولنگ سٹیشنوں پر خواتین کے ٹرن آؤٹ کی شرح 10 فیصد سے کم تھی۔ کئی پولنگ سٹیشنز پر تو ایک بھی خاتون ووٹ ڈالنے نہیں آئی۔
اسی طرح کی صورت حال ضلع شانگلہ میں تھی۔اس ضلعے کی 90 فیصد آبادی دورافتادہ پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے۔ مردوں کی اکثریت کان کنی سے وابستہ ہے جو ملک بھر میں کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہاں تعلیمی سہولیات بہت کم اور شرح خواندگی صرف 25 فیصد ہے۔
حالیہ مردم شماری میں شانگلہ کی کل آبادی نو لاکھ کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔ ضلع میں بلدیاتی انتخابات سمیت کسی بھی الیکشن میں جنرل نشستوں پر کبھی کوئی خاتون اُمیدوار سامنے نہیں آئی اور نہ ہی خواتین کی اکثریت ووٹ ڈالنے جاتی ہے۔
پچھلے عام انتخابات میں شانگلہ کی قومی نشست این اے 10 پر مجموعی ٹرن آؤٹ 34.34 فیصد تھا جبکہ خواتین کے ووٹوں کی شرح 9.87 ریکارڈ ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ نشست دوبارہ انتخابات سے بچ گئی اور مسلم لیگ نواز کے اُمیدوار عباداللہ ایم این اے بن گئے تھے ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق صوبائی حلقہ پی کے 24 میں خواتین کے کل 75 ہزار 321 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے صرف 10 ہزار 278 ووٹ ڈالے گئے تھے۔یعنی خواتین کا ٹرن آؤٹ 13.68فیصد تھا۔
پی کے 23 پر پچھلے عام انتخابات میں دو لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹوں میں سے70 ہزار کے قریب ووٹ ڈالے گئے تھے۔ یوں اس نشست پر بھی پولنگ کی مجموعی شرح 34.86 فیصد تھی لیکن خواتین کا ٹرن آؤٹ صرف 5.02 فیصد تھا۔ یعنی کل تین ہزار 505 خواتین نے ووٹ ڈالے تھے۔
الیکشن کمیشن نے نتیجہ منسوخ کر کے اس حلقے میں دوبارہ پولنگ کرائی تھی۔ تب مجموعی ٹرن آؤٹ تو پہلے سے بھی کم یعنی 27.8 فیصد رہا مگر خواتین کے ووٹ 11.2 فیصد ہونے کے باعث انتخابات مکمل قرار پائے تھے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے عدنان منیر شانگلہ کی تحصیل الپوری کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2018ء سے پہلے سیاسی جماعتیں اور آزاد اُمیدوار اتفاق رائے سے خواتین کا حق رائے دہی چھینتے رہے۔
"سب ایک ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کر لیتے تھے کہ خواتین کی پولنگ نہیں ہو گی۔ پولنگ عملہ دن بھر خاتون ووٹروں کے انتظار میں بیٹھا رہتا اور شام کو صفر ووٹ کے ساتھ پولنگ بند ہوجاتی تھی۔"
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ الیکشن میں خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ دس فیصد لازم قرار پایا تو یہاں ن لیگ اور پی ٹی آئی میں مقابلہ ہو ہو رہا تھا۔ دونوں اُمیدواروں نے ملی بھگت سے صرف مخصوص علاقوں میں خواتین کی پولنگ کرائی۔ جس سے قومی اور ایک صوبائی نشست کا نتیجہ کالعدم ہونے سے بچ گیا۔
بشام کی رہائشی سمیرا خان سکول ٹیچر ہیں۔ وہ پچھلے دونوں (جنرل اور لوکل باڈیز) انتخابات میں بطور پولنگ افسر ڈیوٹی دے چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں اتنی خواتین ووٹ ڈالنے آئیں کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا مگر عام انتخابات میں چند ہی خواتین نے پولنگ سٹیشن کا رخ کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میں خواتین کی اکثریت اپنے رشتہ دار یا برادری کے اُمیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے نکلتی ہیں مگر عام انتخابات میں پارٹی کے مقامی عہدیدار اور اُمیدوار اپنے گھر کی خواتین کو بھی ووٹ ڈالنے نہیں لاتے۔
ان کا خیال ہے کہ الیکشن پر خواتین کی حفاظت کے لیے لیڈیز پولیس اہلکار تعینات ہوں، عملے کی مناسب ٹریننگ اور سب سے اہم بات یہ کہ خواتین کے پولنگ سٹیشن مردوں سے الگ اور آبادی کے قریب ہوں تو خواتین کے ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
شانگلہ کے الیکشن افسر عنایت الرحمن بتاتے ہیں کہ اس بار پولنگ سٹیشنوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنے اقدامات اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے خواتین کے ٹرن آؤٹ میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے۔ امید ہے ماضی کے مقابلے میں صورت حال بہتر ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں
بلدیاتی حکومتیں: اپر دِیر کی خواتین ارکان کونسل کے اجلاسوں میں شرکت سے کیوں گریزاں ہیں؟
الیکشن ایکٹ کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے لیے جنرل نشستوں پر پانچ فیصد خواتین امیدوار لانا لازمی ہے۔ مگر شانگلہ سے خاتون امیدوار سامنے آنے کا کوئی خاص امکان نظر نہیں آتا۔
مسلم لیگ (نواز) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کہتے ہیں کہ فی الحال شانگلہ میں کوئی خاتون سیاست دان نہیں ہے۔ امید ہے مستقبل میں خواتین سیاست میں آئیں گی تو انہیں ٹکٹ بھی ملیں گے۔
خواتین کے کم ٹرن آؤٹ پر وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ کے کارکن اور مقامی رہنما اس پر خصوصی توجہ دیں گے تاکہ پولنگ کے دن زیادہ سے زیادہ خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھر سے نکلیں۔
نیاز خان ضلع شانگلہ کے سرگرم سماجی کارکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں یہاں خواتین کا سیاست میں حصہ لینا معیوب اور روایات کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرسودہ روایات صرف خواتین ہی کو نہیں بلکہ پورے سماج کو پیچھے دھکیل رہی ہے۔
"سیاسی جماعتیں خواتین امیدوار لائیں، انہیں سیاسی سرگرمیوں اور انتخابی مہم میں شامل کریں تو خاتون ووٹروں کو بھی متحرک کیا جا سکتا ہے۔ اسی سے ہی مثبت تبدیلی آئے گی۔"
تاریخ اشاعت 16 دسمبر 2023