پچیس سالہ نسرین کا تعلق میانوالی شہر کے محلہ ابراہیم آباد سے ہے۔ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے حال ہی میں ماسٹرز کیا ہے جہاں ان کا داخلہ سپورٹس کوٹہ پر ہوا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ اتھلیٹکس کی کھلاڑی تھیں جہاں وہ یونیورسٹی مقابلہ جات میں شریک ہوتی رہی ہیں۔
پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے گھر واپس آ چکی ہیں۔ وہ اپنی پریکٹس جاری رکھنا چاہتی ہیں لیکن میانوالی شہر میں خواتین کے لیے کوئی بھی علیحدہ پارک یا گراونڈ موجود نہیں ہے ، جس کی وجہ سے وہ گھر تک محدود ہیں۔
"میرے والدین نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور مجھے کالج اور یونیورسٹی اتھلیٹکس میں حصہ لینے کے لیے سپورٹ کیا لیکن میانوالی کا معاشرہ بہت زیادہ پسماندہ ہے۔ یہاں خواتین کے لیے علیحدہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے میری ٹریننگ گھر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ اس پدر سری معاشرے میں میرے لیے کسی صورت بھی مخلوط پارک میں ٹریننگ کرنا ممکن نہیں۔"
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع میانوالی کی کل آبادی 15 لاکھ 46 ہزار سے زائد ہے جن میں سے نصف خواتین ہیں۔
شہر میں اس وقت صرف تین پارک موجود ہیں۔ان میں حالیہ تعمیر ہونے والے سٹی پارک کے علاوہ ڈریم لینڈ پارک اور کشمیر پارک شامل ہیں جہاں سہولیات ناکافی اور غیر معیاری ہیں۔ کوئی ایک پارک بھی ایسا نہیں جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہو۔
یہ تنیوں پارک قومی اسمبلی کے سابقہ حلقے این اے 96 میں آتے ہیں جہاں 2018ء کے الیکشن میں پاکسان تحریک انصاف کے امجد علی خان ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔
سماجی رہنما نازیہ سفیر اسڑ کا کہنا ہے کہ میانوالی میں 99 فیصد خواتین پردہ دار ہیں جن کے لیے خاندان کی جانب سے مخلوط پارک میں چہل قدمی یا ورزش کے لیے جانا ممنوع ہوتا ہے کیونکہ میانوالی کا کلچر کبھی بھی اس چیز کے لیے ساز گار نہیں رہا جس کی وجہ سے خواتین گھر کی چار دیواری تک ہی محدود ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ میانوالی کی روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی ایک پارک کو صرف خواتین کےلیے مخصوص کر دے تا کہ وہ بھی جسمانی صحت کا خیال رکھ سکیں۔
شہر میں خواتین کے لیے تین پرائیویٹ جم موجود ہیں لیکن ان کی ماہانہ فیس بھرنا متوسط طبقہ کی خواتین کے لیے مشکل ہے۔ مالکان کے مطابق خواتین کی کم تعداد ہی جم میں باقاعدگی سے آتی جاتی ہے۔
سینتیس سالہ شازیہ بھی میانوالی شہر کی ہی رہائشی ہیں اور سکول ٹیچر ہیں۔ ان کےشوہر تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شازیہ کے دو بچے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے گھر کے نہایت قریب واقع کشمیر پارک میں ہر روز شام کو چہل قدمی کےلیے جایا کرتی ہیں لیکن گزشتہ ایک ماہ سے ان کے خاوند نے انہیں پارک جانے سے منع کر دیا ہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ "میں اپنے بچوں کے ساتھ تقریبا روز ہی پارک میں جاتی تھی جہاں چہل قدمی بھی ہو جاتی اور بچے بھی جھولوں کے ساتھ کھیل لیتے تھے۔ پارک میں میرے علاوہ چند ہی خواتین آتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل پارک میں موجود کچھ خواتین کو دیکھ کر چند نامعلوم لوگوں نے سیٹیاں بجائیں اور جملے کسے۔میں نے اس بات کا ذکر اپنے شوہر سے کیا تو انہوں نے مجھے پارک جانے سے روک دیا اور کہا کہ گھر میں ہی واک کر لیا کرو، یہ پارک خواتین کےلیے مناسب نہیں ہے۔ "
خواتین کو چھیڑ چھاڑ یا ہراس کرنے کی روک تھام کے لیے پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 509 موجود ہے جس کے مطابق ایسے جرم کے مرتکب فرد کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے پولیس اسٹیشن سٹی میں تعینات سب انسپکٹر رقیہ ملک نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشہ تین سال سے ہراسمنٹ کا ایک کیس بھی درج نہیں ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ قوانین سے عدم واقفیت کے ساتھ معاشرتی رویے بھی ہیں۔
" بیشتر خواتین روز ایسے رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔ گھر ذکر کریں تو خاندان کی سپورٹ نہیں مل پاتی جس کی وجہ سے کیسز رجسٹر نہیں ہو تے"۔
میونسپل کمیٹی نے کے حکام کے مطابق کسی پارک میں باقاعدہ سکیورٹی گارڈ موجود نہیں ہوتے۔ "کیونکہ کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی گارڈز تعینات کرنے کی"۔
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج میانوالی میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر طارق مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ معاشرے کا عجیب المیہ ہے کہ یہاں ہر روایت خواتین کے ساتھ ہی منسوب کی جاتی ہے۔ جتنی روایات کی پاسداری کا رول خواتین کو نبھانا پڑتا ہے اتنا مرد بھی ذمہ داری نبھانے کا پابند ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، سمیرا علوی صاحبہ نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میانوالی جیسے پدرسری معاشرے میں خواتین ظلم تو سہتی رہتی ہے لیکن آواز بلند نہیں کرتی جس کی وجہ اکثر روایات کو قرار دیا جاتا ہے۔
"کوئی ہمت کر بھی لے تو اس کے کردار پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں اور مرد کی عامیانہ حرکات کو غلطی کہہ کر جسٹفائی کر لیا جاتاہے اور معذرت کر کے کہانی ختم کر دی جاتی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
بھرتیوں پر پابندی یا محکمہ جنگلات کی سُستی: کندیاں فاریسٹ پارک کی تعمیر تاخیر کا شکار
میونسپل کمیٹی کے سپرنٹینڈیٹ اصغر حسین شاہ کہتے ہیں کہ میانوالی کی کسی ضلعی انتظامیہ نے کبھی کوئی ایسی سکیم کی منظوری نہیں دی جس میں خواتین کے لیے علیحدہ سے تفریحی سہولیا ت کا انتظام ہو۔ تاہم موجودہ ضلعی حکومت نے خواتین کے مطالبہ پر لیڈیز کلب قائم کیا ہوا ہے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع میانوالی، سجاد احمد خاں اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ میانوالی کے کلچر اور تہذیب سے بخوبی آگاہ ہے۔
"ہم نے خواتین کے لیے لیڈیز کلب بنایا ہوا ہے تا کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں بغیر کسی مسئلہ کے ورزش کر سکیں اور مختلف قسم کی تفریحی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ضلعی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں"۔
تاہم اس کلب میں جانے والی خواتین ڈپٹی کمشنر سے متفق نہیں ہیں۔ جہاں آراء اور عمارہ نیازی لیڈیز کلب کی باقاعدہ ممبر ہیں۔
جہاں آرا اس کلب اور اس میں موجود سہولیات کو ناکافی قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لیڈیز کلب کا حال بھی باقی سرکاری دفاتر کی طرح ہی ہے جہاں کوئی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ ہر ماہ صرف خواتین کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں دوستوں سے گپ شپ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کلب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہاں نہ جم کا سامان ہے نہ ہی کوئی جاگنگ ٹریک۔
"لیڈیز کلب کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے"۔
ڈسٹرکٹ وومن کمیٹی کی ممبر عمارہ سعید خان نیازی نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میانوالی کا امیر طبقہ تو بڑے شہروں خصوصا اسلام آباد اور لاہور میں جا کر تفریحی سہولیات سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن عام طبقہ کےلیے ضلع میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔
"ہم نے ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں درخواست جمع کرائی ہوئی ہے جس میں ان سے گزارش کی گئی ہے کہ حالیہ بننے والے سٹی پارک کو صرف عورتوں کےلیے مخصوص کر دیا جائے تا کہ ہمارے ضلع کی نوجوان بچیاں اور مائیں بھی بے فکری سے پارک جا سکیں اور اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں"۔
تاریخ اشاعت 8 جنوری 2024