پاکستان میں بِیجوں کے کاروبار کی نگرانی کرنے والے ادارے، فیڈرل سِیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ، کے لاہور ریجن کے ڈائریکٹر اعظم خان تسلیم کرتے ہیں کہ جعلی بِیج پورے ملک میں فروخت ہو رہے ہیں لیکن ان کے محکمے کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ ہر جگہ اس کاروبار پر نظر رکھ سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے محکمے کے ہر ریجن میں ایک چھوٹی سی ٹیم ہوتی ہے جو ایک وقت میں ایک ہی مقام پر چھاپہ مار سکتی ہے'۔ ان کے مطابق، جب بھی یہ ٹیم کسی ایک ڈیلر کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اس کے آس پاس کام کرنے والے دیگر ڈیلر یا تو جعلی بیج چھپا لیتے ہیں یا اپنی دکان بند کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔
اس وقت پنجاب میں ان کے محکمے کے چودہ ریجنل دفاتر ہیں جن میں سے ہر ایک میں فیلڈ سٹاف کی اوسط تعداد تین سے زیادہ نہیں جبکہ دوسری طرف بیج تیار کرنے والی 644 کمپنیاں پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں جو ہر سال ہزاروں ڈیلروں کے ذریعے کئی کروڑ کلوگرام بیج فروخت کرتی ہیں۔
پاکسان بھر میں ایسی کمپنیوں کی کل تعداد 778 ہے۔ ان میں سندھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب 96 اور 25 اور بلوچستان اور گلگت میں بالترتیب پانچ اور تین کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ پانچ غیر ملکی کمپنیاں بھی پاکستان میں کام کررہی ہیں جن میں بائیر گروپ، آئی سی آئی پاکستان، مونسینٹو پاکستان، پائنیر پاکستان اور سینجنٹا پاکستان شامل ہیں۔
اعظم خان کے مطابق بیج بنانے والی ملکی کمپنیوں کو مارکیٹ میں نیا بیج لانے سے پہلے اس بیج کو دو سال پر محیط کئی آزمائشی مراحل سے گزارنا پڑتا ہے جن میں یہ جانچ کی جاتی ہے کہ یہ بیج کتنا خالص ہے، اس کے کتنے دانوں سے کتنے پودے نکلتے ہیں اور اس میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ 'اگر ایک بیج ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد حکومت کے طے کردہ معیار پر پورا اترتا ہے تو صوبائی سیڈ کونسل اسے رجسٹرڈ کرلیتی ہے'۔
لیکن غیر ملکی کمپنیوں کے بیج کو پاکستان میں فروخت کرنے کی اجازت دینے کے لئے ایک مختلف طریقہِ کار اختیار کیا جاتا ہے جسے اندراج (enlisting) کہتے ہیں۔ اس اندراج سے پہلے بیج کو ایک سے زیادہ جگہوں پر آزمائشی طور پر بویا جاتا ہے تا کہ اس کی فی ایکڑ پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ یہ آزمائشی کاشت دو سال جاری رہتی ہے جس کے بعد مطلوبہ معیار پر پورے اترنے والے بیج کو حکومت کی طرف سے درج (enlist) کر لیا جاتا ہے اور اس کی درآمد اور فروخت کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
ایک درج شدہ (enlisted) بیج کو درآمد کرنے کے بعد مارکیٹ میں بغیر کسی روک ٹوک کے بیچا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی پیکنگ والے تھیلے پر اس کی خاصیتیں واضح طور پر درج ہوں۔ اس عمل کو truth in labelling کا نام دیا جاتا ہے جس کے تحت بیج درآمد کرنے والی کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تھیلے پر ایسا کچھ نہ لکھے جو بیج کی آزمائشی کاشت کے دوران ثابت نہ ہوا ہو۔ اسی طرح تھیلے پر موجود تحریر میں بیج کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بھی کوئی غلط بیانی نہیں ہونی چاہیئے۔
نقلی تھیلے، جعلی بیج
فیڈرل سِیڈ رجسٹریشن اینڈ سرٹیفیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساہیوال میں متعین ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالحئی کے مطابق درآمد شدہ بیج کے نمونوں کا معائنہ اسی مقام پر کیا جاتا ہے جہاں وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اس معائنے کے بغیر بیج کی کوئی درآمد شدہ لاٹ ملک کے دوسرے حصوں میں نہیں جا سکتی۔ مگر جب ایک دفعہ بیج اس معائنے میں پاس ہو جاتا ہے تو truth in labelling کے انتظام کے تحت اس کی خرید و فروخت کے دوران اس کا کوئی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ لہٰذا حکومت یہ پتا نہیں لگا سکتی کہ آیا مارکیٹ میں بکنے والے ہر تھیلے میں موجود درآمد شدہ بیج کے اجزائے ترکیبی اور خاصیتیں وہی ہیں جو اس پر درج ہیں۔
وسطی پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے ٹھینگ موڑ سے تعلق رکھنے والے کسان اور بیج ڈیلر محمد نعیم احمد کے مطابق حکومتی نظام میں یہ خامی مارکیٹ میں جعلی بیج کی موجودگی اور فروخت کا سبب بن رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ درآمدی بیج کی پیکنگ زیادہ تر پاکستان میں ہوتی ہے جس کے دوران یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ درآمد کنندگان اس میں پچھلے سال کے بچے ہوئے بیج کی ملاوٹ کر لیں۔ ان کے بقول، اگر 'نئے بیج میں پچھلے سال کا بیج ملا دیا جائے تو اس کے اگاؤ میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کی پیدوار ضرور متاثر ہو سکتی ہے'۔
یہی صورتِ حال مقامی طور پر رجسٹرڈ بیجوں کی ہے۔ حکومت ایسا کوئی نظام نہیں بنا سکی جس کی مدد سے وہ معلوم کر سکے کہ ایک مقامی کمپنی کے رجسٹرڈ بیج کا ہر تھیلہ سرکاری معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اسے غیر معیاری یا جعلی بیج کی فروخت کا تبھی پتہ حلتا ہے جب کوئی کسان اس کے پاس شکایت لے کر آتا ہے۔
اعظم خان کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ اگر فصل کا معائنہ کرے تو اسے پتا چل جائے گا کہ آیا اس میں استعمال ہونے والے بیج میں وہ ساری خاصیتیں موجود ہیں جو اس کے تھیلے پر درج ہیں یا یہ کہ اس میں کوئی ملاوٹ کی گئی ہے یا نہیں۔ لیکن ان کے مطابق موجودہ قانون انہیں از خود فصلوں کے معائنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسانوں کی شکایت پر وہ فصلوں کا معائنہ کر بھی لیں تو اس کے بعد بھی ان کے محکمے پاس یہ اختیار نہِیں کہ وہ ناقص بیج تیار کرنے اور فروخت کرنے میں ملوث لوگوں کے لائسنس منسوخ کر سکے یا ان پر کوئی جرمانہ عائد کر سکے۔ 'ہم زیادہ سے زیادہ ان کے چالان کر کے ان کے خلاف مقدمات عدالت میں پیش کر سکتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب میں نقلی بیجوں کی خرید و فروخت: کسانوں کی شکایت پر کوئی کارروائی نہِیں کی جاتی۔
تاہم عبدالحئی کا کہنا ہے کہ رجسٹرڈ کمپنیاں بیج میں ملاوٹ یا کوئی اور جعل سازی نہیں کرتیں اور نہ ہی انہیں کبھی ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں لیکن 'ہمارے پاس ایسی شکایات ضرور آئی ہیں جن میں کسی جعل ساز نے کسی بڑی کمپنی کے تھیلے چھپوا کر ان میں ناقص بیج ڈالا اور فروخت کیا'۔ ان کے مطابق، پچھلے سال ایک ایسی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے انہوں نے ایسے پچاس تھیلے پکڑے جو بظاہر ایک معروف مقامی کمپنی کے تھے مگر ان کے اندر ناقص بیج بھرا ہوا تھا۔
اعظم خان بھی عبدالحئی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے معاملات میں زیادہ تر رجسٹرڈ کمپنیوں کا عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ 'ہمارے پاس جتنی شکایات آتی ہیں ان میں سے نوے فیصد غیر رجسٹرڈ شدہ بیجوں کے بارے میں ہوتی ہیں'۔
ان کے مطابق، غیر رجسٹرڈ شدہ بیجوں کی فروخت میں مقامی ڈیلر ملوث ہوتے ہیں جو کسانوں کو ورغلا کر انہیں لوٹتے ہیں۔ لہٰذا ایسے معاملات میں ان کا محکمہ ڈیلروں کے خلاف ہی کارروائی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ریجن نے 'اس سال 470 ایسے ڈیلروں کے چالان کیے ہیں'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 18 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 11 فروری 2022